افغانستان میں قیامِ امن اور بھارت کی شر انگیزیاں

جنرل (ر)حمید گل مرحوم ہمیشہ پاکستانی قوم کو الرٹ کرتے ہوئے کہا کرتے تھے ''افغانستان پر روسی حملہ... افغانستان بہانہ اور پاکستان ٹھکانہ ہے‘‘۔ اسی طرح امریکا کے بارے میں ہمیشہ یہی کہتے تھے کہ ''نائن الیون بہانہ، افغانستان ٹھکانہ اور پاکستان نشانہ ہے‘‘۔ موجودہ تناظر میں ان کی پیش گوئی درست ثابت ہو ئی کہ کس طرح استعما ری قوتیں افغان سر زمین کو مرکز بنا کر وطن عزیز کی سالمیت کے درپے ہیں اور افغان امن مذاکرات کو سبو تاژ کرنے کیلئے ہنود و یہود گٹھ جوڑ مسلسل مذموم کارروائیوں میں مصروفِ عمل ہے۔تاریخ گواہ ہے کہ عظیم سپہ سالار جنرل حمید گل نے بہترین منصوبہ بندی کرکے افغان سر زمین پر روس سے پاکستان توڑنے کا بدلہ لیا اور ساتھ ہی ساتھ نئے مسلم ملکوں کو وجود بخشنے میں بھی اہم کردار ادا کیا جس کے نتیجے میں قازقستان، ترکمانستان، کرغزستان، ازبکستان، آذربائیجان اور تاجکستان کی شکل میں چھ مسلم ریاستیں دنیا کے نقشے پر ظاہر ہوئیں۔دیوارِ برلن بھی ٹوٹی اور اور دنیا میں مشتہر کیا گیا یہ جھوٹا خوف کہ روس جس ریاست میں داخل ہوتا ہے واپس نہیں نکلتا‘ بھی پاش پاش ہوا اور روس شکست خوردہ ہوکر افغانستان سے نکلا۔اب پھر تاریخ نے دیکھا کہ امریکا اور اس کے نیٹو اتحادیوں سمیت 40 سے زائد ممالک افغانستان میں پسپا ہوچکے ہیں۔ 
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہماری سلامتی و بقا سمیت خطے کا امن بھی اسی میں مضمر ہے کہ امریکا افغانستان سے مکمل طور پر نکل جائے۔ حالانکہ ہمارے وزیر اعظم عمران خان نے واشنگٹن پوسٹ کے اپنے ایک آرٹیکل میں لکھا تھا کہ ''افغانستان سے جلد بازی میں امریکی فوجوں کا انخلا دانش مندی نہیں‘‘۔ حالانکہ طالبان افغانستان کا مستقبل ہیں اور ہم ان کی ناراضی کے متحمل نہیں ہو سکتے۔ حالات کا تقاضا یہی ہے کہ ہمسایہ برادر ملک میں پُرامن انتقالِ اقتدار اور سیاسی استحکام کے لئے اخلاقی، سیاسی و مالی حمایت جاری رکھی جائے کیونکہ افغان امن مذاکرات میں تاخیر کا مطلب بھارت کو نہ صرف پاکستان بلکہ چین اور ایران کے خلاف بھی ریشہ دوانیاں جاری رکھنے کا جواز فراہم کرنا ہے۔یہ خوش آئند امر ہے کہ دوحہ میں امریکا افغان مذاکرات کا دوبارہ آغاز ہو چکا ہے۔ دعا ہے کہ مذاکرات کا یہ دور آگے بڑھے اور منطقی انجام کو پہنچے۔ مگر ایک بات واضح ہے کہ افغان حکومت اور طالبان کے درمیان بداعتمادی کی خلیج مزید گہری ہوتی جا رہی ہے۔سال 2020ء میں افغانستان میں خوں ریزی میں کمی نہ آسکی، افغان فوج کے طالبان پر حملے پر جاری رہے۔ اس وقت بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ ٹرمپ افغانستان کے حوالے سے کوئی فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔ بہر حال جو بائیڈن کے اقتدار سنبھالنے کے بعد نومنتخب صدر اور ان کی انتظامیہ کی افغان پالیسی جلد واضح ہو جائے گی۔ اس کے بعد افغانستان میں نئے نمائندوں کی تعیناتی عمل میں لائی جائے گی۔
بلاشبہ افغان مفاہمتی عمل میں پاکستان نے اپنے حصے کا کردار بڑھ چڑھ کر ادا کیا ہے جس کی عالمی برادری بھی معترف ہے۔پاکستان نے ہمیشہ یہ باور کرایا کہ مذاکرات کی میز ہی مسائل کے حل کی راہ ہے ، لیکن افغان حکومت اور طالبان کے مابین یکسوئی کے فقدان نے حالات میں مزید بگاڑ پیدا کر دیا۔ افغان امن مذاکرات ایک صبرآزما، طویل اور پیچیدہ عمل ہے اور تمام فریقوں کو صبر و تحمل اور دور اندیشی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ یہاں امریکا کو بھی یہ جان لینا چاہئے کہ خطے کے حالات خراب کرنے میں بھارت اور اس کی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ مسلسل سرگرم ہے۔ بھارت صرف افغانستان ہی نہیں پورے علاقے کا امن تہ و بالا کر رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارتی ریشہ دوانیوں کے سدباب کے لئے بھارت کو لگام ڈالی جائے۔وطن عزیز میں دہشت گردی کے خاتمے کے لئے پاک فوج کی قربانیاں لازوال اور بے مثال ہیں، انہی کی بدولت دہشت گرد پاکستان سے راہِ فرار اختیار کرنے پر مجبور ہوئے ہیں اور اب انہوں نے پڑوسی ملک افغانستان کو اپنی آماجگاہ بنا رکھا ہے۔ وہاں بھارت ان کو پاکستان میں دہشت گردی کے لئے استعمال کرتا رہتا ہے۔پاکستان میں افغان بارڈر کے پار سے دہشت گردی کے درجنوں واقعات رونما ہوچکے ہیں جن میں پاک فوج کے درجنوں جوان شہیدہو چکے ہیں۔ پاکستان میں افغان سرحد کے اُس پار سے ہونے والی دہشت گردی کو مکمل طور پر روکنے کے لئے باڑ کی تنصیب اور دیوار کی تعمیر جتنی جلدی ممکن ہو‘ پایہ تکمیل تک پہنچائی جانی چاہئے۔ افغان حکومت اندرونی سلامتی، امن کے قیام کی اپنی ذمہ داریوں کو پورا کرے۔ پاکستان سکیورٹی و مؤثر بارڈر مینجمنٹ میں ادارہ جاتی تعاون کے ذریعے افغان حکومت کی مدد کے لئے تیار ہے۔
پاکستان افغانستان کے ساتھ کثیرالجہتی برادرانہ مراسم کا فروغ چاہتا ہے۔ دوطرفہ کوششیں بھی جاری ہیں، جیسے 2020ء میں عبداللہ عبداللہ، گلبدین حکمت یار اور افغان جرگہ کے اراکین نے پاکستان کا دورہ کیا، وزیراعظم عمران خان بھی افغانستان گئے تھے اور وہاں یہی پیغام دیا تھا کہ پاکستان افغانستان میں دیرپا اور مستقل امن کا خواہاں ہے۔صدر ٹرمپ نے اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر جاری افغان جنگ میں پاکستان کے بے لوث اور قربانیوں سے لبریز کردار پر انگلیاں اٹھائی تھیں اور پھرپاکستان کی سول اور فوجی گرانٹ بند کرنے کے اقدامات بھی کیے ۔ افغان امن عمل میں پاکستان کا مثبت کردار تسلیم کرنے کے باوجود ٹرمپ انتظامیہ کی جانب سے پاکستان کے ساتھ مخاصمت اور بھارت کے ساتھ ''فطری اتحادی‘‘ والی دوستی کا سلسلہ جاری و ساری رہا۔
اب 2021ء کا آغاز ہوچکا اور عالمی منظر نامہ کسی حد تک تبدیل ہو رہا ہے۔ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ پاکستان اس وقت ہائبرڈ جنگ سے نبردآزما ہے۔ کور کمانڈرز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو ہر قیمت پر شکست دینے کے عزم کا اعادہ کیا۔ ہمارا زلی دشمن لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ آئے روز شہری آبادی پر گولہ باری کرتا ہے۔ 2020ء میں ایل او سی پر 350 معصوم شہری بھارتی جارحیت کا نشانہ بن کر شہید ہوئے۔ 'ون بیلٹ ون روڈ‘ کے عظیم انقلابی منصوبے اقتصادی راہداری سے پاکستان سمیت افغانستان اور ایران یکساں طور پر فائدہ اٹھا سکتے ہیں مگر یہ امن و امان سے مشروط ہے۔ افغانستان میں گزشتہ دو دہائیوں سے قابض امریکی فوج کی موجودگی نے وسط ایشیائی ریاستوں کو پاکستان اور چین تک پہنچنے سے روکے رکھا‘ افغانستان کا مختصر زمینی راستہ امریکی کنٹرول میں رہا۔ اس وقت افغان طالبان اور امریکا کے معاہد ے سے ہمارے ازلی دشمن بھارت میں صف ماتم بچھی ہوئی ہے کیونکہ پاکستان میں مداخلت کے لئے شورش زدہ اور تقسیم شدہ افغانستان ہی بھارت کے مفاد میں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ افغانستان میں کی گئی 4.4 بلین ڈالر کی وسیع سرمایہ کاری بھی اسے خاک میں ملتی ہوئی نظر آ رہی ہے۔
دوسری جانب اشرف غنی حکومت اگر طالبان کے ساتھ مل کر افغانستان کو پُرامن بنانے پر سنجیدگی سے کوششیں کرتی ہے تو اسے اپنا اقتدار خطرے میں دکھائی دیتا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ امن بحالی کے لئے افغان حکومت مخلص دکھائی نہیں دیتی۔ اس وقت افغان امن عمل کو منفی طور پر متاثر کرنے کے لیے بھارتی منصوبہ ساز خطے کی صورتحال کو انتشار زدہ رکھنا چاہتے ہیں، تاکہ کشمیر اور سی پیک سے توجہ ہٹا کر ترقی کے عمل کو روکا جا سکے۔ افغانستان میں پاکستان کے خلاف سب سے بڑا خطرہ بھارت کے قائم کئے گئے جاسوسی کے اڈے ہیں، استعماری قوتوں کی پشت پناہی پر بھارتی دہشت گردی کا نیٹ ورک بلو چستان سے لے کر کراچی تک تخریبی کارروائیوں میں سر گرم ہے۔ مچھ میں ہزارہ برادری کے 11 افراد کی ٹارگٹ کلنگ میں بھی بھارت ہی کا ہاتھ ہے۔ داعش کا اس قتل عام کی ذمہ داری کو قبول کرنا ہمارے لئے خطرے کی گھنٹی ہے۔ میں بارہا کہہ چکا ہوں کہ امریکا جاتے جاتے داعش کا فتنہ اس علاقے میں چھوڑ کر جائے گا اور اب مچھ کے واقعے میں یہ امر کھل کر سامنے آ گیا ہے۔ اس کی تصدیق امریکی جریدے فارن پالیسی کی ایک رپورٹ میں بھی ہوتی ہے کہ شام کی جنگ میں بھارتی دہشت گردملوث پائے گئے ہیں۔ بھارتی دہشت گردوں کے افغانستان میں داعش کے ساتھ مل کر لڑنے کے واضح ثبوت ملے ہیں۔ افغان حکومت بھارت کی کٹھ پتلی کا کردار ادا کر رہی ہے۔ بھارتی ایما پر ہی کم و بیش ڈھائی ہزار کلو میٹر تک کی سرحد غیر محفوظ ہے۔دوسری جانب ٹرمپ نے بھارت کو ہر قسم کے جدید ایٹمی اسلحہ سے لیس کرکے اسے پاکستان کے ساتھ ساتھ چین کے بھی مقابل کھڑا کرنے کی کوشش کی ہے جبکہ مودی کے توسیع پسندانہ عزائم سے اس خطے کو ہی نہیں‘ پوری دنیا کے امن و سلامتی کو سنگین خطرات لاحق ہوگئے ہیں۔ لداخ اور ڈوکلیم میں چین کے ہاتھوں ہزیمت اٹھانے کے بعد بھارت ایک اور فالس فلیگ آپریشن کی تیاری میں ہے۔ 2016ء میں بھی اس نے ناکام سرجیکل سٹرائیک کا دعویٰ کیا تھا، اب حالیہ صورتحال میں کسان تحریک سے خائف مودی سرکار زور پکڑتی خالصتان تحریک کا توڑ کرنے کے لئے کوئی بھی اشتعال انگیزی کر سکتی ہے، اس حوالے سے ہمیں چوکنا رہنا ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں