15اگست 2015ء و ہ دن تھا جب جنرل حمید گل ہم سے بچھڑ گئے۔ آج ان کو ہم سے دور گئے چھ برس بیت گئے ہیں ‘ان کے بغیر ایک ایک پل ایک ایک لمحہ صدیوں سے بھی بھاری لگتا ہے ۔مجھے یاد ہے جب گھر سے یہ دل سوزخبر موصول ہوئی کہ میرے والد اب اس دنیا میں نہیں رہے تو مجھے ایسے لگا جیسے میرے جسم سے روح کھینچ لی گئی ہو ۔ میں کس طرح بھول جائوں اس عظیم ہستی کو جس کی میں انگلی پکڑ کر گردش ِایام ‘تلخیٔ وقت اور دنیا کی تلاطم خیز موجوں سے بے خوف وخطر ٹکرا جاتا تھا۔میں سو چتا تھاکہ اب کون مجھے صبح آواز دے کر کہے گا کہ عبداللہ اٹھو نماز کا وقت ہو گیا ہے۔یہ باتیں باز گشت بن کر دشت زیست میں گونج رہی تھیں ۔ میرا دماغ بچپن کی یادوں میں کھو چکا تھا ۔ میری نظریں گزرے ہوئے سالوں کو دیکھنے لگیں اور مجھے یاد آتا ہے کہ جب افغان جہاد کے دوران میں پہاڑوں پر چڑھ کر تھک جاتا تو ابو مجھے آواز دیتے کہ عبداللہ تم تھک نہیں سکتے ۔ ہر نماز کے بعد مجھ سے دعا کرواتے کہ اللہ مجھے شہادت کے منصب پر فائز کرے۔بروز قیامت میں پیارے نبی ﷺ کے جرنیلوں میں کھڑا ہوں اور تمہارا سر فخر سے بلند ہو کہ تمہارا باپ اللہ کا سپاہی ‘ اسلام کا شیدائی‘ محمد ﷺ کا غلام اور وطن کا جانثار ہے ۔بے شک جنرل صاحب امت مسلمہ کے سپاہی ‘ اسلام کے آفاقی پیغام کے امین اور پاکستان کی جغرافیائی و نظریاتی سرحدوں کے پاسبان تھے۔ ان کی وفات پر کہا گیاکہ دنیا کے پانچ بڑے دماغوں سے ایک دماغ چلا گیا۔وسطی ایشیائی ریاستوں میں ان کی غائبانہ نماز ِجنازہ ادا کی گئی۔بیرون ملک سے کئی روز تک تعزیتی پیغامات کا سلسلہ جاری رہا ۔قومی پر چم کے سائے تلے ان کا آخری سفر طے ہوا۔
جنرل حمید گل مر کر بھی امر ہو چکے ہیں ‘وہ ابھی تک اپنی قوم کے دلوں میں زندہ ہیں وہ پاکستان میں اسلامی نظام کا نفاذ چاہتے تھے اورساری عمر اپنے اصولوں کے تحت گزاری اور انہی اصولوں کی پاسداری میں ہمیشہ وقت کے سلطانوں کے سامنے جھکنے سے انکاری رہے ۔آپ کے تجزیے کا کوئی بھی جملہ بے وزن نہیں ہوتا تھا یہی وجہ ہے کہ ان کی رحلت کے چھ سال بعد بھی سوشل میڈیا پر ان کے نظریات کا چرچا ہے‘ جس کا مطلب یہی ہے کہ ان کا نظریہ ‘ ڈاکٹرائن آج بھی سلامت ہے ۔کون جانتا تھا کہ سرگودھا کے ایک غریب گھرانے کے ایک کچے کمرے میں پیدا ہونے والا یہ بچہ اس خاص مقصد کیلئے اس دنیا میں آیا ہے کہ بڑی طاقتوں کا غرور خاک میں ملا دے ۔غازی جنرل حمید گل پاکستان کی تاریخ کا ایسا درخشاں ستارہ ہیں جنہیں اس ملک کی عسکری اور سیاسی قیادت لاکھ مخالفتوں کے باوجود بھی فراموش نہ کرسکے گی۔1979ء میں روس نے چڑھائی کی تو آپ نے افغان جنگ کی قیادت سنبھالی اور روس کو دم دبا کر بھاگنے پر مجبور کر دیا۔جنرل حمید گل نے بہترین منصوبہ بندی کے ذریعے روسی فوج کو شکست دے کردنیا کی عسکری تاریخ میں نئے باب کا اضافہ کیا اور ساتھ ہی ساتھ مسلمانوں کی چھ اسلامی ریاستیں قازقستان‘ ترکمانستان ‘کرغزستان ‘ازبکستان ‘آزربائیجان اور تاجکستان کی شکل میں آزاد کراکے دنیا کے نقشے پر نئے مسلم ملکوں کو وجود بخشنے میں اہم کردار ادا کیا ۔
امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادی50 سے زائد ممالک بھی افغانستان میں جہاد ہی کی برکت سے پسپا ہوچکے ہیں۔کاش آج جنرل حمید گل زندہ ہوتے تو دیکھتے کہ ان کی کہی ہوئی ہر بات سو فیصد سچ ثابت ہو چکی ہے اور ہورہی ہے۔ آپ ہمیشہ پاکستانی قوم کو الرٹ کرتے ہوئے کہا کرتے تھے کہ افغانستان پر روسی حملے میں افغانستان بہانہ اور پاکستان ٹھکانہ ہے‘ اسی طرح امریکہ کے بارے میں بھی یہی کہتے تھے کہ نائن الیون بہانہ افغانستان ٹھکانہ اور پاکستان نشانہ ہے ۔ بلا شبہ افغان جنگ کے دوران ان کی اختیار کی گئی جنگی حکمت عملیاں آج دنیا بھر کے عسکری اداروں میں پڑھائی جاتی ہیں۔ اس میں دو رائے نہیں کہ ان کا نام ہمیشہ اسلام کے عظیم جرنیلوں میں لیا جاتارہے گا۔ جنرل صاحب کی افغان جہاد میں دلچسپی اور ان کی وا لہانہ عقیدت کا ثبوت ہے کہ وہ افغان جہاد کی اضافی ذمہ داریوں کے عوض دیے جانے والے الائونس بھی جہاد فنڈ میں جمع کروا دیتے تھے۔ آپ کو نہ صرف افغان مجاہدین بلکہ وسطی ایشیا کے مسلمان بھی اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں ۔
اس میں دو رائے نہیں کہ افواج پاکستان میں جو خاص شہرت جنرل حمید گل کے حصے میں آئی ہے وہ بہت کم لوگوں کو ملتی ہے اور اس کی وجہ جہاد تھا ۔جنرل حمید گل نظریۂ پاکستان اور پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام کے بڑے حامی تھے ۔وہ نظریۂ پاکستان کے دفاع میں سیسہ پلائی دیوار بن جایا کرتے تھے۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ ان کوپاکستان سے انتہا درجے کا عشق تھا ان کا یہ بھی غیر متزلزل یقین تھا کہ پاکستا ن عالم اسلام کی قیادت کرنے کی مکمل اہلیت رکھتا ہے۔ ان کی سپاہیانہ صلاحیتوں اور عسکری دانشمندی اور ان کی فوجی حکمت عملی نے دنیا کو محوِ حیرت کردیا تھا۔وہ عسکری دنیا میں ایک اہم نام اور دنیائے انٹیلی جنس میں افسانوی شہرت کے حامل تھے جس کو تاریخ کبھی فراموش نہ کرسکے گی۔ جنرل حمید گل دنیائے اسلا م کی عسکری قوت اور اسلام کے ایسا نڈر سپاہی تھے کہ جس کی مثال بڑی مشکل سے تلاش کی جاسکے گی ۔وہ محض گفتار کے ہی نہیں کردار کے بھی غازی تھے۔جنرل حمید گل کم عمر ترین میجرجنرل بنے۔ صرف دو برس تک آئی ایس آئی کے سر براہ رہے لیکن اتنے کم عرصے میں انہوں نے فوج کا مورال بلند کیا۔