قومی تعمیر و ترقی میں طلبہ تنظیموں کا کردار

12 جنوری 2002ء کو ''مسلم سٹوڈنٹس آرگنائزیشن‘‘ کی داغ بیل ڈالی گئی تھی۔ میرے نزدیک یہ تنظیم نہیں طلبہ کی ایک عملی تحریک ہے جس نے سکول، کالج اور یونیورسٹیز کے طلبہ کو اسلام کے آفاقی پیغام سے روشناس کرانے کے ساتھ دینی مدارس کے طلبہ کو بھی اپنی ذمہ داریوں کا احساس دلایا۔ ایسے حالات میں جب وطن عزیز کے تعلیمی اداروں میں کئی طرح کے طبقاتی نظام تعلیم نافذ العمل ہیں اور غریب، امیر، شہری، دیہی پس منظر کو پیشِ نظررکھ کر تعلیمی پالیسیاں ترتیب دی جارہی ہیں، تحریک پاکستان کے لاکھوں شہدا اور غازیوں کی قربانیاں پس پشت ڈال کر وطن عزیز میں سیکولر ازم کی راہیں ہموار کی جارہی ہیں؛ اس تناظر میں پاکستانی طلبہ کی اس تنظیم کا وجود کسی طور پر بھی نعمت خداوندی سے کم نہیں۔ یہ تنظیم پاکستان وطن عزیز کے طول وعرض میں پھیلے کالجز و یونیورسٹیز اور دینی مدارس وجامعات میں بھرپور وجود رکھتی ہے، جبکہ دینی مدارس اور انگریزی سکولوں کی تفریق کو ختم کرکے طلبہ کو ایک پلیٹ فارم پر لانااس کا ایک عظیم کارنامہ ہے۔ گزشتہ دنوں وفاقی دارالحکومت میں اس تنظیم کے زیرِ اہتمام منعقدہ تاریخ ساز 'آل پاکستان طلبہ اجتماع‘ میں شریک ہونے کا شرف حاصل ہوا، وہاں مجھ پر یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ دو دہائیوں قبل جلایا گیا معمولی سا چراغ آج ایک ' 'مینارۂ نور‘‘ کی حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ ان شا ء اللہ 22 مارچ 2013ء کی طرح آرگنائزیشن کا پاکستان کا دوسرا عظیم الشان علمی، فکری، نظریاتی اور اصلاحی ''آل پاکستان طلبہ اجتماع‘‘ ایک سنگِ میل ثابت ہوگا۔ واضح رہے کہ 22 مارچ 2013ء میں کامیاب 'آل پاکستان طلبہ اجتماع‘ میں والد محترم جنرل (ر) حمید گل سمیت قومی و بین لاقوامی شخصیات نے شرکت کی تھی اور جنرل (ر) حمید گل نے تاریخی الفاظ فرمائے تھے کہ ''میں نے نوجوانوں کا بڑا اجتماع اس ہال میں اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھا‘‘۔
بلاشبہ نوجوان نسل کا ملکی ترقی کے لیے متحد ہونا اوریکجہتی اختیار کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے، ملکی تعمیر و ترقی، مستقبل کے معماروں، نوجوانانِ ملت کی فکری و نظریاتی تربیت کیلئے د ینی وعصری تعلیم کے حامل نوجوانوں کا یہ عالی شان اجتماع اور اتحاد و یکجہتی کا مظاہرہ صرف اسی کا خاصہ ہے، اتنے منظم انداز میں ہر صوبے اور ہر علاقے کی مؤثر نمائندگی بھی قابلِ تحسین ہے۔ میں برملا کہتا ہوں کہ ایسا سیمینار کوئی بھی پرائیویٹ یا سرکاری تنظیم منعقد نہیں کر سکتی۔ میری رائے ہے کہ ایسی طلبہ تنظیم کو سیاست میں وارد ہو نا چاہئے جس نے استحکامِ پاکستان‘ غلبۂ اسلام‘ دوقومی نظریے کیلئے خود کو وقف کر رکھا ہو۔ ایسے ہی نظریاتی سپاہیوں اور جانبازوں کو مسائل کے گرداب میں پھنسی قوم کی قیادت کرنی چاہیے۔ پاکستان عالم اسلام کی واحد ایٹمی طاقت ہے۔ افغانستان میں امریکا، فرانس، برطانیہ اور جرمنی جیسی عالمی طاقتوں کی شکست سے ثابت ہو چکا ہے کہ جیت ہتھیاروں اور جنگی مہارت نہیں جذبۂ ایمانی کی ہوتی ہے۔ میرے والد محترم نے تو اہلِ مغرب کا ایک دفاعی کورس یہ کہہ کر ٹھکرا دیا تھا کہ یہ مجھے کیا حربی تعلیم دیں گے‘ عسکری تعلیم تو مجھے اسلام سے، حضرت محمدﷺ سے اور صحابہ کرام ؓ سے ملی ہے۔ مغرب تو صرف ہتھیار ڈالنا ہی سکھاتا ہے۔
آج ملک کی شاید ہی کوئی ایسی درسگاہ، کوئی کالج یا کوئی یونیورسٹی ہو جہاں پر مذکورہ طلبہ تنظیم کی فکر اور اس کا نظریہ موجود نہ ہو۔ اس نے اسلامی نظام کو رائج کر نے اور طبقاتی و گروہی تعلیمی سسٹم کے خاتمے کیلئے اپنی آواز بڑی مؤثر، توانا اورمربوط انداز سے بلند کی۔ اس کے زیرِ اہتمام ایک ماہوار مجلہ بھی باقاعدگی سے اسلام آباد سے شائع ہو رہا ہے جو کارکنوں کی علمی استعداد اور نظریات کی پختگی کافریضہ بطریق احسن انجام دے رہا ہے، درحقیقت انہی اوصاف کی بنا پر یہ اپنی منزل استحکامِ پاکستان اور غلبۂ اسلام کی جانب رواں دواں ہے۔ یہ واحد طلبہ تنظیم ہے جو اپنا واضح نصب العین اورمنشوررکھتے ہوئے آزاداورخودمختار حیثیت سے نظریاتی جدوجہد پریقین رکھتی ہے، اسی کے پلیٹ فارم سے گستاخانہ خاکوں اور سوشل میڈیا پر آزادیٔ اظہارِ رائے کے نام پر توہین آمیز مواد کے ردعمل میں تحفظِ ناموسِ رسالت کے لیے پُرامن احتجاجی تحریک چلائی گئی۔ کورونا وبا کی وجہ سے لاک ڈائون اور تعلیمی اداروں کی بندش کی وجہ سے طلبہ کو تعلیم کے سلسلے میں درپیش مسائل کو اجاگر کرکے ان کے حل کے لیے مختلف شہروں میں تعلیمی بیٹھک کا اہتمام کرنا اسی تنظیم کا طرۂ امتیاز ہے۔ یہ تنظیم کشمیر، میانمار، شام اورفلسطین کے مظلوم مسلمان بھائیوں سے اظہارِ یکجہتی کرتی بھی نظر آتی ہے۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ طلبہ تنظیموں کے چند منفی پہلوؤں کی اصلاح کی جائے تو طلبہ یونین کی بحالی موجودہ حالات کے لئے فائدہ مند ثابت ہو سکتی ہے۔ طلبہ یونین کسی بھی کالج یا یونیورسٹی کے طلبہ کی نمائندہ ایک سٹوڈنٹ باڈی ہوتی ہے جس کو اس ادارے کے طلبہ اپنے ووٹوں سے منتخب کرتے ہیں۔ طلبہ یونین کے باقاعدہ انتخابات ہوتے ہیں جن میں مختلف طلبہ تنظیمیں اپنے اپنے انتخابی منشور پر حصہ لیتی ہیں۔ انتخابات سے قبل طلبہ تنظیمیں الیکشن مہم چلاتی ہیں جس دوران اپنا پروگرام طلبہ تک پہنچانے اور ان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے میٹنگز اور جلسوں کا انعقاد ہوتا ہے۔ جو پینل زیادہ ووٹ حاصل کرتا ہے وہ ایک سال کے لیے طلبہ کی نمائندہ باڈی کے طور پر کام کرتا ہے، یوں ایک جمہوری عمل کے ذریعے طلبہ اپنے نمائندے خود منتخب کرتے ہیں جو طلبہ کی فلاح و بہبود کے ضامن ہوتے ہیں۔ طلبہ یونین کے منتخب نمائندے طلبہ کو جواب دہ ہوتے ہیں اور کسی بھی فوری مسئلے پر جنرل باڈی کا اجلاس بلا کر‘ جس عام طلبہ کی اکثریت بھی موجود ہو‘ لائحہ عمل اور سٹریٹیجی مرتب کی جاتی ہے۔ طلبہ یونین کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ موروثی سیاست کا خاتمہ ہو جاتا ہے اور ایک عام شخص بھی حکومتی و پالیسی ساز ایوانوں کی راہداریوں تک رسائی حاصل کر لیتا ہے۔ عملی سیاست میں جوان خون داخل ہوگا تو ملک کو تبھی پڑھی لکھی قیادت میسر ہو سکے گی۔ طلبہ تنظیمیں نوجوانوں میں سیاسی شعور اجاگر کرنے، ان کی قائدانہ صلاحیتیں نکھارنے کے ساتھ طلبہ اور انتظامیہ میں بامقصد مکالمے کا باعث بنتی ہیں۔ اس وقت عملاً صورتحال یہ ہے کہ تعلیمی اداروں میں طلبہ سیاست کے نام پر سیاسی جماعتوں کے سیاسی ونگز کام کر رہے ہیں جو اپنی اپنی چودھراہٹ جمانے کے دائو پیچ آزماتے رہتے ہیں۔ آپ کو کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پنجابی، بلوچ، پشتون، سرائیکی، سندھی، پوٹھوہاری اور دیگر حوالوں سے متعدد گروپ کام کرتے نظر آئیں گے مگر افسوس کہ پاکستانی کوئی نظر نہیں آئے گا۔ گویا ہماری درسگاہیں تقسیم در تقسیم ہو چکی ہیں اور ان میں یکجہتی و اتحاد کا فقدان ہے؛ چنانچہ ان پرُآشوب حالات میں طلبہ اجتماع تازہ ہوا کا ایک جھونکا ثابت ہوا ہے جس نے ملک و اسلام دشمنوں کی صفوں میں ہلچل برپا کر دی ہے۔ اس عظیم الشان اجتماع کامقصد قرآن وسنت کی بالادستی، اسلام اور شعائرِ اسلام کا تحفظ، اسلامی تہذیب وتمدن کا فروغ، ملک و ملت کے نظریاتی تشخص کی حفاظت، فرقہ واریت، ناانصافی اور ظلم و استحصال سے پاک اسلامی و فلاحی معاشرے کے قیام، نوجوان نسل میں فکری ارتداد اورفحاشی وعریانی کے بڑھتے ہوئے اثرات کی روک تھام اور حکومت پاکستان کی طرف سے پرائمری تک یکساں نصابِ تعلیم کے فیصلے کے خیر مقدم اور طلبہ وتعلیمی اداروں کے مسائل کو اجاگرکرناتھا۔ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں رہ جاتی کہ ملک دشمن طاقتیں پاکستان کے اسلامی تشخص و شناخت کے درپے ہیں اور اس کے لیے وہ ہمارے نوجوانوں کو اپنا آلہ کار بنانے کی مذموم کوششوں میں مصروفِ عمل ہیں۔ تعلیمی ادراروں میں فرقہ واریت، لسانیت اور صوبائیت کی دبی ہوئی چنگاری کو بھڑکانے کا مذموم منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔ طلبہ سیاست کے نام پر جس طرح کھلم کھلا سیکولر ازم کا پرچار اور ہماری اقدار پر حملہ کیا جا رہا ہے‘وہ لمحۂ فکریہ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں