بحرانوں میں گھرا نریندر مودی کا’’ شائننگ انڈیا‘‘

بھارت چینی گھیراؤ، ناموافق معاشی حالات اور ہندوستان پر راج کرنے والے کارپوریٹ اور اشرافیہ طبقے کی لوٹ مار کی بدولت نہ صرف عالمی سطح پر تنہا ہو چکا ہے بلکہ مقابلے کی دوڑ سے باہر ہونے کے ساتھ ساتھ تیزی سے ایک تاریک مستقبل کی جانب بھی بڑھ رہا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ مستقبل میں بھارت جنوبی ایشیا کا ''مردِ بیمار‘‘ کہلائے گا تو غلط نہ ہو گا۔ دراصل بھارت و چین کا سرحدی تنازع اُن عالمی فلیش پوائنٹس میں سے ایک ہے جہاں امریکی جارحیت تنازعات کا باعث بنی ہے یا اس نے ان جھگڑوں کو زیادہ سنگین بنا کر انہیں ایک ممکنہ عالمگیر جنگ کی طرف موڑ دیا ہے۔ بھارت نے لائن آف ایکچول کنٹرول کے اندر تشکیل دیے گئے بفر زون کے نام پر اپنا کچھ علاقہ کھو دیا ہے، ا ب بھارتی فوج 1992ء کے بعد سے ان علاقوں میں گشت نہیں کر سکے گی جبکہ بھارت وادی گلوان اور پینگیانگ جھیل کے ملکیتی دعوے سے دستبرداری بھی واضح طور پر قبول کر چکا ہے۔ بھارت بحری، بری، فضائی، سائبر سپیس، الیکٹرو مقناطیسی اور خلائی محاذ پر چین کا مقابلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ نہ صرف بھارت بلکہ موجودہ تناظر میں روس اور امریکہ سمیت کوئی بھی ملک چین سے کسی بھی قسم کے تنازع کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا کیونکہ اگر بھارت چین کے خلاف کسی جارحیت کا مرتکب ہوا تو مجبوراً چین اپنی برقی مقناطیسی طاقت کو بھارتی رابطوں کو ختم کرنے سمیت سائبر حملوں سے بھارتی بینکاری نظام اور خلائی جنگ میں بھارتی سیٹلائٹ سسٹم کو تباہ کرنے کے لئے استعمال کر سکتا ہے۔ ادھر بھارتی فوج گولہ بارود کی کمی کے سبب ایک ماہ سے زیادہ جنگ جاری رکھنے کا متحمل نہیں اور بھارت کے لئے یہ بھی ممکن نہیں کہ وہ پاکستان اور چین سے بیک وقت دو محاذوں پر لڑ سکے۔ حالانکہ پچھلے سال جنوری میں بھارتی فوجی سربراہ جنرل بپن راوت نے شیخی بگھاڑتے ہوئے کہا تھا کہ وہ ''دو محاذِ جنگ‘‘ یعنی ایک ہی ساتھ پاکستان اور چین کے خلاف جنگ کے لئے تیار ہیں۔ بھارت کو یہ بات ذہین نشین رکھنی چاہیے کہ چینی اور پاکستانی افواج گزشتہ کئی سالوں سے مشترکہ جنگی تربیت حاصل کر رہی ہیں لہٰذا بھارت اہل نہیں کہ اگلے دس برسوں میں بھی چین کے ساتھ جنگ لڑنے کا سوچ لے۔ اگر ہم اگلے دس برسوں میں چینی فوجی نمو کو مدنظر رکھیں تو بھارت زیادہ سے زیادہ رفتار سے بیس سال بعد اس خلا کو کم کرنے کے بارے میں سوچ سکتا ہے۔ لہٰذا چین سے جنگ جیتنا بھارت کے لئے محض ایک خواب ہے۔ موجودہ صورت میں بھارت کے پاس چین کی تمام شرائط بلا چون و چرا تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ اس سے بھارتی فوج کے لئے مشرقی محاذ پر بھی شدید دباؤ بڑھے گا۔ متنازع علاقے ارونا چل پردیش اور سکم میں چینی مداخلت کے خوف سے دباؤ میں اضافہ ہوگا۔ بھارت مذکورہ محاذ پر مزید اخراجات کرنے پر مجبور تو ہوگا مگر فنڈز کی کمی اور عدم دستیابی کی بدولت بحر ہند اور مغربی محاذ پر بھی اس کی حالت پتلی ہو جائے گی۔ دوسری جانب بھارتی ہمسائے چینی کیمپ میں شامل ہو رہے ہیں۔ چین نے پاکستان سمیت مالدیپ، سری لنکا، بنگلہ دیش اور نیپال میں وسیع سرمایہ کاری کر رکھی ہے لہٰذا بھارت کے پاس اپنے سیاسی اور میڈیا نیٹ ورک کے ذریعے ان ممالک کو دھمکیاں دینے کے سوا کوئی اور آپشن موجود نہیں۔ 
آسیان ممالک، جاپان، جنوبی کوریا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ اب سمجھ رہے ہیں کہ چین دنیا کی بڑی عسکری قوت ہے اور بھارتی فوج جو فوجی بجٹ کے حساب سے دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے‘ اگر چینیوں کے خلاف مزاحمت میں ناکام رہتی ہے تو دیگر کمزور افواج چین کا مقابلہ کیسے کر سکتی ہیں؟ اس لیے یہ ممالک مستقبل میں چین مخالف اتحاد میں شامل ہونے سے ہچکچاہٹ ضرور محسوس کریں گے۔بھارت کے ہاتھوں سے گلوان، لداخ اور پیکیانگ جھیل کا علاقہ نکل جانے کے ساتھ ساتھ اس کا مزید بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ سب سے بڑی بات یہ کہ چین سے ہزیمت کے بعد مودی ایک شکست خوردہ لیڈر کے طور پر ابھر کے سامنے آیا ہے جسے اندرونی سطح پر بھی شدید تنقید کا سامنا ہے۔اس تناظر میں بھارتی کارپوریٹ صنعتی گھرانوں، بیوروکریسی اور انٹیلی جنس کے مابین اختلافات مزید کھل کر ظاہر ہو رہے ہیں۔ داخلی طور پر بھارت کے بڑھتے ہوئے تضاد اور اس کی جغرافیائی و سیاسی کمزور پوزیشن نے اس کے عسکری و معاشی قوت کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ یقینا آنے والے دنوں میں کشمیر سمیت خالصتان اور جنوب مشرقی خطے میں آزادی کی تحریکوں میں شدت آئے گی اور ماؤ نواز باغیوں کی علیحدگی کا ایجنڈا بھی زور پکڑے گا۔ برہمن سامراج سے خود مختاری کا مطالبہ ساحلی اور غیر ہندی اقوام میں بھی اٹھ رہا ہے۔ لداخ میں چین سے پسپائی کے بعد بھارت داخلی طور پر غیر مستحکم ہو گیا ہے‘ اب وہ اس خوف میں مبتلا ہے کہ چین کسی دن بھی اپنی فوج کے ذریعے یہاں جغرافیائی و سیاسی عدم استحکام پیدا کر سکتا ہے ۔
امریکہ بھی یہ بخوبی سمجھ چکا ہے کہ بھارت چینی چیلنجزکا مقابلہ کرنے میں ناکام ہوگیا ہے کیونکہ پہلے ہی بھارت کی بطور اتحادی افغانستان میں نااہلی امریکہ کے لئے سبکی کا باعث بنی ہے۔ امریکی ''وار آن ٹیرر‘‘ میں پینٹاگون اور سی آئی اے بھارت کو ایک ''سٹرٹیجک انعام‘‘ کے طور پر فروغ دے رہے تھے کہ اس کے ذریعے بحرہند پر بالادستی قائم رکھنے کا خواب پورا کرنے میں مدد ملے گی۔ درحقیقت منظم منصوبے کے تحت واشنگٹن نے چین کے خلاف اپنی جارحانہ فوجی سٹرٹیجک میں بھارت کو ''فرنٹ لائن‘‘ ریاست بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ بش انتظامیہ نے عالمی جوہری تجارت میں اسے خاص مقام دیا۔ اوباما نے اسے ''اہم دفاعی پارٹنر‘‘ قرار دیا اور جدید ترین ہتھیار فراہم کیے۔
دوسری جانب بھارت نے 59 چینی ایپس پر خود مختاری، دفاع، سلامتی اور عوامی نظم و ضبط کے لئے خطرے کا جواز بنا کر پابندی عائد کردی ہے حالانکہ چین کی بھارت میں ہائی ٹیک سٹارٹ اپس میں وسیع سرمایہ کاری ہے۔ یقینی طور پر بھارتی کارپوریٹ خاندان چینی مالی اعانت سے شروع ہونے والی کمپنیوں اور عالمی اداروں سے مقابلے کے بجائے ان سے چھٹکارا چاہتے ہیں۔ چینی مالیاتی اداروں اور انیل امبانی کے مابین حالیہ تنازع، چین سے درآمد کم کرنے کا سجن جندال کا اعلان، مہندرا کی چین مخالف بیان بازی اور مکیش امبانی کا چینی قرضوں سے جدا ہونا... یہ سب واضح طور پر بھارتی حکمران رپوریٹ خاندانوں اور چین کے مابین کشیدگی کوعیاں کرتا ہے۔
بھارت میں چینی مصنوعات اور کمپنیوں کے حالیہ بائیکاٹ کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ بھارت میں چین مخالف جذبات کی وجہ صرف سرحدی جھڑپیں نہیں ہیں بلکہ اس کی جڑیں ہندو قوم پرستی کے عروج اور ایک بڑی طاقت بننے کے بھارتی خواب میں پیوست ہیں اور بھارتی سمجھتے ہیں کہ اس مقصد کے حصول کے لئے پہلے چین پر سبقت حاصل کرنا ضروری ہے۔ ان کے مطابق ہندوئوں کو متحد کرنے کے لئے مسلمان اور چین مخالف موقف سے زیادہ کارگر کوئی شے نہیں ہے۔ بھارت پر قابض کارپوریٹ خاندانوں کا تعلق گجرات، راجستھان اور ہریانہ سے ہے اور تمام بڑی سیاسی جماعتیں اسی کارپوریٹ طبقے کے کنٹرول میں ہیں۔ مرکزی و ریاستی پارلیمنٹوں میں ہونے والی ہارس ٹریڈنگ میں بھی یہی لوگ سرگرم ہوتے ہیں اور نئی حکومتوں کے بننے اور سینیٹ کی تنظیمِ نو کے دوران بولیاں لگا کے وزرا کو بھی خریدتے ہیں۔ امریکہ، چین تنائو میںاضافہ اور چین کو پٹری سے اتارنے کی امریکی دھمکی کے بعد کارپوریٹ خاندانوں نے بھارتی مارکیٹ میں عالمی مسابقت کو ختم کرنے کا یہی وقت بہترین سمجھا۔ وہ حکومت کو اہم قومی اثاثے سستے داموں بیچنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ بھارتی اشرافیہ کی بڑی تعداد مغرب کے ساتھ کام کرنے کی طرف مائل ہے‘ اس کے خیال میں چین کو قابو میں رکھنے کے لئے امریکی کیمپ میں شامل ہو کر گویا وہ برابر کی عالمی طاقت بن چکے ہیں۔ بھارت کی لالچی سرمایہ دار اشرافیہ نے گزشتہ برسوں میں بھارت کو امریکہ کی چین کے خلاف عسکری و تزویراتی جارحیت کا حصہ بنا دیا ہے۔ مذکورہ بھارتی دگر گوں حالات کے جائزہ لینے کے بعد سوال یہ ہے کہ پاکستان اس سے فائدہ اٹھا سکے گا یا نہیں... یہ تو بہرحال وقت ہی بتائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں