تقسیمِ برصغیر کے وقت وحشت و بر بریت کا ایسا خونیں کھیل کھیلا گیاکہ کوئی بھی خاندان محفو ظ نہ رہا، لاکھوں خواتین کے سہاگ اجڑ گئے، مال و متاع چھین کر عصمتیں تار تار کر دی گئیں، جوانوں کے سینے برچھیوں سے چھلنی کر دیے گئے، معصوم بچوں کو نوکِ سناں پر اچھالا گیا۔ آگ و خون کے اس دریا کوعبور کرکے سب کچھ چھن جانے کے باوجود بالآخر مسلمانوں نے14اگست 1947ء کو قائداعظمؒ کی ولولہ انگیز قیادت میں آزادی کی دولت حاصل کر لی۔ قیامِ پاکستان کا مطالبہ اصولی طور پر دو قومی نظریے کی بنیاد پر ہی کیا گیاجو تحریکِ آزادی کی بنیاد تھا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ علامہ اقبالؒ کے افکار و نظریات اور بابائے قوم محمد علی جناحؒ کے فرمودات سے ہمیں رہنمائی ملی۔ اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ آج ہم آزاد فضا میں سانس لے رہے ہیں اور یہ سب ہمارے اسلاف کی قربانیوں کا ہی ثمر ہے۔ یومِ آزادی کا سبق اور پیغام یہی ہے کہ نوجوان قائداعظم کی اساسی تعلیمات اور آزادی کی روح کے مطابق پاکستان کی تشکیلِ نو کی جدوجہد کا آغاز کریں اور پوری قوم اپنے گروہی، فرقہ وارانہ، جماعتی اور لسانی اختلافات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ملکی تعمیر وترقی کیلئے متحد ہو جائے۔ وطن سے محبت اور لگاؤ کا تقاضا یہی ہے کہ ہر شہری اس کا پاسبان، محافظ اور سچا سپاہی ہو۔ قائداعظم کی رحلت کے بعد اسلاف کی قربانیوں اور آزادی کی روح کویکسر فراموش کردیا گیا جس کا خمیازہ آج پوری قوم بھگت رہی ہے۔ صرف25برس بعد ہی باہمی چپقلشوں اور ذاتی مفادات کی وجہ سے سقوطِ ڈھاکہ کا سانحہ پیش آگیا اور ہم نے آدھا ملک گنوا دیا۔ فی الحقیقت اگر دو قومی نظریے کے مطابق پاکستان نہ بنتا تو جس طرح بھارت کے اندر کروڑوں مسلمان شودروں سے بھی بد تر زندگی بسر کر رہے ہیں‘ وہاں مسجدوں کی جگہ مندر تعمیر ہو رہے ہیں‘ انتہا پسند ہندو آئے روز فسادات میں نہتے مسلمانوں کا قتل عام کر رہے ہیں اور مسلم نسل کشی کے دوران بھارتی پولیس تماشائی بنی رہتی ہے‘ ہمارا بھی بھارت میں موجود مسلمانوں جیسا ہی حشر ہوتا۔ ہماری بدقسمتی تویہ رہی کہ ہم نے اسلام کے نام پر ملک بنانے کے باوجود اس میں اسلامی جمہوری نظام رائج کرنے کے بجائے مغربی جمہوری نظام نافذ کیا، مختلف ادوار میں مختلف تجربات کیے جس میں پارلیمانی اور صدارتی نظامِ حکومت شامل ہیں۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ نے 15 جولائی 1948 ء کو سٹیٹ بینک آف پاکستان کے افتتاح کے موقع پر فرمایا تھا ''اگر ہم نے مغرب کا معاشی نظریہ اور نظام اختیار کیا تو عوام کی پُرسکون خوشحالی حاصل کرنے کے اپنے نصب العین میں ہمیں کوئی مدد نہ ملے گی، ہمیں دنیا کے سامنے ایک مثالی معاشی نظام پیش کرنا ہے جو انسانی مساوات اور معاشرتی انصاف کے سچے اسلامی تصورات پر قائم ہو‘‘۔ افسوس یومِ آزادی آج ایسے عالم میں منایا جا رہا ہے کہ نہ صرف اس کی منزل متعین کرنے والی قراردادِ مقاصد پر عملدرآمد کے حوالے سے ذہنوں میں ابہام ہیں بلکہ تقسیمِ ہند کا اصل ایجنڈا‘ کشمیر کے بغیر تشنۂ تکمیل ہے۔
5 اگست 2019ء کا سورج گزشتہ 73 برسوں سے بندوقوں کے سائے میں زندگی گزار رہے مظلوم کشمیریوں کیلئے نئی کلفتیں‘ نئے عذاب‘ نئی پابندیاں اور نئے مسائل لے کر طلوع ہواتھا۔ یہی وہ سیاہ دن تھا جب فسطائی مودی حکومت نے شب خون مارتے ہوئے بھارتی آئین کے آرٹیکل 370 اور 35 اے کو یکطرفہ طور پر منسوخ کرنے کا اعلان کرکے کشمیر کا استثنائی ریاستی درجہ ختم کر دیا تھا جن کے تحت مقبوضہ کشمیر میں زمین اور دوسری غیر منقولہ جائیداد خریدنے، سرکاری نوکریوں اور وظائف، ریاستی اسمبلی کے لیے ووٹ ڈالنے اور دوسری مراعات کا قانونی حق صرف اور صرف وہاں کے مستقل باشندوں کو حاصل تھا۔ ان آرٹیکلز کی معطلی سے مقبوضہ کشمیر کے عوام مذکورہ بالا تمام حقوق سے محروم ہو چکے ہیں۔ مودی سرکار نے کشمیریوں کی مزاحمت روکنے کیلئے پانچ اگست ہی کو مقبوضہ وادی میں مزید دو لاکھ بھارتی فوجی بھجوا کر اسے عملاً محصور کرلیا اور باہر کی دنیا سے ان کے رابطے منقطع کردیے، ان کا روزگار اور کاروبار چھن گیا‘ بچوں کا تعلیمی اداروں میں جانا ناممکن ہوگیا اور مریضوں کو ہسپتال لے جانا اور ان کیلئے ادویات تک خریدنا ناممکنات میں شامل ہوگیا؛ تاہم اس خوف و جبر کے ماحول میں بھی کشمیریوں نے ہمت نہیں ہاری۔ اس وقت فسطائی مودی سرکار خطے میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں بدلنے کے مذموم منصوبے پر عمل پیرا ہے جس کیلئے دوسری ریاستوں سے لا کر ہندوئوں کو مقبوضہ کشمیر میں آباد کیا جا رہا ہے۔
بانیٔ پاکستان قائد اعظم نے کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا، دشمن نے ہماری شہ رگ پر حملہ کر ہماری غیرت کو لیکن ہم ہیں کہ ایک منٹ کی خاموشی‘ احتجاج سے آگے نہ بڑھ سکے۔ آخر کس لیے ٹرمپ کی کشمیر ایشو پر ثالثی کی پیشکش پر خوشی کے شادیانے بجائے گئے؟ کیا ہم یہ سمجھتے ہیں کہ بیرونی دنیا ہماری مدد کرے گی؟ اگر ہم سمجھتے ہیں کہ عالمی طاقتیں اس مسئلے پر پاکستان کی موقف کی حمایت کریں گی تو ہم بہت بڑی خوش فہمی کا شکار ہیں۔ دنیا کو کشمیر کے حوالے سے ہم نے کیا پیغام دیا؟ نہ تو بھارتی سفیر نکالا گیا اور نہ ہی سفارتی بائیکاٹ ہوا۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مسئلہ کشمیر کا یواین کی قراردادوں کے مطابق حل ہی اس خطے اور اقوام عالم کے امن کی ضمانت ہے۔ اس وقت ضرورت عالمی برادری کی جانب سے عملی اقدامات کے تحت اور ٹھوس بنیادوں پر بھارتی مظالم روکنے اور اس کے توسیع پسندانہ عزائم کے آگے مستقل طور پر بند باندھنے کی ہے جس کیلئے عالمی قیادتوں اور نمائندہ عالمی اداروں کو مصلحت پسندی اور مفاہمت کے لبادے اتارنا ہوں گے اور مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے سلامتی کونسل کی 21 اپریل 1948ء کی قرارداد پر ا س کی روح کے مطابق عملدرآمد کرانا ہوگا، بصورتِ دیگر علاقائی امن و استحکام کا خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہو پائے گا۔
دوسری جانب بھارت نے ایک ماہ کیلئے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی صدارت سنبھال لی ہے۔ انگریزی حروف تہجی کے لحاظ سے ہر رکن ملک ایک ماہ کیلئے سلامتی کونسل کی صدارت کی ذمہ داریاں سنبھالتا ہے جبکہ مقبوضہ کشمیر میں پون صدی سے جاری بھارتی آگ وخون کے کھیل سے اقوام متحدہ بھی پوری طرح باخبر ہے، یو این او کی مقبوضہ کشمیر میں استصوابِ رائے کی قراردادوں کا بھارت نے کس طرح مذاق اڑایا، مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کرکے مسلسل بدترین کرفیو نافذ کر رکھا ہے۔ ایسی صورتحال میں کون کہے گا کہ کشمیریوں کی نسل کشی کا مرتکب بھارت مسئلہ کشمیر پر سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل یقینی بنائے گا؟پاکستان نے شروع دن سے مسئلہ کشمیر پر اصولی موقف اختیار کیا ہے کہ سلامتی کونسل کے طے کردہ کشمیریوں کے استصواب کے حق کے ذریعے ہی مسئلہ کشمیر کا آبرومندانہ‘ مستقل اور پائیدار حل نکالا جائے مگر موجودہ گمبھیر صورتحال میں وزیر اعظم عمران خان کے آزاد کشمیر میں دوریفرنڈم کروانے کے عندیے نے ابہام پیداکر دیا ہے ۔لمحۂ فکریہ تو یہ ہے کہ بھارت کی طرف سے کشمیر کی خصوصی حیثیت کے خاتمے کے دو سال بعد آزاد کشمیر کو صوبے کا درجہ دینے کی دبی ہوئی چنگاری کو پھر سے ہوا دی جا رہی ہے۔ گلگت بلتستان کو صوبائی درجہ دینے کیلئے 26ویں آئینی ترمیم کے بل کا مسودہ وزیراعظم کو پیش کرکے اس کی قومی اسمبلی سے منظوری کیلئے لابنگ جاری ہے۔ '' قراردادِ الحاقِ پاکستان‘‘ کے تحت دفاع، خارجہ پالیسی، مواصلات وغیرہ کے علاوہ باقی تمام امور‘ کشمیر اسمبلی کو حاصل ہوں گے‘ اسے پاکستان کاصوبہ بنانا ہر گز ہمارے مفاد میں نہیں۔ افسوسناک امر تو یہ ہے 5 اگست 2019 ء کے بعد سے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، بہیمانہ جبر و استبداد میں اضافے پر سلامتی کونسل میں کئی مرتبہ مسئلۂ مقبوضہ جموں و کشمیر زیرغور آچکا ہے۔ بین الاقوامی برادری کی طرف سے تشویش کا اظہار بھی کئی بار کیا گیا، اقوام متحدہ کے ہائی کمیشن کی2 رپورٹس میں آزاد کمیشن کے ذریعے بھارتی زیرِ قبضہ علاقوں میں انسانی حقوق کی سنگین اور منظم خلاف ورزیوں کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا۔ دنیا بھر کے ایوانوں میں مقبوضہ جموں و کشمیر کے مسئلے پر بحث ہوئی، انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اور بین الاقوامی میڈیا بھی مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالیوں کو بے نقاب کر رہا ہے لیکن تاحال ان سنگین خلاف ورزیوں کا کوئی سدباب نہیں کیا گیا۔