آزاد کشمیر انتخابات اور بھارت کی ’’ پراکسی وار‘‘

آزاد جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کے لیے ہونے والے عام انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف نے 26 نشستوں کے ساتھ عددی اکثریت حاصل کرلی ہے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی گیارہ نشستوں کے ساتھ دوسرے اور چھ نشستوں کے ساتھ پاکستان مسلم لیگ نواز تیسرے نمبر پر رہی۔ آزاد کشمیر کی قانون ساز اسمبلی کی کل 53 نشستیں ہیں جن میں سے 45 نشستوں کے لیے براہِ راست انتخابات ہوتے ہیں جبکہ بقیہ 8 مخصوص نشستیں ہیں۔ ان 8 میں سے 5 نشستوں پر خواتین کو نامزد کیا جاتا ہے اور ایک ایک نشست علما، ٹیکنوکریٹس اور بیرونِ ملک مقیم کشمیریوں کے لیے ہوتی ہے۔ 45 میں سے 33 نشستوں کے لیے انتخابات آزاد جموں و کشمیر کے 10اضلاع میں ہوتے ہیں اور 12 نشستوں پر پاکستان کے چاروں صوبوں میں رہنے والے کشمیری مہاجرین ووٹ ڈالتے ہیں، ان میں سے 6 نشستیں وادیٔ کشمیر اور 6 جموں کے مہاجرین کے لیے مختص ہیں۔ آزاد جموں و کشمیر کے انتخابات میں رائے دہندگان کی تعداد 32 لاکھ 20 ہزار سے زائد ہے۔ الیکشن کمیشن کے مطابق مرد رائے دہندگان کی تعداد 17 لاکھ سے زیادہ جبکہ خواتین ووٹرز کی تعداد 14 لاکھ سے زائد ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ انتخابات کے دوران ہونے والے تصادم اور جھگڑوں کے دوران دو افراد جاں بحق اور کئی زخمی ہوئے جن میں پانچ پولیس اہلکار بھی شامل تھے۔ البتہ مجموعی طور پر انتخابات پُرامن ماحول میں منعقد ہوئے جس کے لیے پاک فوج‘ ایف سی‘ رینجرز اور پولیس کی خدمات قابلِ داد ہیں۔ دورانِ ڈیوٹی ایک افسوسناک حادثے میں چار فوجی جوان ہلاک ہو گئے۔
بیروزگاری‘ غربت‘ بنیادی سہولتوں کا فقدان‘ ترقی اور خوشحالی کے مواقع کی قلت؛ یہ چیلنجز ایسے ہیں کہ سنجیدگی اور دور اندیشی کی سوچ رکھنے والی حکومت کی توجہ کہیں اور جانے ہی نہیں دیتے؛ چنانچہ آزاد جموں وکشمیر کی نومنتخب قیادت کو یہ ثابت کرنا ہوگا کہ وہ اپنے علاقے کے حقیقی مسائل کا ادراک رکھتی ہے اور ان کے حل اور عوام کو خوشحال بنانے میں سنجیدہ ہے۔ آزاد جموں و کشمیر کی اہمیت پاکستان کے لیے ایک علاقے سے کہیں بڑھ کر ہے لہٰذا تمام سیاسی جماعتوں کو اب اپنی اپنی حیثیت میں کشمیری عوام کی فلاح و بہبود پر توجہ دینی چاہیے۔ انتخابی مہم کے دوران سیاسی جماعتوں نے رائے دہندگان کی حمایت حاصل کرنے کیلئے تمام حربے استعمال کیے‘ تنائو کو بڑھاوا دیا اور روایتی الزام تراشی سے کام لیا مگر کشمیر کی آزادی، بھارت سے مقبوضہ علاقے سے کر فیو اٹھانے کی بات کسی نے نہیں کی۔ سیاسی قائدین کے نامناسب اور غیر سنجیدہ بیانات سے پاکستان کے کشمیر کاز کو بین الاقوامی سطح پر نقصان پہنچنے کا احتمال ہے۔ دوسری جانب انتہائی ذمہ دار منصب پر فائز وزیراعظم پاکستان عمران خان کے اس بیان نے حیرت میں ڈال یا کہ ہم آزاد کشمیر میں دو ریفرنڈم کرائیں گے‘ ایک ریفرنڈم میں کشمیریوں سے پوچھا جائے گا کہ وہ پاکستان کے ساتھ الحاق کرنا چاہتے ہیں یا بھارت کے ساتھ؟ اگر کشمیریوں کا فیصلہ اس ریفرنڈم میں پاکستان کے ساتھ الحاق کے حق میں آیا تو پھر انہیں دوسرے ریفرنڈم کی آزمائش میں ڈالا جائے گا کہ وہ پاکستان کے ساتھ رہنا چاہتے ہیں یا آزاد ریاست تشکیل دینا چاہتے ہیں۔ وزیر اعظم نے ایک ایسی بات کردی جس سے پاکستان کے ساتھ الحاق کی تمنا میں بے مثال جانی اور مالی قربانیاں دینے والے کشمیری عوام کا جدوجہد آزادی کا سارا سفر رائیگاں جائے گا ۔ بالخصوص بلوچستان میں شرپسندوں کو بھی موقع مل سکتا ہے کہ وہ اس ریفرنڈم سے اپنی مرضی کے معنے اخذ کریں۔ وزیراعظم کی یہ تجویز ویسے بھی ناقابلِ عمل ہے کہ کشمیریوں کے حق خودارادیت سے متعلق اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی 21 اپریل 1948ء کی قرارداد نمبر 47 میں کشمیریوں کو پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق سے ہٹ کر کوئی تیسری آپشن دی ہی نہیں گئی جبکہ سلامتی کونسل کی اس قرارداد کی روح کے مطابق استصواب کا اہتمام مقبوضہ کشمیر میں ہی ہونا ہے جس کے انتظامات پاکستان نے نہیں بلکہ بھارت نے کرنے ہیں۔
بلاشبہ خطے کی حساسیت کے تناظر میں آزاد کشمیر کے انتخابی عمل و نتائج کے پاک بھارت تعلقات سمیت خطے اور مشرق وسطیٰ کے وسیع تر جیو پولیٹکل سیاق وسباق میں بڑے گہرے اور دور رس اثرات و مضمرات ہو سکتے ہیں۔ افغانستان سے نکلنے کے بعد مایوس دشمن کسی بھی وقت عیاری، سازش اور گمراہ کن پروپیگنڈے سے ملکی سالمیت کو نقصان پہنچا سکتا ہے، ہمیں ہمہ وقت مستعد و چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ چند روز قبل بھارت کی جانب سے خصوصی طیاروں کے ذریعے افغانستان میں اسلحہ پہنچایا گیا۔ یہ ایک واضح ثبوت ہے کہ غیرملکی افواج کے انخلا کے بعد بھارت افغانوں میں انتشار پھیلانے کی پوری کوشش میں ہے۔بھارت نے امریکا کی مدد اور اشیرباد سے افغانستان کی سرزمین کو ہائبرڈ جنگ میں پاکستان کے خلاف جی بھر کر استعال کیا۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں را کے ایجنٹوں کے ذریعے تخریب کاری اور خون ریزی میں ملوث رہا۔ اب بھارت افغانستان میں سابقہ پوزیشن کی بحالی چاہتا ہے تاکہ پاکستان میں عدم استحکام کے لیے ماضی کی شرانگیزی کو جاری رکھ سکے لہٰذابھارت افغانستان میں بگڑتے ہوئے حالات کا بھرپور فائدہ اٹھا رہا ہے کیونکہ اس کے خفیہ اداروں سمیت کئی امن دشمن عناصرخطے میں تخریب کاری میں مصروفِ عمل ہیں‘ حالیہ دنوں میں ہونے والے کئی واقعات اس کے مذموم عزائم کو سامنے لاچکے ہیں۔
بھارت کو یہ بھی خطرہ ہے کہ افغانستان میں طالبان کے مضبوط ہونے کے اثرات کشمیری حریت پسندوں پر بھی ہوں گے اور مزاحمتی تحریک میں مزید تیزی آ سکتی ہے۔ اس میں کوئی شک و شبہے کی گنجائش نہیں کہ بھارت سمیت ملک دشمن عناصرکی یہ خواہش ہے کہ پاکستان پر فیٹف کی تلوار لٹکتی رہے جبکہ بھارتی وزیر خارجہ جے شنکرکاڈھٹائی پر مبنی اعتراف کے بعد سے ایف اے ٹی ایف کی غیر جانبداری کا بھرم چاک ہو چکا ہے اور یہ ثابت ہو چکا ہے کہ بھارتی سازشوں اور ایجنڈے کے تحت ہی پاکستان کو گرے لسٹ میں رکھا گیا ہے۔ امریکا کو چاہئے تھا کہ افغانستان میں بگڑتے ہوئے حالات کو کنٹرول کرنے اور ''امن عمل‘‘ کی تکمیل کیلئے پاکستان کا بھرپور ساتھ دیتا لیکن ایسا نہ ہونے سے اب پورے خطے کا امن و استحکام دائو پر لگ چکا ہے جو افسوسناک امر ہے۔ بین الاقوامی برادری اور اقوام متحدہ سمیت مختلف عالمی ادارے بھی اس نازک صورتحال میں وہ کردار ادا نہیں کررہے جو انہیں کرنا چاہئے۔ دنیا بھر کے ممالک کو کشمیر میں بڑھتی ہوئی محرومیوں پر تشویش تو ہے لیکن اس مسئلے کے حل کیلئے آ ج تک کوئی مؤثر کردار ادا نہیں کیا جا سکا۔ اقوام عالم نے مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں ہمیشہ سرد مہری کا مظاہرہ کیا ہے۔ اقوام متحدہ‘ جو دنیا بھر میں انسانی حقوق کی بحالی کاسب سے بڑا دعویدار ہے‘ کشمیر کی خون آلود جھیلوں، جلتے چناروں، بلکتے بچوں، چیختی عورتوں، گمنام قبروں، نعشوں سے بھری گلیوں اور سنسان و ویران بازاروں کو دیکھنے سے کیوں قاصر ہے؟ بھارت کے جارحانہ عزائم حقیقت میں پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبے کو سبوتاژ کرنے کیلئے ہیں کیونکہ ''بنیے‘‘ کو ہمالیہ کے پہاڑوں سے بلند پاک چین دوستی ہضم نہیں ہورہی۔
بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ جنوبی ایشیا کے ممالک کو گہرے روابط اور باہمی مفادات کے ذریعے منسلک کر رہے ہیں، نیپال سے لے کر بنگلہ دیش تک‘ سب ممالک بھارت کے اثرورسوخ سے جان چھڑا رہے ہیں۔ عملی اور اصولی طور پر افغانستان بھارت کے ہاتھ سے نکل چکا ہے‘ ان حالات میں شکست خوردہ بھارت سے زیادہ چوکنا رہنے کی ضرورت ہے۔ ایل او سی پر جارحیت اور بلوچستان اور فاٹا میں دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہونے کے مقاصد، چین اور افغانستان کے ساتھ پاکستان کے دوستانہ اور برادرانہ تعلقات کو نقصان پہنچانے کی سازش ہیں۔ پھر بلاتاخیر پاکستان پر ہائبرڈ وار کا حملہ افغان حکومت کے کندھے پر بندوق رکھ کر کیا گیا جس میں اس کے سفیر کی بیٹی کے اغوا کا ڈرامہ رچایا گیا۔ پاکستان اور بھارت کے تعلقات ہمیشہ سے ہی مسئلہ کشمیر کے حل سے مشروط رہے ہیں لہٰذا یہ ایک اٹل حقیقت ہے کہ جب تک مودی انتظامیہ مقبوضہ کشمیر کے مسئلے کو پُرامن طریقے سے منصفانہ طور پر حل نہیں کرے گی‘ تعلقات میں بہتری نہیں آئے گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں