لازوال پاک چین دوستی اور کمیونسٹ پارٹی کا 100 سالہ سفر

کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کامیابیوں، کامرانیوںکا صد سالہ جشن منانے میں مصروف ہے ۔ ماضی میں سیاسی بے یقینی، وار لارڈز اور غربت کے عفریت کے شکنجے میں جکڑے ہوئے چین کی عالمی منظر نامے پر کوئی حیثیت نہ تھی‘ ایسے حالات میں یکم جولائی 1921ء میں کمیونسٹ پارٹی کی پہلی کانگریس ہوئی اور اس کے بعد کا میابیوں کا ایسا سفر شروع ہوا جو آج بھی جاری ہے۔ پارٹی کے جنرل سیکرٹری چین کے صدر شی جن پنگ نے سی پی سی کی 100ویں سالگرہ کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چینی عوام انصاف کی جستجو کرنے والے ہیں‘ یہ کسی ظالم سے نہیں ڈرتے‘ چینی قوم کو اپنی شناخت پر فخر اور اعتماد ہے‘ چینی قوم نے کبھی کسی دوسرے ملک کے عوام کو دھونس، ظلم یا جبر کا شکار نہیں بنایا اور نہ ہی آئندہ کبھی ایسا ہو گا مگر چینی عوام کسی بھی بیرونی قوت کو اپنے ساتھ دھونس، بالادستی یا جبر کا رویہ روا رکھنے کی اجازت بھی نہیں دے سکتے۔ مغربی و عالمی ذرائع ابلاغ اس بات کا برملا اعتراف کرتے نظر آتے ہیں کہ کمیونسٹ پارٹی چین کو غربت اور عدم استحکام سے نجات دلانے اور تیز رفتاری کے ساتھ خوش حالی اور استحکام دینے کا باعث بنی ہے۔ برطانوی جریدے اکانومسٹ کے مضمون ''چین کی سو سالہ کمیونسٹ پارٹی اور اس کی طویل عمر کا راز‘‘ میں کہا گیا ہے کہ دنیا میں کوئی اور کمیونسٹ حکومت چینی کمیونسٹ پارٹی کی مانند نہیں ہے، اس نے چین کو فاقوں اور آفات سے نجات دلا کر دنیا کی دوسری سب سے بڑی معیشت بنا دیا ہے، اس کی جدید ٹیکنالوجی اور انفراسٹرکچر کے مقابلے میں امریکا کی سڑکیں اور ریل گاڑیاں کافی پسماندہ نظر آتی ہیں۔ جرمن میڈیا گروپ ''میونخ میسنجر‘‘ کی ویب سائٹ کے مطابق‘ ترقیاتی عمل میں چین نے سابق سوویت یونین کی ناکام اصلاحات سے سبق حاصل کرتے ہوئے ان سے گریز کیا اور نجی معیشت کی بھرپور حمایت کی۔ چینی کمیونسٹ پارٹی کے ذریعے تشکیل پانے والی سوشلسٹ مارکیٹ کے معاشی نظام نے معاشی نمو کو مؤثر انداز میں فروغ دیا۔ امریکا کی ''کرسچن سائنس مانیٹر‘‘ ویب سائٹ کی طویل رپورٹ ''چین کے لوگ ایک صدی پرانی جماعت 'چینی کمیونسٹ پارٹی‘ کی حمایت کیوں کرتے ہیں؟‘‘ میں کہا گیا ہے کہ 2020ء کے اوائل میں جس طرح چینی کمیونسٹ پارٹی نے کورونا وبا پر قابو پایا‘ اس سے عوام کے نزدیک چینی کمیونسٹ پارٹی کو مزید اہمیت ملی۔ صد سالہ تقریبات میں چینی رہنماؤں نے بدعنوانی کے خاتمے کا عزم ظاہر کیا ہے، جس کا تعلق پارٹی اور ملک کی بقا سے ہے۔ انہی اقدامات کی بدولت چینی کمیونسٹ پارٹی عوام میں مقبول ہے۔ درحقیقت چینی کمیونسٹ پارٹی دنیا کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کہلاتی ہے جس کے 9 کروڑ سے زیادہ ممبران ہیں اور 70 سال سے زائد عرصے سے یہ چین میں برسر اقتدار ہے۔
چین نے جو ترقیاتی راستہ اور سیاسی نظام منتخب کیا ہے‘ وہ مغربی ممالک کے سیاسی نظام سے یکسر مختلف ہے۔ یہ راستہ چین کے قومی تقاضوں کے عین مطابق ہے اور چین کیلئے انتہائی موزوں بھی لیکن ایک طویل عرصے سے‘ کچھ مغربی ممالک میں سیاستدان اور چند میڈیا چینلز مختلف حربوں سے چینی کمیونسٹ پارٹی کو بدنام کرتے چلے آ رہے ہیں۔ دراصل ابتدائی طور پر معاشی طور پر بدحال ایک سخت سوشلسٹ سوسائٹی کے طور پر دیکھا جانے والا چین اب منفرد گورننس ماڈل کے ذریعے دنیا بھر میں موضوعِ بحث بنا ہوا ہے جہاں سوشلزم کے تحت ایسا نظامِ حکومت تشکیل دیا گیا جس میں ہر طبقے کو بیش بہا سماجی و معاشی فوائد حاصل ہوئے ہیں اور عالمی ماہرین مذکورہ نظام کی تہہ تک پہنچنے کیلئے تفصیلی مطالعے میں مصروف ہیں کہ کس طرح چین کے طرزِ حکمرانی کو عظیم کامیابی ملی؟ طویل خانہ جنگی کے اختتام پر عوامی جمہوریہ چین نے آزادی حاصل کرنے کے بعد کرشماتی گورننس ماڈل میں اصلاحات کا آغاز چیئرمین کمیو نسٹ پارٹی مائوزے تنگ نے کیا۔ مائوزے تنگ کو جدید چین کا بانی سمجھا جاتا ہے۔ چین کے لوگ افیون کی لت میں مبتلا تھے لیکن مائوزے تنگ نے اپنی قوم سے یہ لت چھڑوا کر اسے دنیا کی ایک محنتی قوم بنا دیا۔ ان کے بعد جتنے رہنما آئے‘ انہوں نے اپنی پالیسیوں کے باعث چین کو ترقی کے نت نئے راستے پر گامزن کیا اور ساتھ ہی ساتھ یہ کوشش بھی جاری رکھی کہ چین کی ترقی پسندانہ پالیسیا ں منجمد نہ ہو نے پائیں تا کہ جو نئے چیلنجز آئیں‘ ان کا مقابلہ کیا جاسکے اور یہی وجہ ہے کہ چین آج اس مقام پر کھڑا ہے۔ درحقیقت چین کی کمیونسٹ پارٹی‘ جسےCCP کہتے ہیں‘ نے ریاست کے سماجی، سیاسی اور معاشرتی شعبے میں اصلاحات پر عملدرآمد کرانے میں ریاست کی رہنمائی کی اور موجودہ کامیاب حکومتی ڈھانچے کی تعمیر و ترقی میں نمایاں کردار ادا کیا۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی کو عمومی طور پر درجہ بندی کرتے ہوئے تین مرحلوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ سب سے اعلیٰ سطح پر نیشنل کانگریس‘ دی سینٹرل کمیٹی اور پولیٹ بیورو سٹینڈنگ کمیٹی جو پی بی ایس سی سمیت چین کی اعلیٰ لیڈر شپ پر مشتمل ہوتی ہے۔ دوسری سطح پر سیکرٹریٹ سینٹرل کمیٹی، دو سپیشل کمیشنز، ملٹری کمیشن اور نظم و ضبط برقرار رکھنے کے لیے سینٹرل کمیشن، سی سی ڈی آئی (CCDI) پارٹی کی پالیسی بنانے میں بڑا کردار ادا کرنے والے گروہوں کا احاطہ کرتی ہے۔ تیسرے درجے پر چین کے انتظامی مسائل کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ CCP کی تجویز پر مقامی حکومتی نظام پروینشل، میونسپل قصبوں کی سطح پر منقسم ہے۔ سی سی پی ڈھانچے کو تمام سٹرکچر یونٹس میں زیر بحث لایا جاتا ہے۔ چینی ریاست نے قانون سازی، انتظامی اور عدالتی شعبوں میں گورننس کی درجہ بندی کر رکھی ہے۔ یہ گروہ مجموعی کام اور سینٹرل کمیٹی کی پالیسی پر عملدرآد کروانے کاذمہ دار ہے۔ کمیونسٹ پارٹی کی یہ خوبی ہے کہ اس میں نوجوانوں، خواتین اور اقلیتی طبقات کی نمائندگی پر خصوصی توجہ دی گئی ہے۔ پارٹی میں احتساب اور نظم و ضبط کا بھی ایک کڑا معیار ہے، کسی بھی سیاسی وابستگی کو بالائے طاق رکھتے ہوئے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرنے والے اراکین یا کوتاہی کے مرتکب پارٹی عہدہ داروں کو فی الفور معطل کرنے سمیت تادیبی کارروائی کی جاتی ہے۔ چین کی کمیونسٹ پارٹی نے بیجنگ میں ایک انسٹیٹیوٹ قائم کررکھا ہے جہاں پارٹی کے اراکین کومتعلقہ شعبوں میں وزیر‘ مشیر بنانے اور چین کیلئے نئی قیادت تیار کرنے کی تربیت دی جاتی ہے۔ تربیت مکمل ہونے کے بعد ان کو سر ٹیفکیٹ دیا جاتا ہے۔ اگر کسی شخص کے پاس اس انسٹیٹیوٹ کا سر ٹیفکیٹ نہ ہو تواسے وزیر یا مشیر بنانے کے قابل نہیں سمجھاجاتا۔بلاشبہ چینی کمیونسٹ پارٹی نے گورننس کا ایک مؤثر، ٹھوس اور جامع نظام متعارف کروایا اور ایسی مضبوط قیادت فراہم کی جس نے ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کیا؛ چنانچہ تمام تر مغربی اعتراضات کے باوجود چینی طرزِ حکمرانی ایک آئیڈیل نظام ہے۔ جس طرح چین نے خود کو خطِ افلاس سے نکال کر خوشحال قوم میں لا کھڑا کیا ہے‘ یہ اپنے آپ میں اتنا بڑا اقتصادی کرشمہ ہے جس پر دنیا بھر کے معاشی ماہرین انگشت بدنداں ہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان چین تعلقات'آل ویدر سٹریٹیجک کوآپریٹو پارٹنر شپ‘‘ میں تبدیل ہو چکے ہیں کیونکہ سیاسی و عالمی مسائل ہوں یا ہمسایہ ممالک سے تنازعات‘ بیجنگ ہمیشہ ہی پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا۔ وزیر اعظم عمران خان نے چینی ٹی وی کو انٹر ویو دیتے ہوئے دوٹوک الفاظ میں امریکا و مغرب پر واضح کر دیا کہ چین کے حوالے پاکستان کسی دبائو میں نہیں آئے گا۔پاک چین دوستی بے مثال اور لازوال ہے اور اس پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے؛ چنانچہ موجودہ عالمی تناظر میں‘ جب امریکا افغانستان سے بھاگ رہا ہے اور نام نہاد دہشت گردی کی جنگ کا ڈراپ سین ہو چکا ہے‘ پاک چین تعلقات مزید اہمیت اختیار کر گئے ہیں۔ کچھ طاقتیں ہرآزمائش اور ہر امتحان میں پوری اتر نے والی ہمالیہ سے بلند، سمندروں سے زیادہ گہری، شہد سے زیادہ میٹھی اورفولاد سے زیادہ مضبوط دوستی میں دراڑ ڈالنے کے لیے مسلسل بر سر پیکار ہیں۔ چین کی فوجی، اقتصادی اور معاشی ترقی سے خائف امریکا، بھارت اوران کے اتحادی پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے کی راہ میں رکاوٹیں ڈالنے کیلئے اپنی تمام تر توانائیاں بروئے کار لا رہے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستان مغربی قوتوں کے مزید کسی جھانسے میں نہ آئے کیونکہ کسی کے دبائو میں آکراگر چین سے تعلقات خراب کیے گئے تو اس کا بھیانک خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں