''عرب سپرنگ‘‘ کے نام سے سیاسی تبدیلی کی جو لہر تیونس، لیبیا اور مصر میں شروع ہوئی‘ اس نے شام کے بعد خلیج فارس تک پورے جزیرہ نما عرب کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ لیبیا میں قذافی اور سوڈان میں عمرالبشیر کی حکومتوں کا حشر اس کی بدترین مثالیں ہیں۔ پہلی جنگ عظیم میں چونکہ ترکی نے جرمنی کا ساتھ دیا تھا اس لئے برطانیہ نے عربوں کو ترکوں کے خلاف بغاوت پر اکسا کر فلسطین اور عراق پر بالواسطہ قبضہ کر لیا۔ لیگ آف نیشنز کے مینڈیٹ سسٹم کے ذریعے شام اور لبنان‘ فرانس کے کنٹرول میں چلے گئے اور اریٹیریا پر اٹلی نے اپنا قبضہ جما لیا۔ موجودہ سیاسی نقشہ یورپی طاقتوں کی اسی بندر بانٹ کا نتیجہ ہے اور آج مشرقِ وسطیٰ کوجن مسائل کا سامنا ہے‘ اس سب کے تانے بانے امریکا و یورپی طاقتوں کی ریشہ دوانیوں اور چالوں ہی سے ملتے ہیں۔ اسرائیل کے منصوبوں کو پورا کرنے کے لئے کئی عالمی طاقتیں کسی بھی حد تک جا نے کو تیار ہیں۔ گزشتہ ستر سالہ تاریخ شاہد ہے کہ خلیج کے مسلمانوں پر اسرائیل کو مسلط کرنے کے لئے ان طاقتوں نے کوئی کسر نہیں چھوڑ ی۔ امریکی اور اسرائیلی آلہ کار داعش کے ذریعے اسلام کو بدنام کرنے کی مذموم مہم چلائی جا رہی ہے۔ دوسری طرف چھوٹے چھوٹے گھروندوں کی صورت اختیار کر چکے مسلم ممالک بے بسی کے ساتھ تماشائیوں میں شامل ہیں۔ مسلمانانِ عالم کو سوچنا ہوگا کہ 1948ء میں صہیونیوں نے سو سال کے اندر اسرائیل کا دارالحکومت (نعوذ باللہ) مدینہ منورہ کو بنانے کا جو اعلان کیا تھا‘ اسرائیل اس کی طرف‘ اپنے مذموم منصوبے کے مطابق تیزی کے ساتھ قدم بڑھا رہا ہے جبکہ مسلم ممالک آپس کے اختلافات میں الجھ کر ایک دوسرے سے دست و گریبان ہیں۔
درحقیقت عربوں کے ذہن کو اسرائیل کی جانب راغب کرنے کیلئے امریکا نے باقاعدہ منصوبہ بندی کی تھی مگر عرب امارات کا اسرائیل کو تسلیم کرنا غیر فطری ہے کیونکہ امارات ایک معاشی پاور ہے‘ اس کی کیا ایسی مجبوری کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرے؟ بے شک ٹرمپ نے اپنا الیکشن جیتنے کے لئے عرب امارات کو اسرائیل کو تسلیم کرنے پر مجبور کیا۔ امریکا کیلئے متحدہ عرب امارات ہتھیاروں کی خریداری کے لئے ایک منافع بخش مارکیٹ بن چکا ہے۔ ایک جانب مسلم امہ کو فرقہ بندی اور ٹکڑوں میں تقسیم کیا جا رہا ہے تو دوسری جانب انہیں ایک دوسرے سے ڈرا کر امریکا وہاں اپنا اسلحہ بیچ رہا ہے۔ امریکا نے امارات کی یمن میں مدد کی اور ایران وہاں کامیاب ہوا۔ شام میں مدد کی‘ ایران وہاں کامیاب ہوا۔ قطر اور سعودی عرب کے درمیان اختلافات ڈالنے والا بھی امریکا ہے۔ مذموم منصوبے کے مطابق پہلے ان ریاستوں سے اسرائیل کو تسلیم کروایا جائے گا، بعد ازاں ان کے درمیان اختلافات کو ہوا دے کر امریکا خود یہاں آ کر بیٹھ جائے گا، اس طرح گریٹر اسرائیل کو وجود میں لایا جائے گا۔ لمحہ فکریہ ہے کہ قدرتی وسائل اور اللہ کی نعمتوں سے مالا مال مسلم ریاستوں کی اکثریت یا تو ان فسطائی طاقتوں کے قدموں میں پڑی ہے یا پھر ان کی زور آزمائی دوسرے مسلم ملکوں سے ہی ہے‘ بچے کھچے ممالک خانہ جنگی سے دوچار ہیں۔
افسوس کہ کسی بھی عرب ملک اور خلیجی تعاون کونسل اور عرب لیگ سمیت کسی بین الاقوامی مسلم تنظیم نے اس فیصلے پرکوئی منفی ردعمل ظاہر نہیں کیا۔ حالانکہ تمام مسلم ممالک کا بنیادی مقصد تو انبیاء کی سرزمین فلسطین پر ناجائز طور پر قائم کی گئی یہودی ریاست کا قلع قمع ہونا چاہئے تھا؛ البتہ ترکی نے اس پر شدید احتجاج کرکے عالم اسلام کی نمائندگی کاحق ادا کر دیا ہے۔ رسول پاکﷺ کی احادیث مبارکہ کے عین مطابق صہیونی دجالی ریاست کے عالمی اقتدار کے لئے تمام مشرقِ وسطیٰ کو آگ میں جھونک دیا گیا ہے اور عربوں کو اس خوف میں مبتلا کر دیا گیا ہے کہ کہیں ان کی آزادی سلب نہ کر لی جائے‘ اس لئے اب وہ اسرائیل سے دوستی کرنے سے ہی محفوظ ہوں گے۔ یہ معاملہ یہاں رکے گا نہیں بلکہ امریکی صدارتی الیکشن تک دراز ہو گا اور مسلم ممالک بالخصوص پاکستان پر بھی اسرائیلی ایما پر صہیونی ریاست کو تسلیم کرنے کا دبائو بڑھایا جائے گا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ صدر ٹرمپ صرف دوبارہ اقتدار کے حصول اور یہودیوں کی خوشنودی کے لئے مسلم ممالک کو ڈرا دھمکا کر ایسے مقام پر لا رہے ہیں کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے میں ہی عافیت محسوس کریں۔ گزشتہ سال ٹرمپ نے اسرائیل اور امارات کے عہدیداروں کے مابین کئی ملاقاتوں کا اہتمام کیا تھا۔ امریکا کے تمام فیصلہ ساز ادارے یہودی لابی کے ماتحت ہیں اور پینٹاگون پر بھی یہودی ہی قابض ہیں۔ امریکی امن منصوبہ، عالمی غلبہ، نیو ورلڈ آرڈر اور گلوبلائزیشن جیسی تمام اصطلاحیں ایک ہی ایجنڈے کے مختلف نام ہیں۔ عالمی سطح پر امریکا کا تخریبی کردار اس حد تک بڑھ چکا ہے کہ آج تیسری عالمی جنگ کے خطرات منڈلا رہے ہیں۔ اسرائیل کو بطور ریاست تسلیم کرنا آزادیٔ فلسطین کے شہداء، مجاہدین اور غازیوں کی قربانیوں اور جدوجہد پر پانی پھیرنے کے مترادف ہے‘ لہٰذا متحدہ عرب امارات اور اسرائیل معاہدہ عرب لیگ کے لئے موت کا پروانہ ثابت ہو گا جبکہ درحقیقت عالمی فسطائی طاقتوں کا نشانہ دنیا کی واحد مسلم ایٹمی طاقت پاکستان ہی ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے اسرائیل کو تسلیم نہ کرنے کے دو ٹوک موقف نے اس حوالے سے پائے جانے والے ابہام کو دور کر دیا ہے۔
پاکستان اور اسرائیل کے درمیان سفارتی تعلقات قائم کرنے کی پہلی کوشش 1947ء میں کی گئی تھی‘ جب اسرائیل کے پہلے وزیراعظم ڈیوڈ بین گوریان نے ایک تار قائداعظم محمد علی جناح کو روانہ کیا تھا؛ تاہم قائداعظم نے اس تار کا کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ کہا جاتا ہے کہ 1949ء میں اسرائیل کی وزارتِ خارجہ نے کراچی میں اپنی سفارتی نمائندگی کی کوشش کی تھی جو اس وقت پاکستان کا دارالحکومت تھا۔ ایک اسرائیلی جہاز بھی پاک سرزمین پر اترا تھا، خیر یہ الگ قصہ ہے۔ 2018ء سے اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے چہ میگوئیاں جاری ہیں۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے حوالے سے قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال بھی کیا گیا۔ یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ آخر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں ایک ناجائز ریاست اسرائیل کو تسلیم کرنے کی باتیں کیوں کی جا رہی ہیں؟ قائداعظم محمد علی جناح نے کہا تھا کہ ''پاکستان اسرائیل کو کبھی تسلیم نہیں کرے گا‘‘، اسی طرح شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کا کہنا تھا کہ ''اگر یہودیوں کا فلسطین کی سرزمین پر حق ہے تو پھرعرب سپین پر دعویٰ کیوں نہیں کر سکتے؟
پرویز مشرف کے دور میں بھی اس وقت کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری ترکی کے شہر استنبول میں اسرائیلی وزیر خارجہ سے ملے تھے جس کا وہ خود بار ہا اعتراف کر چکے ہیں لیکن پاکستانیوں کو اس بات سے آج تک بے خبر رکھا گیا۔ چند ہفتے قبل دارالحکومت اسلام آباد میں اسرائیل کی حمایت میں ایک کیمپ لگایا گیا اور وہاں اسرائیلی جھنڈا بھی لہرایا گیا لیکن نہ تو کسی نے سوموٹو ایکشن لیا نہ کوئی تحقیقات سامنے آئیں لگتا ہے کہ حکمرانوں اور متعلقہ اداروں نے اسے نظر انداز کر دیا۔ دوسری جانب اسرائیل کو تسلیم کرنے کو معیشت کی بہتری سے جوڑا جا رہا ہے‘ سوال یہ ہے کہ جن ملکوں نے اسرائیل سے دوستی کی وہاں کون سی دودھ کی نہریں بہہ رہی ہیں؟ ماضی میں مصر اور ترکی اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں؛ تاہم طیب اروان نے ترکی کو اس خسارے کی دلدل سے نکالنے کی کامیاب کوشش کی ہے۔ دراصل اسرائیل کو تسلیم کرانے کی سازش کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ ہم سے کشمیر بھی چھین لیا جائے اور ہمارا ایٹمی پروگرام رول بیک کرا کے عراق، لیبیا اور شام کی طرح بے یار و مددگار کر دیا جائے کیونکہ پھر تو ان طاقتوں کو جواز مل جائے گا کہ جب اسرائیل اور بھارت سے ملکی سلامتی کو کوئی خطرات لاحق نہیں تو پھر فوج اور اسلحے کی کیا ضرورت ہے؟ دنیا جانتی ہے کہ پاکستان فلسطینی عوام کے ساتھ پورے طمطراق کے ساتھ کھڑا ہے۔