اسلامو فوبیا سے تہذیبوں کے تصادم کا خطرہ!

مسلمانوں کے خلاف زہر افشانی یورپ کا ہمیشہ سے معمول رہا ہے۔ مسلمانوں کا شاندار ماضی ان کے تعصب زدہ دل و دماغ میں کچوکے لگاتا رہتا ہے اور وہ اپنا ذہنی خلفشار مسلمانوں اور اسلام کے خلاف زہر افشانی کرکے دور کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ یورپ میں مساجد اور دیگر اسلامک سنٹرز پر حملہ آور ہو کر مسلمانوں کو تشدد کا نشانہ بنانا روز کا معمول بن چکا ہے، خواتین کا حجاب بھی کئی ممالک میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے، کچھ ملکوں نے اس پر مکمل تو کچھ نے جزوی پابندیاں عائد کر رکھی ہیں۔ مغرب اس دانشور یا نام نہاد مفکر کو سر آنکھوں پر بٹھاتا اور اعزازات سے نوازتا ہے جو اسلام اور اسلامی افکار کے خلاف زہر اگلتا ہے۔ سلمان رشدی کو ''سر‘‘ کا خطاب دیا جانا اس کی واضح مثال ہے۔ یورپ، امریکا، بھارت سمیت دنیا بھر میں ایک منظم اور سوچے سمجھے منصوبے کے تحت دینِ اسلام کے خلاف بے شمار نفرت انگیز تحریکیں سرگرم عمل ہیں، اگرچہ ایسی تحریکیں ہر نسل اور ہر قوم کے پناہ گزینوں کے خلاف ہیں لیکن ان کا سب سے بڑا نشانہ اسلام اور مسلمان ہی ہیں۔ اینٹی مسلم فائونڈیشنز، این جی اوز کو کئی ملین ڈالرز کے فنڈ مہیا کیے جاتے ہیں۔ سوسائٹی آف امیریکنز فار نیشنل ایگزیسٹنس (SANE) جیسی تنظیموں کا مقصدِ عین اسلامی شریعہ کے خلاف مہم چلانا ہے۔ اسی طرح ایک تنظیم ''سٹاپ اسلامائزیشن آف امریکا‘‘ (SIOA) نے 2010ء میں مساجد کے قیام کے خلاف احتجاج کئے اور نفرت انگیز اشتہار چلانے کے لیے بسوں کا استعمال کیا۔ امریکا میں 2016ء میں مسلم مخالف گروہ تیزی سے قائم ہوئے اور 2018ء میں ایک ہزار سے زائد گروپوں کی تشکیل نے امریکا میں ریکارڈ قائم کر دیا۔ نیوز میڈیا، لٹریچر، ویب سائٹس، انٹرنیٹ، سوشل میڈیا، وڈیو گیمز سمیت تمام ذرائع ابلاغ کو اسلاموفوبیا کے لیے استعمال کیا جا رہا ہے۔ نائن الیون کے بعد سے بعض مغربی ممالک میں اسلام کی منفی انداز میں تشہیر کی جا رہی ہے‘ نیوز چینلز پر بھی مسلمانوں کے حوالے سے منفی مہم چلائی جاتی رہی ہے۔ مسلمانوں پر دہشت گردی کا لیبل چسپاں کیا جاتا رہا اور امریکیوں کی اس حد تک ذہن سازی کی گئی کہ عمومی تاثر یہ ہو چکا ہے کہ امریکا و یورپ میں مسلمان ہی دہشت گردی کی کارروائیوں کے مرتکب ہوتے ہیں۔
آکسفورڈ انگلش اور اُردو ڈکشنری فوبیا کی تعریف اس طرح کرتی ہے ''ذہن کی مریضانہ کیفیت‘ جو کسی طرف سے خوف یا نفرت کی صورت میں ظاہر ہوتی ہے‘‘۔ آج مغربی دنیا کو اسلام کا خوف دامن گیر ہوگیا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اسلامو فوبیا کی اصطلاح مشہور مصور الفانسے ڈینٹ اور الجیریا کے مفکر سلیمان بن ابراہیم نے 1918ء میں فرانسیسی میں لکھی جانے والی ایک کتاب میں متعارف کروائی تھی لیکن درحقیقت اسلامو فوبیا صلیبی جنگوں کے دوران وجود میں آیا اور شاہ فلپ نے اسلامو فوبیا ہی کے تحت تین لاکھ مسلمانوں کو اندلس سے دربدر کیا تھا۔ آکسفورڈ ڈکشنری کے مطابق اس لفظ کا باقاعدہ استعمال 1923ء میں''دی جرنل آف تھیولوجیکل سٹڈیز‘‘ کے ایک مضمون میں ہوا تھا۔ اسلاموفوبیا کی اصطلاح کا استعمال برطانیہ کے ایک ادارے رینمیڈ ٹرسٹ نے 1997ء میں ایک رپورٹ میں بھی کیا تھا جس کا عنوان تھا ''اسلامو فوبیا سب کے لیے چیلنج‘‘۔ رینمیڈ ٹرسٹ کے مطابق اسلامو فوبیا کوئی ایک خوف نہیں بلکہ بہت سے دیگر خوفوں کا مجموعہ ہے۔ مذکورہ رپورٹ کے مدیر رچرڈ رابنسن کے مطابق اسلامو فوبیا کی اصطلاح کی موزوں تعریف متعین کرنے کی ضرورت ہے۔
سیموئل پی ہنٹنگٹن (Samuel P. Huntington) کے تہذیبوں کے ٹکرائو کے نظریے نے بھی مغربی معاشروں میں اسلام دشمنی کے جذبات کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کیا۔ اسی طرح نائن الیون کو فوری طور پر مسلمانوں سے جوڑ دیا گیا۔ جارج بش کا یہ اعلان کہ ہم ''صلیبی جنگ‘‘ کا آغاز کریں گے‘ دراصل ان عزائم کا واضح اظہار تھا جن کے تحت صلیبی و صہیونی تحریکیں عرصہ دراز سے دنیا کو مسلمانوں کے خلاف کرنے کی کوششوں میں مصروف تھیں۔ گوانتا نامو اور ابوغریب جیل میں مقدس کتب کے ساتھ توہین آمیز سلوک کرکے مسلمانوں کے جذبات کو جو ٹھیس پہنچائی گئی وہ بھی اسلامو فوبیا ہی کا نتیجہ تھا۔ پوری دنیا میں مسلمانوں کو خونخوار‘ دہشت پسند اور امن عالم کیلئے خطرے کی علامت کے طور پر پیش کیا جانا‘ گستاخانہ خاکوں کے خلاف پُرامن احتجاج کرنے والے مسلمانوں کو دہشت گردی سے جوڑ کر ان کے گرد گھیرا تنگ کیا جانا‘ سب یہ اسلامو فوبیا نہیں تو اور کیا ہے؟ یورپی معاشرے میں آزادیٔ اظہارِ رائے کا حق ناقابل تنسیخ ہے لیکن اس کے لیے بھی حدود و قیود مقرر ہوتی ہیں اور ان سے تجاوز کرنے پر قانونی چارہ جوئی کی جا سکتی ہے‘ مثلاً یورپ میں دوسری جنگ عظیم کے موقع پر یہودیوں کے قتل عام (Holocaust) کے خلاف لکھنا‘ اس کی تردید کرنا، اور تفصیلات شائع کرنا ایک جرم ہے۔ ہولو کاسٹ کی تردید کرنے والے عالمی شہرت یافتہ مصنف ارنسٹ زنڈل(Ernst Zundel) کو 2005ء میں کینیڈا بدر کر دیا گیا تھا۔ جرمنی میں اس پر 14 الزامات عائد ہوئے اور 5 برس قید کی سزا سنائی گئی۔ برطانوی مورخ ڈیوڈ اورنگ کو 2006ء میں آسٹریا کی عدالت نے دوسری جنگ عظیم کی تاریخ لکھنے کی پاداش میں 3 سال قید کی سزا سنائی۔ دوسری طرف اسلام اور مسلمانوں کے خلاف لکھنا، ہرزہ سرائی کرنا، توہین آمیز خاکے شائع کرنا جیسے اقدام آزادیٔ اظہار کے نام پر بلاخوفِ تعزیر انجام دیئے جاتے ہیں۔ یہ مغرب کا دہرا معیار نہیں تو اور کیا ہے؟ ایک طرف یہ ممالک یہودیت و عیسائیت کے تحفظ کا قانون بناتے ہیں اور دوسری جانب اسلام کے خلاف دشنام طرازی پر خاموش رہتے ہیں۔ ایک طویل عرصے سے یورپی و امریکی اخبارات مسلمانوں کے خلاف من گھڑت کہانیا ں شائع کر رہے ہیں کیونکہ اسلامو فوبیا مغرب میں خوف کی صنعت کا درجہ اختیار کر چکا ہے۔ امریکی مصنف ناتھن لین کے مطابق امریکا میں اسلامو فوبیا ملین ڈالر انڈسٹری کا روپ اختیار کر چکا ہے۔ جس سے امریکا، برطانیہ اور اسرائیل کے سیاسی و معاشی مفادات وابستہ ہیں۔ بعض اخبارات و جرائد میں باقاعدگی سے اسلامو فوبیا کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا اور گزشتہ سال ہونے والے امریکی صدارتی الیکشن کی آڑ میں اسلامو فوبیا مہم بھی چلائی گئی۔ ہالی وُڈ کی فلموں کی مثال ہمارے سامنے ہے جس میں عربوں اور مسلمانوں کو ہمیشہ منفی انداز میں بالخصوص ولن، دہشت گرد اور خواتین کے خلاف جرائم میں ملوث دکھایا گیا اس ضمن میں لاتعداد فلموں کی مثال دی جا سکتی ہے؛تاہم بیروت، 7 days in Entebbe، The 15:17 to Prais، جیک ریان اور الہ دین جیسی فلمیں سرفہرست ہیں۔ نائن الیون کے بعد بڑی تعداد میں اسلام مخالف لٹریچر اور کتابیں منظر عام پر آئیں۔ رابرٹ سپنسر، پامیلا گیلیر اور بل وارنر جیسے مصنف اس ضمن میں نمایاں ہیں۔ اس مقصد کے لیے کئی ویب سائٹس بھی چلائی جا رہی ہے۔ بعض وڈیو گیمز بھی اس حوالے سے کافی نمایاں ہیں۔
مسلمانوں کے حوالے سے امریکا و یورپ میں یہ پروپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ وہ امریکا سمیت پوری دنیا میں شریعت کا نفاذ چاہتے ہیں‘ اس لئے اگست 2017ء میں 43 امریکی ریاستوں میں شرعی نظام کے خاتمے کیلئے 201 بل منظور کئے گئے تھے۔ اس وقت اسلامو فوبیا کو سیاست اور سیاسی پالیسیوں کا ایک اہم عنصر بنا دیا گیا اور متعدد امریکی و یورپی سیاستدانوں نے اسی چیز کی بنیاد پر ووٹ مانگا۔ ایک سروے کے مطابق صرف 15 فیصد امریکی اسلام اور مسلمانوں کے حق میں ہیں، 37 فیصد اسلام کے حوالے سے منفی رائے رکھتے ہیں۔ پیو سروے کے مطابق دیگر مذہبی و نسلی اقلیتی گروپوں کی نسبت مسلمانوں کے خلاف نفرت و عصبیت 48 فیصد زیادہ پائی جاتی ہے۔ 41 فیصد امریکی سمجھتے ہیں کہ مسلمان تشدد پسند ہیں اور نصف سے زائد امریکیوں کے خیال میں اسلام امریکی سماج کا حصہ ہی نہیں۔ امریکا میں مسلمانوں کے خلاف عصبیت و منافرت 75 فیصد تک بڑھ چکی ہے۔ اس وقت مغرب اور عالم اسلام کے مابین جس قسم کی کشمکش پائی جاتی ہے اس کی ذمہ داری یورپی ممالک پر عائد ہوتی ہے جنہوں نے ایک عرصہ تک اسلام کے خلاف معاندانہ سرگرمیاں جاری رکھیں۔ عالم اسلام کے ساتھ مغرب کی عداوت کو بڑھانے میں تحریک استشراق (Orientalism) کا اہم کردار ہے۔ اسلام کے ساتھ عداوت کو تاریخی طور پر صلیبی جنگوں سے جوڑنے میں ان کی بیشتر کتابیں اسلام سے متعلق انتہائی منفی افکار سے بھری ہوئی ہیں۔ اس کے علاوہ گلوبلائزیشن، لبرل ازم، سیکولر ازم اور مغرب کے دیگر مادی فلسفے بھی عالم اسلام کو کمزور کرنے پر ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔ آئے روز یورپ کے کسی نہ کسی ملک میں توہین آمیزخاکے بھی تہذیبوں کے تصادم کی راہ کھول رہے ہیں لہٰذا ایسے میں اسلام مخالف مواد پر اسی نوعیت کی پابندی لگائی جانی چاہئے جیسے ''ہولوکاسٹ‘‘ سے متعلق عائد ہے۔ رحمت دو عالم حضرت محمد مصطفیﷺ کا ارشادِ گرامی ہے کہ ''مسلمان آپس میں ایک جسم کی مانند ہیں‘ اگر جسم کے کسی ایک حصے میں درد ہو تو پورا جسم تکلیف محسوس کرتا ہے‘‘ لہٰذا عالم اسلام کے حکمرانوں کو اب خوابِ غفلت سے بیدار ہوکر دنیا بھر کے ممالک میں مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کی روک تھام کیلئے موثر حکمت عملی اپنانا ہو گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں