سیاسی محاذ آرائی کا کلچر اور درپیش چیلنجز

کچھ عرصے سے وطن عزیز میں عجیب کھیل کھیلا جا رہا ہے‘ ایک جانب اپوزیشن اور حکومت کے مابین بڑھتی ہوئی کشیدگی اور تنائو نے ملکی صورتحال کو مزید گمبھیر بنا دیا ہے تو دوسری جانب اپوزیشن رہنمائوں کی جانب سے اداروں کے مخالف بیانات نے ایک مخمصے میں ڈال دیا ہے۔ حالات کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ باقاعدہ ایک سازش کے تحت قومی اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کیا اس کی وجہ ریاست میں دائیں بازو کی سیاسی، دینی و ملّی جماعتوں کا فقدان تو نہیں؟
کسی بھی ملک میں جمہوری نظام کو چلانے میں دائیں بازو کی جماعتوں کے کردار کو پس پشت نہیں ڈالا جا سکتا مگر کیا وجہ ہے کہ نائن الیون کے بعد ملکی سیاست کے میدانِ خارزار کا آوے کا آوا ہی بگڑ کر رہ گیا ہے اور دائیں بازو کی جماعتوں کا وجود مفقود محسوس ہوتا ہے۔ قبل ازیں میدانِ سیاست میں دائیں بازو کی جماعتیں قابلِ قدر کردار ادا کرتی رہی ہیں مگر حالیہ تناظر میں حکومتی و ریاستی پالیسیوں کے خلاف ان کا مزاحمتی کردار دم توڑتا معلوم ہوتا ہے۔ المیہ یہ ہے کہ جمہوریت کی خاصیت یعنی حزب اختلاف کی مزاحمت کو کچلنے کے لیے بغاوت کے مقدمے درج کرتے ہوئے انہیں وطن سے غداری کے سرٹیفکیٹ جاری کئے جا رہے ہیں، اس کی واضح مثال وزیراعظم آزاد کشمیر اور چار سابق فوجی جرنیلوں سمیت مسلم لیگ نون کے درجنوں رہنمائوں کے خلاف میاں نواز شریف کی تقاریر کی حمایت کی پاداش میں بغاوت کے مقدمے کا اندراج ہے۔ متعلقہ پولیس تھانے نے اندراجِ مقدمہ کی درخواست موصول ہوتے ہی جس سرعت کے ساتھ بغاوت جیسے سنگین جرائم کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا‘ اس سے ممکنہ طور پر حکومتی دبائو کا عندیہ ملتا ہے‘ ورنہ کسی عام شہری کی جانب سے بغاوت تو درکنار‘ کسی عام اور معمولی نوعیت کے جرم کا مقدمہ درج کرانا بھی جوئے شیر لانے کے مترادف سمجھا جاتا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اس مقدمے سے لاتعلقی کا اعلان اور اس پر اظہارِ برہمی رواداری کی سیاست کے حوالے سے خوش آئند امر ہے۔ دوسری جانب وزیراعظم آزاد کشمیر راجہ فاروق حیدر نے یہ کہہ کر بلیم گیم والی سیاست پر مایوسی کا اظہار کیا ہے کہ اس سے مودی خوش ہو رہا ہوگا۔افسوس کا عالم تو یہ ہے کہ ہمارے ازلی دشمن کی باچھیں کھلی ہوئی ہیں اور اس کا متعصب میڈیا دن رات اس معاملے کو خوب اچھال رہا ہے۔ 
خدارا! ماضی کی غلطیاں نہ دہرائی جائیں۔ مذکورہ مقدمے کے حوالے سے یہ پیش رفت سامنے آئی ہے کہ پولیس نے سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، مریم نواز، سابق وزیر خارجہ خواجہ آصف اور وزیراعظم آزاد کشمیر سمیت تمام لیگی رہنماؤں کے نام نکال دیے ہیں جبکہ مدعی کے بیان کے بعد خصوصی تفتیشی ٹیم نے ایف آئی آر سے چار دفعات بھی نکال دی ہیں اور نواز شریف کے علاوہ دیگر رہنماؤں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔
اس وقت کا منظر نامہ یہ ہے کہ کشمیر ایشو سرد خانے کی نذر ہو چکا ہے۔ وزیراعظم عمران خان کے 27 ستمبر 2019ء کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کے موقع پر چار پانچ ممالک نے کشمیر پر ہمارے موقف کی حمایت کی تھی لیکن رواں سال جنرل اسمبلی میں سوائے ترکی کے‘ کوئی ہمارے ساتھ کھڑا نہیں ہوا۔ سلام ہے طیب اردوان پر کہ جنہوں نے کشمیر کی بات کی اور اُسے انسانیت کا سب سے بڑا المیہ اور مسئلہ قرار دیا۔ اگر مقبوضہ کشمیر ایشو سے ہم نے دستبرداری اختیار کر لی اور قائداعظم کے فرمان کے برخلاف فلسطینیوں سے غداری کرتے ہوئے اسرائیل کو تسلیم کر لیا تو پھر باقی دنیا کو یہ جواز بھی مل جائے گا کہ ہمیں مزید پابندیوں کا شکار کرنے کی ضرورت ہے۔
اس وقت گلگت و بلتستان میں بھی حالات کسی اور ہی نہج پر لے جائے جا رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے سب کچھ عجلت میں کیا جا رہا ہے۔ قبل ازیں قائداعظم‘ ایوب خان، ذوالفقار علی بھٹو، ضیاء الحق، پرویزمشرف، نوازشریف اور پیپلز پارٹی کی حکومتوں اور دیگر عبوری حکومتوں نے ایسے اقدامات سے گریز کیا تھا لیکن میرا اندازہ یہ ہے کہ موجودہ حکومت کے اقدام سنگین صورت حال کی جانب لے جا رہے ہیں۔ 
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ اسلام دشمن فسطائی قوتوں نے پاکستان کو چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے اور ہم ہیں کہ خودبخود ہی ان کے لئے تر نوالہ ثابت ہو رہے ہیں۔ اس وقت بیرونی قوتیں مسالکی و فروعی اختلافات کو ہوا دے کر پاکستان کے امن کو برباد کرنے کے درپے ہیں۔ اگر اس دوران کوئی ایسا واقعہ ہوا، کہیں کسی نے دھرنا دے دیا اور ان کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا تو اس کے سنگین نتائج بھگتنا پڑیں گے۔ حکومت کو مولانا فضل الرحمن کے تحفظات دور کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ دوسری جانب اپوزیشن کو بھی اپنے افکار و اعمال پر نظر ڈالنی چاہیے۔ سابق وزیراعظم نواز شریف شاید یہ بھول گئے ہیں کہ ماضی میں ان کے ملکی اداروں کے ساتھ کیسے مراسم رہے ہیں؟ کہنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ بطور ایک مضبوط ملک گیر پارٹی سربراہ‘ انہیں اپنے رویے پر نظر ثانی کرنا چاہئے۔ موجودہ دگرگوں حالات میں‘ جب ہمارا دوست چین سی پیک کے حوالے سے غیر مطمئن نظر آتا ہے‘ دیرینہ برادر عرب ممالک سے تعلقات بھی گومگو کا شکار ہیں‘ ایسے میں اداروں سے الجھائو نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے، ہمارے لئے صرف پاکستان مقدم ہے۔ وقت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اپوزیشن و حکومت‘ دونوں افہام و تفہیم سے تمام معاملات کو حل کریں کہ ہمارے دشمن مسلسل پاکستان کو کمزور اور غیر مستحکم کرنے کی تاک میں ہیں۔
اس وقت مقبوضہ کشمیر میں بھارت جنگ کے لئے پوری طرح تیار ہے اور ہم ہیں کہ آپسی خلفشار، رنجشوں اور الجھنوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ بلوچستان سے لے کر ایل او سی تک‘ روزانہ ہمارے جری و بہادر فوجی جوان مادرِ وطن کے لئے جانیں قربان کر رہے ہیں۔ 2019ء سے اب تک دو سو سے زیادہ فوجی جوانوں نے جامِ شہادت نوش کیا ہے۔ آرمینیا اور آذربائیجان کی حالیہ جنگ میں بھی اتنی ہی ہلاکتیں ہوئی ہیں اور دنیا بھر میں ان کے مابین جنگ بندی کے حوالے سے کوششیں ہو رہی ہیں تو کیا ہم اب بھی حالتِ جنگ سے انکار کرتے رہیں گے؟ بلوچستان میں ''را‘‘ کا منظم نیٹ ورک ریشہ دوانیوں میں مصروف ہے‘ مالیاتی جرائم کی تحقیقات کرنے والے امریکی ادارے فنانشل کرائمز انفورسمنٹ نیٹ ورک (فن سین) کی خفیہ دستاویزات منظر عام پر آنے کے بعد اس با ت کی تصدیق ہو گئی ہے کہ بلوچستان میں دہشت گردانہ کارروائیاں کوئی اور نہیں‘ بھارت کروا رہا ہے۔ امریکی محکمہ خزانہ نے انڈیا کی منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت کا پردہ فاش کر دیا ہے، اب حکومت کو چاہئے کہ وہ ایف اے ٹی ایف کے فورم پر یہ مسئلہ اٹھائے۔
فی الوقت ہمارے ملک کو متعدد داخلی اور خارجہ مسائل کا سامنا ہے۔ ان مسائل کے حل اور چیلنجز سے نمٹنے کے لیے ضروری ہے کہ داخلی سطح پر بھرپور ہم آہنگی ہو، اور حکومت اور اپوزیشن ان مسائل کے حل کے سلسلے میں ایک صف میں کھڑی نظر آئیں۔ ایسی ہم آہنگی پیدا کرنے کے سلسلے میں سب سے زیادہ ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ این آر او دینا یا نہ دینا یقینا حکومت کی صوابدید ہے لیکن اپوزیشن کو اپنے قریب لانے اور ہم آہنگی بڑھانے کے لیے سوچ، رویے اور لہجے میں تبدیلی لائی جا سکتی ہے؛ چنانچہ فریقین کو اس بارے میں ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ سوچنا چاہیے تاکہ سیاسی معاملات کو سلجھا کر معاشی ترقی کی راہ ہموار کی جا سکے اور درپیش چیلنجوں سے نبرد آزما ہوا جا سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں