ڈی جی آئی ایس پی آر کے پریس بریفنگ میں بیان کیے گئے اعداد و شمار کے مطابق‘ حکومت کی رِٹ قبائلی علاقوں کے 37 فیصد علاقوں تک محدود ہو گئی تھی جسے مکمل طور پر بحال کرایا جا چکا ہے، اس کے بعد حکومت کے لیے ان علاقوں کو قومی دھارے میں لانے میں آسانی پیدا ہوگئی۔ بلاشبہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی حالیہ پریس کانفرنس میں کئی اشارے پوشیدہ ہیں۔ انہوں نے سیاسی، قومی و عالمی تناظر اور خطے کے مخدوش حالات کو زمینی حقائق اور دلیلوں کے ساتھ پیش کیا اور اداروں پر عائد کردہ گھٹیا الزامات اور تنقید کا بہتر انداز میں جواب دیا۔واضح رہے کہ پاک فوج اور قوم ایک دوسرے کی قوت ہیں، ملک دشمن عناصر عوام میں افواج کے خلاف نفرت کے بیج بونے کے لیے لغو پروپیگنڈے اور فیک نیوز سے کام لیتے رہتے ہیں۔اگر پاک فوج کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو اس کی خدمات کا ایک خوبصورت نقشہ ابھر کر سامنے آتا ہے۔ ایل او سی پر بھارت کو دندان شکن جواب دیا جاتا ہے اور دوسری جانب دہشت گردی کا مقابلہ بھی جاری ہے۔
گزشتہ سال کورونا وبا نے باقی دنیا کی طرح پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا، اسی دوران فصلوں پر ٹڈی دل کا حملہ بھی ہوا‘ پاک فوج کو اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کے ساتھ ساتھ ان معاملات سے نمٹنے کی بھی ذمہ داری سونپی گئی۔ ان تمام میں پاک فوج سرخرو ہوئی۔ مغربی سرحد پر قبائلی اضلاع میں امن و امان بحال کرنے کے ساتھ وہاں سماجی اور معاشی منصوبے پاک فوج کے تعاون سے جاری کئے گئے۔ ای یو ڈس انفولیب کی رپورٹ نے پاکستان اور ملکی اداروں کے حوالے سے بھارت کی سازشوں کا پردہ چاک کرکے رکھ دیا۔
پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل بابر افتخار نے پریس بریفنگ میں دوٹوک الفاظ میں واضح کیا کہ فوج کا سیاست سے کوئی تعلق نہیں اور نہ ہی کسی سے بیک دوڑ رابطے ہیں، اس لیے سیاستدان فوج کو ذاتی عناد اور بغض میں نہ گھسیٹیں۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ ڈائریکٹر جنرل آئی ایس پی آر جنرل بابر افتخار نہایت نفیس اور اعلیٰ صفات کے حامل ہیں اور انہوں نے مشرقی و اسلامی روایات کی پاسداری کا لحاظ رکھتے ہوئے اپوزیشن کو چائے کی دعوت دی۔ یہ بات کرکے انہوں نے اچھے میزبان کا حق ادا کرنے کے ساتھ ساتھ اپوزیشن کو صائب مشورہ دیتے ہوئے یہ بھی فرما دیا کہ راولپنڈی کی طرف آنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔ اگرچہ یہ حقیقت ہے کہ ماضی میں جمہوریت سے بے بہرہ مفاد پرست حکمران ٹولہ اقتدار کے لیے ملکی اداروں کا استعمال کر تا رہا ہے۔ اور یہ بھی کوئی پہلی بار نہیں کہ جب پاک فوج جیسے عظیم ادارے کو سیاسی جماعتوں کی طرف سے تنقید اور الزامات کا سامنا کرنا پڑ رہاہے مگر موجودہ حکومت کے خلاف اپوزیشن اتحاد نے اسے سیاسی بیانیے کے طور پر اپنا لیا ہے۔ ان حالات میں فوج کے ترجمان کا سیاست میں مداخلت نہ کرنے کا بیان اپوزیشن کے لئے اطمینان کا باعث ہونا چاہئے۔ پاک فوج ریاست اور حکومت کے ماتحت ادارہ ہے‘ خواہ حکومت کسی بھی پارٹی کی ہو‘ آئین اور قانون کے مطابق واضح کیے گئے احکامات کی بجا آوری پاک فوج کے فرائض میں شامل ہے۔ پاکستانی عوام اپنی فوج سے محبت کرتے ہیں اس لئے وہ ان پروپیگنڈوں سے متاثر نہیں ہوتے،بات سرحدوں کی حفاظت کی ہو یا اندرونِ ملک دہشت گردی کے معاملات کی، پاک فوج ہمیشہ قوم کی امیدوں اور امنگوں پر پوری اترتی ہے۔ دہشت گردوں کی سرکوبی کے لئے آپریشن رد الفساد سے لے کر آپریشن ضربِ عضب تک‘ بلوچستان سے لے کر مشرقی سرحدوں تک‘ ہمارے جری اور بہادر فوجی جوان مادرِ وطن کے لئے روزانہ جانیں قربان کر رہے ہیں۔ ملک میں امن و امان کی بحالی و استحکام کے لیے پاک فوج کا کردار لازوال ہے۔ سیاست میں قومی اداروں سے ٹکراؤ ہمیشہ نقصان دہ ثابت ہوتا ہے، اس وقت ملک و قوم کو درپیش چیلنجز پاک فوج کے ساتھ اٹوٹ یکجہتی کے متقاضی ہیں۔
دوسری جانب براڈشیٹ کے انکشافات نے نیا پنڈورا باکس کھول دیا ہے؛ تاہم موجودہ حالات کا بغور جائزہ لیا جائے تو یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ باقاعدہ ایک سازش کے تحت قومی سلامتی کے اداروں کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ہمارے لئے صرف پاکستان مقدم ہونا چاہیے۔وقت کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اپوزیشن اور حکومت‘ دونوں افہام و تفہیم سے تمام معاملات کو حل کریں۔
ہمارا دشمن بھارت مسلسل پاکستان کو کمزور اور غیر مستحکم کرنے کی تاک میں ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے معاملے پر بھارت پاکستان سے جنگ کے لئے بھی پوری طرح تیار ہے اور ہم ہیں کہ آپسی خلفشار، رنجشوں اور الجھنوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔اس وقت بیرونی قوتیں مسلکی و فروعی اختلافات کو ہوا دے کر وطن عزیز کے امن کو تباہ کرنے پر کار فرما ہیں، اگر خدانخواستہ کوئی ایسا واقعہ رونما ہو گیا، کہیں کسی نے دھرنا دے دیا اور ان کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا تو اس کے سنگین نتائج بھگتنا پڑیں گے۔
ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنی پریس کانفرنس میں یہ بھی کہا کہ بھارت نہیں چاہتا کہ پاکستان پُرامن ہو اور ترقی کی راہ پر گامزن ہو۔ ایل او سی پر بھارتی اشتعال انگیزیاں مسلسل جاری ہیں۔اس وقت پاکستان میں کوئی بھی منظم دہشت گرد تنظیم موجود نہیں ہے۔2014ء میں کراچی کرائم انڈیکس میں چھٹے نمبر پر تھا اور اب 103ویں نمبر پر ہے۔ آپریشن ضربِ عضب اور نیشنل ایکشن پلان پرمؤثر عملدرآمد ہونے سے دہشت گردی کے واقعات میں 36 فیصد ریکارڈ کمی واقع ہوئی ہے،جبکہ دہشت گردی کے پچاس فیصد سے زائد واقعات ناکام بنائے گئے۔ 2 ہزار 611 کلو میٹر پاک افغان بارڈر پر باڑ لگانے کا 83 فیصد کام مکمل کیا جا چکا ہے۔ پاک ایران بارڈر مینجمنٹ کی وجہ سے ملک کے ریونیو میں 33 فیصد اضافہ ہوا۔ بلاشبہ موجودہ صورتِ حال اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ مشرقی سرحد کے ساتھ ساتھ شمالی مغربی بارڈر کو بھی محفوظ بنایا جائے لیکن یہ سرحدی باڑ دشمن کو ایک آنکھ نہیں بھا رہی اس لئے اس نے پاکستان اور اس کے قومی سلامتی کے اداروں بالخصوص پاک فوج کے خلاف اپنی مذموم مہم کو تیز کر دیا ہے۔
استعماری طاقتوں کا اصل ہدف پاکستان کی ایٹمی صلاحیت ہے جس کے لئے ہنود ویہود گٹھ جوڑ مسلسل سرگرم ہے۔ سا نحہ مچھ میں بھی بھارتی خفیہ ایجنسی ''را‘‘ ملوث ہے۔ خطے میں بھارت‘ داعش گٹھ جوڑ کسی بڑے طوفان کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتا ہے۔کوئی دن نہیں گزرتاکہ بھارتی فوج آزاد کشمیر کی شہری آبادی کو گولہ باری اور فائرنگ کا نشانہ نہ بناتی ہو جس کا بین ثبوت2020ء میں کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کے 3000 سے زائد واقعات ہیں۔ اقوام متحدہ کے امن مشن پر حملے سے بھارتی ہٹ دھرمی کھل کر سامنے آچکی ہے۔ نئے سال کے آغار میں بھی 38 خلاف ورزیاں ریکارڈ کی جا چکی ہیں۔ پاکستان ملک بھر میں بھارتی دہشت گردی کی منصوبوں، سہولت کاری اور مالی معاونت کے ناقابل تردید شواہد کے ڈوزیئر اقوام متحدہ میں پیش کر چکا ہے۔ اس کی سی پیک کے خلاف سازشیں بھی بے نقاب کی گئی ہیں۔ اسی لیے بھارت انگاروں پر لوٹ رہا ہے اور پاکستان کے خلاف اس کی شر انگیز کارروائیاں بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔یہاں ضروت اس امر کی ہے کہ عالمی ادارے سرد مہری ترک کرتے ہوئے بھارتی دہشت گردانہ کارروائیوں کا نوٹس لیتے ہوئے عملی اقدامات کریں۔ بھارت ایسا مکاردشمن ہے جونہیں چاہتا کہ افغانستان میں امن قائم ہو تاکہ وہ افغان سرزمین کو استعمال کرتے ہوئے اپنی مذموم سازشوں کے ذریعے پاکستان کے لئے نئی نئی مشکلات کھڑا کرتا رہے، اس لئے وہ افغان امن مذاکرات کو بھی سبوتاژ کرنے کے لئے سرگرمِ عمل ہے۔ اس نے افغانستان کو تخریبی کارروائیوں کا مرکز بنا رکھا ہے۔بھارتی وزیراعظم کے قومی سلامتی مشیر اجیت دوول کا دورۂ کا بل بھی اسی مذموم سلسلے کی ایک کڑی ہے۔حیرت تو یہ ہے کہ افغان سرزمین پر اجیت دوول کا طیارہ لینڈ کرنے تک اس دورے کو خفیہ رکھا گیا۔ ایک ایسے وقت میں‘ جب دوحہ میں طالبان افغان امن مذاکرات کا دور چل رہا ہے‘ بھارتی مشیرکی افغانستان میں موجودگی سے کسی خطرے کو خارج ازامکان قرار نہیں دیا جا سکتا۔ بھارت اور اسرائیل کبھی یہ نہیں چاہیں گے کہ افغان سرزمین سے امریکا کا انخلا مکمل ہو۔ یہ بات تو نوشتۂ دیوار ہے کہ پُرامن افغانستان ہی پُرامن پاکستان کی ضمانت ہے۔ جو بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے بھی طالبان سے امن مذاکرات میں پیش رفت متوقع ہے اور اس حوالے سے ہماری حکومت کو بھی دانشمندانہ فیصلے کرنا ہوں گے۔