1989ء میں کشمیر کی تحریک آزادی کو دوبارہ زندہ کیا ۔ بھارت سیون سسٹرز کی علیحدگی کی تحریکوں کا ذمہ دار بھی جنرل صاحب کو ہی ٹھہراتا ہے ۔ راء اور انڈین ملٹری انٹیلی جنس نے جنرل حمید گل کو ہمیشہ حاضر سروس جرنیل سمجھا ۔بھارت ‘اسرئیل اور امریکہ کیلئے آپ انتہائی سخت جذبات رکھتے تھے ۔بھارتی دارالحکومت دہلی میں موجود صحافی سوشانت سنگھ نے اپنے تجزیے میں لکھا تھا کہ حمید گل نے اپنے دور میں خالصتان تحریک کو اس مہارت سے اٹھایا تھا کہ بھارتی حکومت کی چیخیں نکل گئیں ۔بھارتی صحافی گوتم شرما لکھتا ہے کہ حمیدگل انتہائی نڈر آدمی تھے جنہوں نے بھارت کے ساتھ ساتھ امریکا کی مخالفت بھی مول لی لیکن اپنے موقف سے پیچھے نہیں ہٹے ۔ بھارتی انٹیلی جنس اور افواج کی پلاننگ کو جس قدر جنرل حمید گل نے نقصان پہنچایا اتنا نقصان کسی اور نے نہیں پہنچایا ۔
جنرل حمید گل کاکشمیر کے بارے میں بھی واضح موقف تھا کہ'' کشمیر بنے گا پاکستان ‘‘نہیں بلکہ ''کشمیر پاکستان ہے‘‘ اور کشمیر کے بغیر پاکستان نامکمل ہے ۔ آپ نے ہمیشہ کشمیریوں کی وکالت کی اور کشمیری آپ کو مسیحا مانتے تھے اور اب بھی مانتے ہیں۔جنرل حمید گل کی سربراہی میں پاکستانی تاریخ کی سب سے بڑی جنگی مشقوں'' ضرب مومن‘‘ کا آغاز ہوا جس کی کامیابی کا سہرا بھی آپ ہی کے سر جاتا ہے۔ وہ زندگی کی آخری سانس تک نظریہ پاکستان کے موقف پر قائم رہے ۔ اسرائیل کے حوالے سے بھی ان کی پالیسی اور موقف بڑا واضح اور دوٹوک تھا ۔جنرل مشرف نے نائن الیون کے بعد امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیکے تو حمید گل جیسے بہادرسے یہ برداشت نہ ہوا ۔ انہیں جنرل مشرف کی پالیسیوں کے خلاف احتجاج کرنے پر جیل میں ڈال دیا گیا ۔ ہمارے خاندان کا رابطہ منقطع کر دیا گیا ‘ہمارے گھر کو ہی سب جیل بنا دیا گیا تھا ۔ جنرل صاحب نے ملک و قوم کی خاطر جیل جانا بھی قبول کر لیا لیکن کسی کے سامنے جھکے نہیں ۔جنرل حمید گل ہمیشہ یہ الفاظ ببانگ دہل کہا کرتے تھے کہ ایک مومن کے لیے سپر پاور صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور میں اللہ کے سوا کسی کو سپرپاور نہیں مانتا۔ انہوں نے اپنے قول و فعل سے یہ ثابت بھی کیا۔اسلام اور پاکستان سے محبت ان کا وہ اثاثہ تھا جسے وہ کسی صورت گنوانے کیلئے تیار نہ تھے اور فوج سے ریٹائرڈ ہونے کے باوجود برملا اس امر کا اظہار کرتے تھے کہ انہوں نے حلف پاکستان کی حفاظت کا اٹھا رکھا ہے نہ کہ نوکری کا ‘ایک فوجی خواہ وہ حاضر سروس ہو یاریٹائرڈ ملک وقوم کی حفاظت کیلئے سربکف رہتا ہے ۔وہ زندگی کی آخری سانس تک نظریہ ٔپاکستان کے موقف پر قائم رہے ۔جنرل حمید گل کانام آج بھی دشمنوں کے دلوں میں ہیبت اور لرزہ طاری کردیتا ہے ۔