عرب اسرا ئیل معاہدہ اور قبلۂ اوّل

مسجد اقصیٰ مسلمانوں کا قبلہ اول، خانہ کعبہ اور مسجد نبوی کے بعد تیسرا مقدس ترین مقام ہے۔ احادیث پاک کے مطابق دنیا میں صرف تین مسجدوں کی جانب سفر کرنا زیادہ باعثِ ثواب و برکت ہے‘ مسجد الحرام، مسجد نبوی اور مسجد اقصیٰ۔ حضرت ابوذرؓ سے حدیث مروی ہے ''میں نے رسول اکرمﷺ سے پوچھا کہ زمین میں سب سے پہلے کون سی مسجد بنائی گئی؟ تو نبی کریمﷺ نے فرمایا :مسجد الحرام (بیت اللہ) تو میں نے کہا کہ اس کے بعد؟ تو نبی اکرم ﷺ فرمانے لگے: مسجد اقصیٰ، میں نے سوال کیا کہ ان دونوں کے درمیان کتنا عرصہ ہے؟ تو نبی اکرمﷺ نے فرمایا کہ چالیس سال، پھر فرمایا: جہاں بھی تمہیں نماز کا وقت آ جائے نماز پڑھ لو کیونکہ تمہارے (مسلمانوں) کے لیے تمام روئے زمین مسجد ہے‘‘۔ (صحیح بخاری و صحیح مسلم) ایک روز حضرت میمونہؓ نے امام الانبیاءﷺ سے مسجدِ اقصیٰ کے بارے میں سوال کیا جس پر آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ ''جائو اور وہاں پر نماز ادا کرو‘‘ اس پر حضرت میمونہؓ نے کہا کہ اگر کسی کے پاس مسجد ِ اقصیٰ جانے کی سکت نہ ہو تو وہ کیا کرے؟ رسول اکرمﷺ نے فرمایا ''پھر اس مسجد کو منور کرنے والی قندیلوں کے لئے تیل ہی روانہ کر دو‘‘۔ (سنن ابودائود) اس حدیث مبارکہ سے القدس اور مسجد ِ اقصیٰ کی اہمیت اجاگر ہو جاتی ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے اس مسجد کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے: ''پاک ہے وہ ذات جو اپنے بندے کو رات ہی رات میں مسجد حرام سے مسجد اقصیٰ لے گئی جس کے آس پاس ہم نے برکت دے رکھی ہے اس لئے کہ ہم اسے اپنی قدرت کے بعض نمونے دکھائیں‘ یقینا اللہ تعالیٰ ہی خوب سننے والا اور دیکھنے والا ہے‘‘۔ (سورہ بنی اسرائیل:1)
روایاتِ تاریخ میں آتا ہے کہ حضرت یعقوب علیہ السلام نے وحیِ الٰہی کے مطابق مسجد بیت المقدس (مسجد اقصٰی) کی بنیاد ڈالی اور اس کی وجہ سے بیت المقدس آباد ہوا۔ پھر حضرت سلیمان علیہ السلام (961ق م) کے حکم سے مسجد اور شہر کی تعمیر اور تجدید کی گئی۔ اس لئے یہودی مسجد بیت المقدس کو ہیکل سلیمانی کہتے ہیں۔ یہی شہر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کا مقام بھی ہے اور یہی ان کی تبلیغ کا مرکز تھا۔ مسلمان تبدیلیٔ قبلہ سے قبل تک اسی مسجد کی طرف رخ کرکے نماز ادا کرتے تھے۔ 620ء میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم جبریل امین کی رہنمائی میں مکہ سے بیت المقدس پہنچے تھے اور مسجد اقصیٰ میں تمام انبیاء کرام ؑکی امامت کرنے کے بعد براق کے ذریعے آسمانوں کے سفر پر روانہ ہوئے اور یہیں سے معراجِ آسمانی کے لئے تشریف لے گئے۔ 624ء تک بیت المقدس ہی مسلمانوں کا قبلہ تھا، حتیٰ کہ حکم الٰہی کے مطابق کعبہ (مکہ) کو قبلہ قرار دیا گیا۔ جب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں مسلمانوں نے بیت المقدس فتح کیا تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بیت المقدس میں صخرہ (وہ چٹان جہاں سے معراج کا سفر شروع ہوا)اور براق باندھنے کی جگہ کے قریب‘جہاں انہوں نے اپنے ساتھیوں سمیت نماز ادا کی تھی ، مسجد تعمیر کرنے کا حکم دیا ۔
1099ء میں پہلی صلیبی جنگ کے موقع پر یورپی صلیبیوں نے بیت المقدس پر قبضہ کر کے 70ہزار کے قریب مسلمانوں کو شہید کر دیا اور مسجد اقصیٰ میں بہت تعمیری رد و بدل کیا۔ مسجد میں کئی کمرے بنا ئے گئے اور اس کا نام معبد سلیمان رکھا، نیز متعدد دیگر عمارتوں کا اضافہ کیا جو اناج کی کوٹھیوں اور دیگر مقاصد کے لیے استعمال ہوتی تھیں۔ مسجد کے اندر اور مسجد کے گردا گرد گرجا بھی بنایا گیا۔ سلطان صلاح الدین ایوبی نے 1187ء میں فتح بیت المقدس کے بعد مسجد اقصیٰ کو عیسائیوں کے تمام نشانات سے پاک کیا اور محراب اور مسجد کو دوبارہ تعمیر کیا۔پہلی جنگ عظیم کے دوران انگریزوں نے بیت المقدس اور فلسطین پر قبضہ کر کے یہودیوں کو آباد ہونے کی عام اجازت دے دی۔ یہود و نصاریٰ کی سازش کے تحت نومبر 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے غیر منصفانہ طریقے سے فلسطین کوعربوں اور یہودیوں میں تقسیم کر دیا اور جب 14مئی 1948ء کو یہودیوں نے اسرائیل کے قیام کا اعلان کیا تو پہلی عرب اسرائیل جنگ چھڑ گئی۔ جنگ کے نتیجے میں اسرائیلی فلسطین کے 78فیصد رقبے پر قابض ہو گئے؛ تاہم مشرقی القدس اور غرب ِاردن کے علاقے اردن کے قبضے میں آ گئے۔ تیسری عرب اسرائیل جنگ 1967ء میں اسرائیلیوں نے بقیہ فلسطین اور بیت المقدس پر بھی تسلط جما لیا۔ہنوزمسلمانوں کا قبلہ اول یہودیوں کے قبضے میں ہے۔ یہودیوں کے بقول اب ہیکل سلیمانی کی ایک دیوار کا کچھ حصہ ہی بچا ہوا ہے جہاں دو ہزار سال سے یہودی زائرین آکر رویا کرتے تھے، اسی لئے اسے ''دیوارِ گریہ‘‘ کہا جاتا ہے۔ اب یہودی مسجد اقصیٰ کو گرا کر ہیکل تعمیر کرنے کے منصوبے بناتے رہتے ہیں۔ اسرائیل نے بیت المقدس کو اپنا دارالحکومت بھی قرار دے رکھا ہے۔ 
دو ہزار برس سے دنیا بھر کے یہودی ہفتے میں چار مرتبہ یہ دعائیں مانگتے رہے ہیں کہ بیت المقدس پھر ہمارے ہاتھ آئے اور ہم ہیکلِ سلیمانی کو پھر تعمیر کریں ۔12ویں صدی عیسوی کے مشہور یہودی فلسفی موسیٰ بن میمون نے اپنی کتاب شریعتِ یہود میں صاف صاف لکھا ہے کہ ہر یہودی نسل کا یہ فرض ہے کہ وہ بیت المقدس میں ہیکل ِ سلیمانی کو ازسرِ نو تعمیر کرے۔ فری میسن تحریک میں بھی ہیکل ِ سلیمانی کی تعمیر ِ نو کو اصل مقصود قرار دیا گیا ہے؛ چنانچہ اب اسرائیل کی جانب سے عرب ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی آڑ میں مسجد اقصیٰ کی تقسیم کی سازش عروج پر ہے۔
متحدہ عرب امارات اور بحرین کے ساتھ کئے گئے حالیہ معاہدوں میں ایک متنازع شق بھی شامل کی گئی ہے جس کے تحت یہودیوں کو مسجد اقصیٰ میں داخلے کی اجازت ہو گی۔ یہ شق تسلیم کرکے دراصل متحدہ عرب امارات مسجد اقصی پر مسلمانوں کے مکمل اختیار سے دستبردار ہوگیا ہے اور مذکورہ معاہدے کے پس پردہ مسجد اقصیٰ کی تقسیم کے امریکی و صہیونی گھنائونے کھیل کو بھی بے نقاب کر دیا ہے۔ معاہدے کی یہ شق بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی اور 1967 ء میں مسجد اقصیٰ کی تسلیم شدہ حیثیت کو غیر قانونی طور پر تبدیل کرنے کی کوشش ہے کیونکہ 1967 ء میں یہ تسلیم کیا جاچکا ہے کہ اس احاطے پر صرف مسلمانوں کا حق ہے۔اگرچہ بیت المقدس پر اسرائیلی قبضے کے بعد سے اب تک یہودیوں کو محض سیاحتی مقاصد کے لیے مسجد اقصیٰ میں داخلے کی اجازت ہے مگر یہودی آباد کار قبلہ اول میں گھس کر تلمودی تعلیمات کے مطابق مذہبی رسوما ت بھی ادا کرتے ہیں؛ تاہم متنازع شق پر عملدرآمد پوری امت مسلمہ کے لئے لمحہ فکریہ ہے ۔ کیا مسلمانوں کے قبلۂ اول کو پنجۂ یہود سے آزاد کروانے والی بات قصہ پارینہ ہو چکی ہے ؟جن مسلم ممالک کو اسلامی تعاون تنظیم کے پلیٹ فارم سے مسجد اقصیٰ کی آزادی کی جنگ لڑنا تھی وہ باہم دست و گریبان ہو کر اسرائیل کی جھولی میں جا گرے ہیں اور اسرائیل کو تسلیم کرنے میں ایک دوسرے پر سبقت لے جا رہے ہیں۔ 
ٹیریسٹیریئل یروشلم (ٹی جی) نامی این جی او کی ایک حالیہ خصوصی رپورٹ میں بھی مسجد اقصیٰ کی تقسیم کا امکان ظاہر کیا گیا ہے۔ اسرائیل مسلمانوں کی طرح یہودیوں کو بھی مسجد اقصیٰ میں عبادت کا حق دلوانا چاہتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں اسرائیل مسجد ابراہیمی کی طرح مسجد اقصیٰ کو بھی یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان زمانی اور مکانی اعتبار سے تقسیم کرنا چاہتا ہے۔واضح رہے کہ 1994ء میں غربِ اردن کے شہر الخلیل میں قائم تاریخی جامع مسجد ابراہیمی میں ایک یہودی دہشت گرد نے نماز ادا کرنے والے فلسطینیوں پر گولیاں چلائیں جس کے نتیجے میں 29 نمازی شہید ہوگئے۔ اس کے بعد مسجد ابراہیمی کو یہودیوں اور مسلمانوں کے درمیان تقسیم کردیا گیا تھا۔ اسرائیل کے پہلے وزیراعظم ڈیوڈ بن گورین نے اسرائیلی عزائم اور اہداف کو بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ ''مستقبل قریب میں واحد عالمی تنظیم(ورلڈ آرڈر) وجود میں آئے گا جو یروشلم کی سربراہی میں ہوگا۔ ایک واحد فوج ہوگی اور یروشلم میں اصلی اور حقیقی اقوام متحدہ کا ادارہ ہوگا۔‘‘ یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ اسرائیلی منصوبہ وہی دجالی منصوبہ ہے جس کی پیش گوئیاں احادیث پاک میں بھی کی گئی ہیں۔ عرب ممالک کو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ گریٹر اسرائیل اور ہیکل ِسلیمان کی تعمیر میں صہیونی کسی طرح بھی سمجھوتہ نہیں کریں گے اور صہیونی ریاست کے ساتھ نام نہاد معاہدے سراب کے سوا کچھ نہیں ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں