آج کی جدید دنیا میں عسکری سفارت کاری کی ایک نئی طرز کا اضافہ ہوگیا ہے‘ فوجی سربراہان کی باہمی ملاقاتیں، کامیاب دورے، مشترکہ فوجی مشقیں، دفاعی معاہدے، بندرگاہیں، جدید ٹیکنالوجی و انفارمیشن کا تبادلہ اس کے اہم جز ہیں۔ چنانچہ موجودہ تناظر میں'نیول ڈپلومیسی‘ کی اہمیت بھی کئی گنا بڑھ چکی ہے۔ بحریہ سفارتکاری کے ذریعے نہ صرف کسی بھی ملک کو دنیا کے دیگر دور دراز علاقوں، ریاستوں میں اپنے خارجہ معاملات کی تشکیل کرنے میں مدد ملتی ہے بلکہ اسے کسی بھی ملک کی خارجہ پالیسی ترتیب دینے کا اہم ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاک بحریہ بھی سفارتکاری کے اصولوں پر عملدرآمد کرتے ہوئے تمام ممالک کو ساتھ ملا کر سمندری پانیوں کی حفاظت کرنے کی خواہاں ہے۔ پاک بحریہ قومی بحری سرحدوں کا دفاع اور میری ٹائم اثاثوں کی حفاظت کی اپنی بنیادی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہونے کے ساتھ ساتھ بحر ہند اور عالمی پانیوں میں استحکام امن کے لیے بھی کوشاں ہے جبکہ 2007ء سے مسلسل امن مشقوں کے انعقاد کا سہرا بھی پاک بحریہ کے سر ہے۔ د راصل خطے کی تیزی سے بدلتی ہوئی جیو سٹریٹیجک صورتحال اور بڑھتے ہوئے میری ٹائم چینلجز کے تناظر میں ایک مضبوط بحری فوج کی ضرورت و اہمیت ناگزیر ہو چکی ہے۔ بلاشبہ پاک بحریہ ہماری خاموش دفاعی قوت، بحری حدود اور سمندری اور ساحلی مفادات کی نگہبانی کے ساتھ ساتھ میری ٹائم سیکٹر اور بلیو اکانومی کے فوائد ملک و قوم تک پہنچانے کے لیے بھی پُرعزم ہے۔
پاک بحریہ نے میری ٹائم فورسز کا حصہ بن کر بحری خطے میں دہشت گردی و منشیات کی نقل و حرکت کی روک تھام کے لیے متعدد میری ٹائم سکیورٹی آپریشنز سرانجام دینے کے علاوہ بحری تحفظ و سلامتی کی مجموعی صورتحال میں بہتری لانے کے لیے علاقائی و دیگر دوست ممالک کے ساتھ مل کر کام بھی کیا۔ مختصر یہ کہ پاک بحریہ انسانیت کی بھلائی اور درپیش بحرانوں سے نمٹنے کے لیے نہایت مثبت کردار ادا کر رہی ہے۔ پاک نیوی انسانی ہمدردی کے تحت علاقائی ٹاسک فورس میں فرائض انجام دینے کے ساتھ ساتھ دنیا کے غریب ممالک بالخصوص افریقی ریاستوں میں انسانیت کی خدمت کرنے کی روایات کو قائم رکھنے میں پیش پیش ہے۔ پاک بحریہ کے پی این ایس معاون اور پی این ایس Aslat پاک افریقہ تعلقات کو مضبوط اور تعاون کی نئی منزلیں متعین کرنے کے لیے افریقی ریاستوں مارکو، موریطانیہ، گھانا، جنوبی افریقہ، تنزانیہ، جبوتی، سوڈان، بینن (Benin) نائجر اور کینیا میں نومبر 2019ء سے فروری 2020ء تک خیر سگالی مشن پر گامزن رہیں۔ یقینا ان دوروں کے ذریعے افریقی ممالک اور پاکستان کے درمیان خلیج کو پاٹنے میں مدد ملی۔ پی این ایس معاون اور پی این ایس اصلت نے نائیجیریاکی بندرگاہ لاگوس، بندرگاہ تکورڈی، گھانا، سائمنز ٹائون، تنزانیہ کی بندرگاہ دارالسلام، سیشلز پورٹ وکٹوریہ اور بینن کی بندرگاہ ''Cotonou‘‘ میں انسانی ہمدردی مشن کے تحت پاک بحریہ کے ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکس کی ٹیم کی جانب سے مفت میڈیکل کیمپ قائم کئے گئے۔ ان کیمپوں میں سینکڑوں مقامی مریضوں کو طبی علاج اور ادویات فراہم کی گئیں، متعدد مریضوں کا پاک بحریہ کے جدید طبی سہولتوں سے آراستہ جہاز 'معاون‘ پر علاج کیا گیا، یہ جہاز کسی بھی قسم کی قدرتی آفات کے دوران سمندر میں دورانِ سفر دوست ممالک کو طبی امداد بھی فراہم کر سکتا ہے۔ پاکستان نیوی کے میڈیکل کیمپ کو مقامی لوگوں نے بڑے پیمانے پر سراہا۔ بینن، نائجر اور پاکستان کے مابین برادرانہ مراسم قائم ہیں اور یہ ملک او آئی سی گروپ 77 سمیت متعدد تنظیموں کے رکن بھی ہیں۔
بینن کی سرحد جنوب میں افریقی ملک نائجر سے ملتی ہے اور دونوں ملکوں کی آبادی 12 سے 23 ملین کے درمیان ہے۔ جغرافیائی لحاظ سے دونوں ممالک ہی اہم گردانے جاتے ہیں، پاکستان کی بھی بہت کمپنیوں کے ان ملکوں کے ساتھ کھانے پینے کی اشیا کی ترسیل کے حوالے سے معاہدے ہیں اور حال ہی میں بینن میں پاکستان سے ایکسپورٹ کو مزید بہتر بنانے کیلئے ایک دفتر بھی قائم کیا گیا ہے۔ بینن چاول، فارما سوٹیکلز، بیوٹی کیئر، ٹیکسٹائل، کیمیکلز، فشریز، کنفکیشنریز اور زرعی مشینری کی بہت بڑی مارکیٹ ہے۔ بینن سے سالانہ 45 ہزار 938 ملین ڈالر، اشیا امپورٹ کی جاتی ہیں۔ گزشتہ سالوں میں چاول اور فارما سوٹیکلز کی برآمدات سرفہرست رہیں۔
جبوتی ایک مسلم اکثریتی ملک ہے اور پاکستان بحری اور روایتی سفارت کاری کے ذریعے اس خطے میں آسانی سے داخل ہو سکتا ہے۔ جبوتی میں امریکا، فرانس، جاپان، اٹلی اور چین کے فوجی اڈے موجود ہیں مگر ان میں سے کوئی بھی جغرافیائی طور پر بحر ہند کا حصہ نہیں۔ ان کے مقابلے میں پاکستان اس خطے میں 1100 کلومیٹر لمبے ساحل کا مالک ہے۔ 54 ملکوں میں پھیلی ہوئی متنوع آبادیوں پر مشتمل براعظم افریقہ تجارت اور سرمایہ کاری کے لامتناہی مواقع پیش کرتا ہے، یہاں بھارت کا اثر ورسوخ نمایاں ہے، افسوس پاکستان اس سلسلے میں بہت پیچھے ہے؛ تاہم یہ خوش آئند بات ہے کہ چین کی افریقی براعظم میں موجودگی سے پاکستان کو بھی وہاں قدم جمانے کا موقع مل رہا ہے جس سے ہمارے سمندری مفادات کے تحفظ میں مدد ملے گی۔ پاکستان عالمی بحری راہ داریوں کے آزادانہ استعمال، بغیر کسی رکاوٹ کے تجارت اور سمندری قدرتی وسائل کے انتظام کے بین الاقوامی معاہدوں پر یقین رکھتا ہے اور ہمیشہ سمندری ماحول بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کرتا رہا ہے، نیز اقوام متحدہ کی جانب سے بین الاقوامی میری ٹائم آرگنائزیشن (IMO) کو تفویض کردہ کردار تسلیم کرتا ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان سمندری آزادی کی حفاظت کی اپنی ذمہ داریوں کو بھی بخوبی نبھانے کے ساتھ ساتھ پوری انسانیت کی بھلائی کے لیے مشترکہ امن کاوشوں میں بھی پیش پیش رہتا ہے۔
پاکستان نیوی دنیا کی بہترین نیویز میں شمار ہوتی ہے۔ اس کے پاس جدید اور بہترین دفاعی اور دشمن پر سبقت لے جانے والے ہتھیار موجود ہیں۔ یاد رہے کہ دنیا کی 93فیصد تجارت سمندروں کے ذریعے ہوتی ہے، پاکستان نیوی کا کردار امن و جنگ دونوں ہی زمانوں میں بہت اہم ہے اور پاک نیوی اس سے پوری طرح آگاہ ہے۔ دریں اثناء افریقی ریاستوں سے سفارتی، معاشی و تجارتی تعلقات کو فروغ دینے کے لئے ان ملکوں میں باقاعدہ سفارتی نمائندے بھی تعینات کئے گئے ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کے مطابق افریقہ ہماری خارجہ پالیسی کا اہم حصہ ہے اور اسی تناظر میں افریقہ کے ساتھ جغرافیائی تعلقات معاشی و تجارتی تعارف میں بدل چکے ہیں اور پاکستان نے اپنا ریذیڈنٹ مشن افریقہ کے 13 سے 15 ممالک تک بڑھا لیا ہے۔ اس وقت کووڈ 19 کے باوجود ہماری افریقہ سے تجارت میں 7 فیصد اضافہ ہو چکا ہے۔ افریقی ریاستوں سے بڑھتے ہوئے تجارتی و معاشی روابط میں پاک بحریہ کا اہم کردار ہے۔ افریقی عوام نے پاک بحریہ کے خیرسگالی اقدام کو سراہا اور پاکستان کو خراجِ تحسین پیش کیا۔ اس مشن کو مقبوضہ کشمیر میں بگڑتی ہوئی صورتحال کو اجاگر کرنے کے لئے بھی بھرپور طور پر استعمال کیا گیا۔ مشن کمانڈر نے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی بر بریت، کشمیریوں کی حالت زار سے آگا ہ کرتے ہوئے کشمیریوں کی حق و انصاف کی جدو جہد میں پاکستان کی مسلسل حمایت کے بارے میںبتایااوربھارتی مسلح افواج کے ذریعے ہونے والے مظالم کی عکاس ایک دستاویزی فلم بھی پیش کی گئی۔ علاوہ ازیں بحرِ ہند کے خطے میں امن و استحکام، سمندری سکیورٹی آپریشنز اوربحری قزاقی سے نمٹنے میں پاک بحریہ کے کردار کو اجاگر کیا گیا جس کا میزبان حکام نے بھی اعتراف کیا۔ درحقیقت پاک بحریہ کے مشن انسانی ہمدردی کا مقصد وزارت خارجہ اورحکومت کی انگیج پالیسی کے تحت افریقی ممالک کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کا فروغ، انسانی امداد کو بڑھانا اور باہمی تعاون کی نئی راہیں ستوار کرنا ہے جس کے مستقبل میں یقینا مثبت نتائج برآمد ہوں گے۔