پُرامن افغانستان ہی پُرامن پاکستان کی ضمانت ہے!

واشنگٹن پوسٹ میں وزیراعظم عمران خان کا ایک آرٹیکل نظر سے گزرا‘ جس میں انہوں نے لکھا ہے ''افغانستان سے جلد بازی میں امریکی فوجوں کا انخلا دانشمندی نہیں‘‘، حالانکہ اس سے قبل وہ خود کہتے رہے کہ جلد انخلا ہی اس مسئلے کا حل ہے۔ ذرا سوچیے اگر افغانستان کی جگہ پاکستان ہوتا اور کسی دوسرے ملک کا سربراہِ حکومت یہ لکھتا تو ہمارے دلوں پر کیا گزرتی؟ طالبان افغانستان کا مستقبل ہیں اور ہم ان کی ناراضی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ حالیہ تناظر میں یہ معاملہ اہم ہے کہ ہمسایہ برادر ملک میں پُرامن انتقالِ اقتدار اور سیاسی استحکام کے لئے اخلاقی، سیاسی و مالی حمایت جاری رکھی جائے۔ مگر یہ کہاں کی دانشمندی ہے کہ امریکی فوجوں کی یہاں سے واپسی روک ہی دی جائے تاکہ خطے میں امریکہ کا قبضہ برقرار رہے اور وہ بھارت کے ساتھ مل کر نہ صرف پاکستان بلکہ چین اور ایران کے خلاف بھی ریشہ دوانیاں جاری رکھے؟ ہماری سلامتی و بقا سمیت خطے کا امن بھی اسی میں مضمر ہے کہ امریکہ افغانستان سے نکل جائے۔ یہ درست ہے کہ افغانوں کو تنہا چھوڑنے سے امن عمل متاثر ہو سکتا ہے جیسے روس کی افغانستان سے پسپائی کے بعد افغانوں کو تنہا و بے یار و مددگار چھوڑ نے کے نتیجے میں وہاں کئی سیاسی دھڑے وجود میں آ گئے تھے اور ملک خانہ جنگی کی طرف چلا گیا تھا۔ البتہ یہ تو طے ہے کہ پُرامن افغانستان ہی پُرامن پاکستان کی ضمانت ہے۔ درحقیقت اس کے ساتھ ہی ہماری معیشت جڑی ہے۔ سی پیک افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے پانچ‘ چھ ارب ڈالر تجارت کی جا سکتی ہے لیکن اس کے لئے شرط یہ ہے کہ ہماری سرحدیں محفوظ ہوں اور افغانستان پُرامن و مستحکم ہو۔ اس وقت خطے میں داعش کا خطرہ بھی مسلسل منڈلا رہا ہے، اس سے پہلے طالبان سے مذاکرات بھی جان بوجھ کر سبوتاژ کئے جاتے رہے‘ اس تناظر میں یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ افغان سرزمین پر کوئی بڑی سازش تیار کی جا رہی ہے جس کا ہدف روزِ ازل کی طرح پاکستان ہی ہوگا۔
19 سال بعد افغان طالبان سے امن مذاکرات کامیابی کی سمت بڑھ رہے ہیں‘ ان شاء اللہ وہ دن دور نہیں جب افغانستان میں ایک مستحکم حکومت کا قیام عمل لایا جائے گا۔ قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی۔ سپر پاور امریکہ کے جذبۂ ایمانی سے سرشار جنگجوئوں اور نڈر مجاہدوں کے آگے جھکنے سے تاریخ نے ثابت کر دیا ہے کہ جنگیں جدید و مہنگے ترین جنگی آلات سے نہیں‘ جذبۂ ایمانی اور اللہ پر توکل سے جیتی جاتی ہیں۔ افغان طالبان سے امریکہ کی بحفاظت فوجی انخلا کے لئے منتیں، ترلے اور امن مذاکرات کی بھیک اس کی بڑی مثال ہے۔ میرے والد محترم‘ سابق آئی ایس آئی سربراہ جنرل حمید گل مرحوم فرماتے تھے ''جب تاریخ رقم ہوگی تو لکھا جائے گا کہ پاکستان نے امریکہ کی مدد سے روس کو شکست دی اور پھر لکھا جائے گا کہ پاکستان نے امریکہ کے ذریعے ہی امریکہ کو شکست دے دی‘‘۔
آج دو دہائیوں بعد فاتح افغانستان جنرل حمید گل مرحوم کی پیش گوئی درست ثابت ہوئی اور دنیا کی سپر پاور کہلوانے والا امریکہ افغان سر زمین سے دامن بچا کر بھاگنے پر مجبور ہو گیا۔ طالبان افغانستان کے 80 فیصد علاقے پر قابض ہیں اور ان کی کامیابی کو تسلیم کیا گیا ہے‘ بے شک حق کی جیت ہوئی ہے۔ افغانستان میں اب طالبان کی حکومت آئے گی جو امریکہ یا روس کے خلاف نہیں بلکہ ایک ظالمانہ نظام کے خلاف نبرد آزما ہیں۔ یقینا افغان طالبان و امریکی معاہد ے سے ہمارے ازلی دشمن بھارت میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے کیونکہ اسے پاکستان میں مداخلت کے لئے شورش زدہ اور تقسیم شدہ افغانستان ہی سوٹ کرتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ افغانستان میں کی گئی 4.4 بلین ڈالرز کی اس کی وسیع سرمایہ کاری بھی اسے خاک میں ملتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔ دوسری جانب اشرف غنی حکومت اگر طالبان کے ساتھ مل کر افغانستان کو پُرامن بناتی ہے تو اسے اپنا اقتدار خطرے میں دکھائی دیتا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ وہ امن بحالی کے لئے مخلص دکھائی نہیں دیتی۔ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ پاکستان مخالف قوتیں امن معاہدے کو زک پہنچانے کی ہر ممکن کوشش میں ہیں۔ امریکہ کوپاکستان کا مرہونِ منت ہونا چاہیے کہ اس نے طالبان کو امن مذاکرات کی میز پر لا کر ناممکن کو ممکن کر دکھایا۔ بہرحال پاکستان امن کے لئے اپنا کردار بخوبی نبھا رہا ہے اور امن بحالی کے عمل کو منطقی انجام تک پہنچانا اب امریکہ کی ذمہ داری ہے۔ پاکستان کا روزِ اول سے ہی اصولی موقف ہے کہ افغانستان کا امن کثیر الفریقی مذاکرات اور افغان عوام کی منتخب حکومت کے قیام میں مضمر ہے۔
ماضی قریب میں ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ سمیت افغان صدر اشرف غنی نے پاکستان کے مقابلے میں بھارت کو ترجیح دی تاہم اب ان کا دورۂ پاکستان خوش آئند ہے اور ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے دورے سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ انہوں نے پاکستان کی حیثیت کو تسلیم کر لیا ہے۔ اب پاکستان بھی افغانستان سے توقع رکھتا ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو پاکستان کے لئے سکیورٹی خطرات بڑھانے میں استعمال نہیں ہونے دے گا۔ پاکستان میں پاک فوج کی وزیرستان اور مغربی سرحدی علاقوں میں چھ برس کی طویل کارروائیوں کے نتیجے میں دہشت گردی کا صفایا تو ہو گیا لیکن بچے کھچے دہشت گردوں نے اب افغان سرزمین کو اپنا ٹھکانہ بنا لیا ہے۔ اگر افغان حکومت دہشت گردی کے خلاف آپریشن میں پاک فوج کے ساتھ بھرپور تعاون کرتی تو یقینا خطے میں امن و امان کی صورتحال اتنی پیچیدہ نہ ہوتی۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان افغانستان میں مستقل قیام امن کا خواہاں ہے کیونکہ افغانستان میں استحکام سے ہماری وسطی ایشیا کی تجارتی منڈیوں تک رسائی ممکن ہو سکے گی لیکن خطے کے تھانیدار بننے کا خواب دیکھنے والا بھارت کبھی نہیں چاہے گا کہ افغانستان میں پاکستان کا کوئی کردار ہو۔ جب ہم نائن الیون کے بعد امریکی اتحادی بنے تو افغان عوام سے دور ہو گئے، بھارت امریکی فوجی چڑھائی کے بعد افغانستان میں جا گھسا اور پاکستان مخالف سرگرمیوں میں مشغول ہو گیا۔ افغان رہنمائوں کے ساتھ بھی اس نے اپنے تعلقات استوار کیے اور افغان سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے لگا۔90ء کی دہائی میں امریکی جریدے ٹائم میگزین میں ایک آرٹیکل ''گلوبل پولیس مین‘‘ کے عنوان سے شائع ہوا تھا جس میں صریحاً لکھا تھا کہ امریکہ نے ایشیا کی تھانیداری کے لئے پاکستان جیسے فرنٹ لائن اتحادی کو چھوڑ کر بھارت کا انتخاب کیا ہے۔ بعد ازاں کنڈو لیزا رائس اور ہلیری کلنٹن نے بھی اپنی وزارتِ خارجہ کے دوران بھارت کو اپنا ''فطری اتحادی‘‘ بنانے کا عندیہ دیا۔ انہی نوازشوں نے بھارت کو آپے سے باہر کر دیا اور اُس نے خطے میں توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لئے فسطائی ہتھکنڈے آزمانا شروع کر دیے تاکہ کشمیر سے لے کر میانمار تک اُس کی چودھراہٹ قائم ہو جائے۔ امریکہ نے افغانستان میں روس کی شکست کے بعد پاکستان کو سٹریٹیجک پارٹنر تو قرار دیا تھا مگر فطری اتحادی کبھی نہیں بنایا۔ یہ معاملہ کوئی ڈھکا چھپا نہیں کہ بھارت کو اپنی استعماری خواہشات کی تکمیل کے لئے کھل کھیلنے کا موقع فراہم کیا گیا۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر میں کرفیو کو ایک سال سے زائد عرصہ گزر چکا ہے، کشمیری عوام مسلسل فوجی محاصرے میں ہیں، بھارت میں ''ہندوتوا‘‘ کے نفاذ کے لئے مسلمانوں پر عرصہ حیات تنگ کیا جا رہا ہے، ہندوستان سے مسلم نام و نشان مٹانے کے لئے اسلامو فوبیا کی لہر عروج پر ہے اور یہ سب کچھ عالمی طاقتوں کی اشیرباد سے ہو رہا ہے، اقوام عالم کی مجرمانہ خاموشی نے آر ایس ا یس کو کھلی چھلی دے دی ہے۔ جنگی جنون میں مبتلا بھارت دھڑا دھڑ اسلحے کا انبار لگا رہا ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ ''ہندوتوا‘‘ اور اکھنڈ بھارت کی راہ میں پاکستان ہی سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ اگر عالمی برادری نے بھارت کو لگام نہ ڈالی تو خدشہ ہے کہ جنونیت کی جس لہر کا بھارت اس وقت شکار ہے‘ وہ پوری دنیا کو جلا کر خاکستر کر دے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں