افغانستان امریکا کا قبر ستان؟

غزہ میں فلسطینیوں کے قتلِ عام پر امریکی و مغربی بے حسی کا واضح مطلب یہی ہے کہ دنیا کسی طور بھی مسلمانوں کے معاملات کو سلجھانے اور بحرانوں کے حل کے لیے تیار نہیں بلکہ اس وقت تمام باطل قوتیں اسلام اور مسلمانوں کو مٹانے اور ان کے وسائل پر قبضہ جمانے کیلئے سرگرم ہیں کیونکہ عالمی جغرافیے میں یہ خطہ‘ پاکستان جہاں واقع ہے‘ عالمی اقتصادیات کا دہانہ بن چکاہے۔ امریکاکا افغانستان پر حملہ بھی ایک گریٹ گیم کا حصہ تھا ورنہ القاعدہ اور طالبان تو محض ایک بہانہ تھے۔ امریکا افغانستان میں مٹی کے گھروندوں پر بمباری کیلئے نہیں آیا تھا بلکہ عالمی قوتوں کا افغانستان کی جانب امریکا کو دھکیلنے کا مقصد پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کو ٹھکانے لگانا اور چین کی بڑھتی ہوئی اقتصادی قوت کے سامنے بند باندھنا تھا تاکہ وسط ایشیائی ریاستوں کے معدنی وسائل پر آسانی سے ہاتھ صاف کیے جاسکیں اور جس وقت مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کی دجالی قیادت کا اعلان ہو تو کوئی اسے روکنے والا نہ رہے۔ ادھرمسلمانانِ عالم کا حال یہ ہے کہ ان کی حکومتوں کو آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی شکل میں یا تو ''روٹی‘‘ دکھائی جاتی ہے یا نافرمانی کی صورت نیٹو، اسرائیل اور بھارت کی تلوار چمکائی جاتی ہے۔ اب فیصلہ خود مسلمانوں کو کرنا ہے کہ انہیں یہ حقارت آمیز روٹی کھانی ہے یا غیرت مند ملت کی طرح اس طاغوتی تلوار کا مقابلہ کرنا ہے۔افسوس کہ ہمارے کچھ لوگ ان کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں۔ دوسری جانب یہ خدشہ بھی بدستور موجود ہے کہ کہیں پورے خطے کا وہی حال نہ ہو جائے جو لارنس آف عربیہ نے عربوں کا استعمال کرکے خلافت عثمانیہ کا کیا تھا۔ برٹش آرمی کا جاسوس‘ جس نے عربوں کو قومیت کے نام پر پہلی جنگ عظیم میں دھکیلا تھا۔ ایک طاقتور خلافت کے زوال کے دوسرے اسباب کے ساتھ ایک سبب یہ بھی بنا تھا۔
اس وقت‘ واشنگٹن کی طرف سے 11ستمبر تک افغانستان سے امریکی انخلا کے اعلان کے بعد‘ افغانستان میں شر پسند عناصر متحرک ہو چکے ہیں جو عشروں سے جنگ زدہ اس ملک اور خطے کی بدامنی میں اپنا مفاد تلاش کر رہے ہیں۔ پاکستان افغانستان سے جغرافیائی، تہذیبی، مذہبی اور ثقافتی طور پر جڑا ہوا ہے اور اس پڑوسی ملک کے کشیدہ حالات کے باعث پاکستان کو بھی غیر معمولی جانی و مالی قربانیوں اور نقصانات کے علاوہ سیاسی، معاشی اور سماجی سطح پر عدم استحکام کی کیفیت سے دوچار ہونا پڑا ہے۔واضح رہے کہ حالیہ دنوں میں افغان سرزمین سے دہشت گردوں نے افواجِ پاکستان کی چوکیوں کو نشانہ بنایا ہے جس سے پاک فوج کے کئی جوان شہید اور زخمی ہوئے ؛ چنانچہ حالیہ کورکمانڈرز کانفرنس میں افغانستان سے یکے بعد دیگرے فائرنگ کے واقعات سمیت افغان سرحد کی صورتحال، عالمی‘ علاقائی اور داخلی سکیورٹی کے معاملے پر غور کیا گیا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے امید ظاہر کی کہ افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال نہیں کی جائے گی اور توقع ہے کہ افغانستان امن دشمنوں کو جگہ نہیں دے گا۔ امریکی وزیر دفاع نے مشترکہ علاقائی مفادات اور مقاصد پر تبادلۂ خیال کیلئے آرمی چیف سے فون پر بات کی۔ جنیوا میں پاکستان کے قومی سلامتی کے مشیرڈاکٹر معید یوسف کی اپنے امریکی ہم منصب جیک سولیون سے ملاقات کو بھی پاکستان کی سول و عسکری قیادت کے اجلاس اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے امریکی وزیر دفاع کی ٹیلیفونک گفتگو کے تناظر میں دیکھا جا رہا ہے۔
دوسری جانب پا کستان کی فضائی اور زمینی حدود کے استعمال کے حوالے سے امریکا اور پاکستان کے متضاد دعوے سامنے آئے ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے پارلیمنٹ میں صریحاً کہا '' یہ ایوان اور پاکستانی قوم میری گواہی یاد رکھے گی کہ عمران خان کی قیادت میں امریکا کیلئے کوئی فوجی اڈا مختص نہیں کیا گیا‘‘؛ تاہم پنٹا گون نے دعویٰ کیا ہے کہ پاکستان نے امریکی افواج کو افغانستان میں موجودگی برقرار رکھنے میں مدد دینے کیلئے فضائی اور زمینی حدود کے استعمال کی اجازت دے دی ہے۔ یاد رہے کہ نائن الیون کے بعد امریکا نے جب افغانستان پر یلغار کی اورپاکستان کو پتھر کے زمانے میں بھیجنے کی دھمکی دے کر افغان جنگ میں اپنا فرنٹ لائن اتحادی بنایا تھا تب امریکا سابق صدر پرویز مشرف سے کئے گئے معاہدوں کے تحت افغانستا ن میں بمباری کیلئے شمسی ایئر بیس خضدار اور شہباز ایئر بیس جیکب آباد استعمال کرتا رہا جس کے ردعمل میں پاکستان بدترین دہشت گردی اور خودکش حملوں کی لپیٹ میں آیا اور اسے عملاً افغانستان سے زیادہ جانی اور مالی نقصان اٹھانا پڑا؛ تاہم 2011 ء سے پہلے ہی ان ایئر بیس سے آپریشنز بند کر دیے گئے تھے۔ مئی 2011ء میں امریکی ہیلی کاپٹروں کا ایبٹ آباد آپریشن اور 2012ء میں امریکی جہازوں کے سلالہ چیک پوسٹوں پر حملے اور اس کے نتیجے میں پاک فوج کے دو درجن جوانوں کی شہادت کے بعد حکومت نے نیٹو سپلائی بند کرنے کے ساتھ ساتھ ایئربیس بھی امریکا سے واپس لے لئے تھے۔ اب ترجمان د فتر خارجہ کی وضاحت میں عندیہ دیا گیا ہے کہ پاک امریکا تعاون کا 2001ء کا معاہدہ ابھی تک برقرار ہے۔ یقینا امریکی نائب وزیر دفاع نے اس معاہدے کے حوالے سے ہی پاکستان کی فضائی اور زمینی حدود استعمال کرنے کی اجازت ملنے کا دعویٰ کیا ہے۔ یہ بات اس وقت کی گئی ہے جب امریکا افغانستان سے اپنی افواج نکال رہا ہے اور پاکستان کی کوششوں سے افغانستان میں قیامِ امن کی راہ ہموار ہو رہی ہے۔ اس حوالے سے امریکی نائب وزیر دفاع کے دعوے پر قوم کا مضطرب ہونا فطری امر ہے کیونکہ یہ ہماری قومی سلامتی اور خودمختاری کا معاملہ ہے اور وزیراعظم عمران خان خود بھی ایسے معاہدوں کے سخت ناقد رہے ہیں۔ اب یہ وضاحت سامنے آئی ہے کہ پاکستان نے امریکا کو ایئر بیس نہیں دی صرف ایئر ٹریفک کی اجازت دی گئی ہے۔ یعنی کان کو سیدھا پکڑ نے کے بجائے ہاتھ گھما کر پکڑ نے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اس کا نتیجہ بھی وہی برآمد ہو گا جو 2001ء سے 2011ء تک ہو تا آیا ہے۔
آج پورا جنوبی ایشیا اور افغان سرزمین عالمی سیاست کا اکھاڑا بنے ہوئے ہیں۔ افغانستان دو سپر پاور ز کا قبرستان ثابت ہوا ہے۔ اب روس بھی اپنے آپ کو دوبارہ منوانے کے لیے انگڑائیاں لے رہا ہے اور کسی حد تک ایک اہم کھلاڑی کے طور پر چین کے ساتھ میدان میں موجود ہے۔ دوسری جانب بھارت روس کوچھوڑ کرامریکی پہلو میں جا بیٹھا ہے اور دہلی پر امریکی نوازشوں نے اسے علاقے کا تھانیدار بننے کے خبط میں مبتلا کر دیا ہے جس سے مستقبل کا منظر نامہ بہت بھیانک دکھا ئی دے رہا ہے۔ امریکی انخلا سے قبل استعماری طاقتیں نیا کھیل کھیلنے میں مصروف ہیں۔بھارت چاہتا ہے کہ امریکی انخلا کے بعد بھی افغانستان میں اس کا کردار باقی رہے اسی بنا پر ریاستِ کشمیر کا خصوصی سٹیٹس ختم کرنے کے بعدبھارت مقبوضہ وادی کے ہوائی اڈے امریکا کے حوالے کرنے کے لیے پرتول رہا ہے اور یوں پاکستان، روس، چین اور ایران میں عدم استحکام پیدا کرنے کیلئے بھارت کے توسط سے مقبوضہ کشمیر کو استعما ل کیا جائے گا۔اس سے قبل بھی بھارت افغان سرزمین کوپاکستان کے خلاف استعمال کرتا رہا ہے اور افغانستان کے 14 شہروں میں اس نے اپنے قونصل خانے قائم کر کے دہشت گردوں کو باقاعدہ تربیت دینے کا سلسلہ جاری رکھا اور یہی دہشت گرد پاک افغان سرحد عبور کرکے پاکستان کی چیک پوسٹوں پر بھی حملہ آور ہوتے رہے۔ پاکستان نے ایسے واقعات کی روک تھام کیلئے ہی پاک افغان سرحد پر باڑ لگانے کا سلسلہ شروع کیا تھا مگر کابل حکومت نے پاکستان کے ساتھ سخت کشیدگی کی فضا پیدا کردی اور پاکستان کی چیک پوسٹوں پر حملوں کیلئے دہشت گردوں کی سرپرستی کی۔ موجودہ افغان صدر اشرف غنی بھی حامد کرزئی کی طرح پاکستان کے خلاف زہریلے پروپیگنڈے میں مصروف ہیں جبکہ امریکا کو مکمل ادراک ہو چکا ہے کہ افغانستان میں امن عمل پاکستان کی معاونت سے ہی کامیابی سے ہمکنار ہو سکتا ہے۔ اسی بنیاد پر پاکستان کے ساتھ سازگار تعلقات ٹرمپ انتظامیہ کی بھی مجبوری بنے اور بائیڈن انتظامیہ بھی پاکستان کے اس کردار کی قائل ہے کہ پاکستانی کوششوں سے ہی امریکا اور طالبان کے مابین قطر کے امن مذاکرات کی بیل منڈھے چڑھی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں