چین ایران معاہدہ‘امریکی زوال کا نقطۂ آغاز

چین ایران 25 سالہ سڑیٹجک تعاون کے معاہدے نے امریکہ کی نیندیں حرام کر دی ہیں اور خطے کی تھانیداری کا خواب دیکھنے والے بھارت کی چیخیں نکال دی ہیں ۔ اس تناظر میں اس کو عملاً تزویراتی نوعیت کا معاہدہ تسلیم کیا جا رہا ہے ۔ معاہدے کی چیدہ چیدہ تفصیلات کے مطابق چین کی جانب سے400 ارب ڈالر یا اس سے زائد کی سرمایہ کاری کی جائے گی اور چین اس کے بدلے ایران سے گیس خریدے گا۔ یاد رہے کہ گیس خریداری کا ایک ایسا ہی 200 ارب ڈالر کا معاہدہ چین نے روس سے بھی کیا ہے جس سے روس کو اپنی معیشت بہتر بنانے میں خاصی مدد ملی ہے ‘لہٰذا چین کاایران کی جانب فیصلہ کن رُخ دونوں ملکوں کیلئے سیاسی اور اقتصادی اہمیت کا حامل ہے ۔چین کے ساتھ ایک وسیع البنیاد سٹریٹجک اور طویل مدتی پارٹنرشپ ایران کیلئے عالمی سطح پر سرگرم ہونے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہے۔ یقینا اسلامی جمہوریہ ایران کو امریکی پابندیوں بالخصوص ٹرمپ انتظامیہ کی ''زیادہ سے زیادہ دباؤ‘‘ کی پالیسی کو کم کرنے میں بھی مدد مل سکے گی ‘ تاہم چین اور ایران کے مابین فوجی تعاون کوئی نئی بات نہیں ہے‘ اس کا سلسلہ 1980 ء کی دہائی میں ایران عراق جنگ کے دور میں شروع ہوا اور حالیہ برسوں میں اس میں مزید اضافہ ہوا ہے۔اس میں شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ چین نے ایران کے خلاف استعمال ہونے والے اس امریکی غبارے سے ہوا نکال دی ہے جس کے بل بوتے پر وہ ایران کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر رہا تھا اور اس پر دباؤ ڈال رہا تھا کہ وہ اپنے تمام جوہری پروگرام بند کر دے اور امریکی خواہشات کے تابع ہو کر نئے معاہدوں کی بیڑیوں میں خود کو جکڑ لے۔ دراصل ایران کا چین سے معاہدہ امریکی پابندیوں اور اس کے عزائم کی مزاحمت کا بڑا ثبوت ہے کیونکہ اب امریکی سازشیں پروان نہیں چڑھ سکیں گی۔ امریکہ اس وقت ایران اور چین کا مشترکہ دشمن ہے جس نے دنیا بھر میں اپنے سیاسی اہداف کی تکمیل اور کمزور حکومتوں پر اپنی مرضی مسلط کرنے کیلئے ڈھٹائی سے معاشی دہشت گردی کا سہارا لیا ہے۔اس معاہدے کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ اسے پوری دنیا کے ذرائع ابلاغ نے غیر معمولی اہمیت دی اور کورونا وائرس کی ہلاکت خیزی کے باوجود یہ خبر بڑے اخبارات کی زینت بنی۔ اربوں ڈالر زکی سرمایہ کاری سے ایران کی معاشی پریشانیاں دور ہونے کے ساتھ ساتھ اقتصادی حالت میں بھی سدھار آئے گا اور علاقائی معیشت کو بھی ترقی ملے گی۔
تقریباً چھ سال پہلے چینی صدر نے ایران کے دورے کے دوران ایرانی تجویز پر مذکورہ معاہدے پر رضامندی ظاہر کی تھی؛ چنانچہ اس ضمن میں 2016ء کے چینی صدر کے دورے کو بنیاد مانا جا رہا ہے‘ مگردونوں ملکوں کے مابین قربتیں اُس وقت بڑھیں جب دونوں کو اقوام متحدہ کی جانب سے پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا۔ ایران چین اقتصادی شراکت داری سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس صدی میں چین کا عروج اور امریکہ کا زوال ایک حقیقت بن چکا ہے ۔ امریکہ کو اب یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ چین کے بارے میں معاندانہ گفتگو کرنے اور روسی صدر کو قاتل کہنے سے وہ اپنے پیچیدہ سیاسی‘ معاشی و سماجی مسائل حل نہیں کر سکتا اور نہ ہی بھارت کو خطے میں کھلی چھٹی دے کر اپنے مذموم عزائم کی تکمیل میں کامیاب ہو سکتا ہے۔ برکس اور دیگر عالمی و علاقائی تنظیموں کے پلیٹ فارم پر چین مخالف گٹھ جوڑ کو منہ کی کھانا پڑے گی۔ادھر ہم ہیں کہ ناقص خارجہ پالیسی کی بدولت پاک ایران گیس پائپ لائن منصوبہ کھٹائی میں پڑ چکا ہے جس کی وجہ سے دونوں ملکوں کے تعلقات بھی سرد مہری کا شکار ہیں۔
اگرچہ ایران کی طرف صدربائیڈن نے دوستی کا ہاتھ بڑھا کر اچھی مثال قائم کی لیکن ایران کی بات میںبھی وزن ہے کہ معاہدہ امریکہ نے یکطرفہ توڑا تھا ‘بحالی کیلئے بھی یکطرفہ طور پر اسی کو بڑھنا چاہئے‘ جیسے ہی امریکہ پرانی پوزیشن پر آئے گا اسی لمحے ایران بھی معاہدے کا حصہ بن جائے گا۔ عالمی میڈیا کے مطابق چین ایران سے سنٹرل ایشیا تک متبادل کوریڈور بنا رہا ہے جبکہ انڈیا چاہ بہار سے ہرات تک ایک روڈ بنا چکا ہے۔ اگر طالبان افغانستان میں برسر اقتدار آجاتے ہیں تو یہ روٹ کارآمد ثابت نہیں ہوگا۔ اس کے مقابلے میں بندر عباس سے جنوبی چین تک بیلٹ روڈ منصوبے کی کامیابی کے بہت امکانات ہیں۔یہ بھی خبریں منظر عام پر آرہی ہیں کہ چینی بیلٹ اینڈ روڈ کے مقابلے میں صدر بائیڈن ایک منصوبہ لا رہے ہیں تاکہ اس کے اتحادی ایک ایک کر کے چین کی طرف نہ چلے جائیں۔
امریکی ذرائع ابلاغ نے چین امریکہ معاہدے کو بائیڈن انتظامیہ کیلئے سب سے بڑا چیلنج قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس معاہدے نے ایران کو الگ تھلگ کرنے کی امریکی منصوبوں پر ایک بار پھر پانی پھیر دیا ہے۔ امریکی جریدے ''بلومبرگ‘‘ نے ادارتی نوٹ میں لکھا کہ تہران اور بیجنگ کے درمیان قریبی تعاون امریکی پابندیوں کے مقابلے میں ایران کی اقتصادی تقویت کا باعث بنے گا۔ اخبار کے مطابق امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے ایران چین قربت کو امریکہ کیلئے ایک بڑی جیوپولیٹکل آزمائش قرار دیا ۔ٹائم میگزین نے اپنے تبصرے میں لکھا کہ یہ معاہدہ امریکا کے عالمی حریف(چین) اور مشرق وسطیٰ میں دیرینہ رقیب (ایران) کے درمیان تعلقات کو بدل دے گا اور ایران کو عالمی سطح پر الگ تھلگ کرنے کی امریکی کوششوں کو ناکام کرسکتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ معاہدے سے امریکہ اور مغرب کو کوئی فائدہ حاصل نہیں ہونے والا بلکہ اس سے چین اور ایران کو فائدہ ہونے والا ہے اور عالمی سطح پر ایران کی پوزیشن مزید مضبوط ہو گی۔ اس میں دو رائے نہیں کہ چین‘ ایران معاہدہ خطے میں طاقت کے توازن کو مستحکم رکھنے کیلئے خوش آئند ثابت ہوگا۔ اس خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ سے پریشان امریکہ کے دل میں بھی سی پیک کانٹے کی طرح چبھ رہا ہے کیونکہ سی پیک کے ناتے پورے خطے اور اقوام عالم میں چین کے اثرونفوذ کا بڑھنا اس کے دنیا کی واحد سپرپاور ہونے کے زعم پر ضربِ کاری لگنے کے مترادف ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ امریکی غلامی سے نجات کیلئے پاکستان بھی اس معاہدے کا حصہ بن جائے وگرنہ امریکہ کے ہاتھوں پاکستان کو اسی طرح سبکی اٹھائی جاتی رہے گی جس کی واضح مثال حالیہ موسمیاتی سر براہی کانفرنس میں جوبائیڈن انتظامیہ کی طرف سے دنیا کے پہلے10 متاثرہ ممالک میں شامل پاکستان کو نظرانداز کرنااوربھارت کو امریکہ کی جانب سے شرکت کی دعوت دینا۔اس میں پاکستان کیلئے پوشیدہ اشارے مضمر ہیں۔ یہ امر واقعہ ہے کہ پاکستان کی سلامتی کو کمزور کرنے کا خبثِ باطن رکھنے والے بھارت نے پاک چین اقتصادی راہداری (سی پیک) کو سبوتاژکرنے کی نیت سے ایران اور افغانستان کو چکمہ دے کر انہیں سی پیک کے ساتھ منسلک ہونے سے ہٹانے کی بڑی کوششیں کیں۔ اس مقصد کے تحت بھارت کی مودی سرکار نے افغان صدر اشرف غنی کو ایرانی بندرگاہ چاہ بہار کے ساتھ افغانستان کو منسلک کرنے کا سہانا خواب بھی دکھایا ۔ مودی نے چاہ بہار بندرگاہ کی تعمیر میں معاونت کی آڑ میں درحقیقت پاکستان کے اندر دہشت گردی کا نیٹ ورک پھیلانے کیلئے چاہ بہار سے بلوچستان میں داخلے کا راستہ نکالا۔ بھارتی ایجنسی ''را‘‘ کے حاضر سروس جاسوس اور دہشت گرد کلبھوشن یادیو نے اسی راستے سے پاکستان میں آمدورفت کا سلسلہ شروع کیا اور دہشت گردی کی کارروائیاں انجام دیں۔
بلاشبہ چین کے ساتھ ساتھ ایران بھی ایک اُبھرتی ہوئی عسکری طاقت ہے جس نے امریکی دباؤ کو مسترد کر کے خود مختاری کی پالیسی اختیار کی ۔ اس میں پاکستان کیلئے سبق ہے اور ایران کا چین اورروس کے ساتھ مضبوط تعلق پاکستان کے مفاد میں ہوگا۔ جبکہ عالمی ماہرین چین ایران سٹریٹجک معاہدے کو نیو ورلڈ آرڈر قرار دے رہے ہیں۔ یہ کہنا بھی غلط نہ ہوگاکہ خطے بالخصوص ایشیا میں امریکی اثر و رسوخ میں کمی اور چین کے خلاف بھارت کو لانے کی امریکی کوششیں رائیگاں ہو چکی ہیں ‘ ایسے میں نیو ورلڈ آرڈر سے یقیناً دنیا پر امریکی صہیونی غلبے سے نجات ملے گی اور چین کے ذریعے منصفانہ نظام تشکیل پا سکے گاکیونکہ چین دنیا میں امن و سکون کو قائم کرتے ہوئے مثبت اور تعمیری کردار ادا کرنے کا خواہاں ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں