8 دسمبر کو بھارتی تاریخ کے سب سے بااختیار اور طاقتور سمجھے جانے والے جنرل بپن راوت اپنی اہلیہ اور دیگر 11 فوجی افسران کے ہمراہ تامل ناڈو کے قریب روسی ساختہ ایم آئی17 وی ایچ ہیلی کاپٹر کے حادثے میں ہلاک ہو گئے۔ ابھی تک ان کی پُراسرار موت ایک معمہ بنی ہوئی ہے جس نے بھارت کی وی وی آئی پی سکیورٹی کے حوالے سے بھی کئی سوالات اٹھا دیے ہیں۔ بھارتی فضائیہ کے مطابق حادثے کی تحقیقات جاری ہیں۔یہ ہیلی کاپٹر MI17 سیریز کا روسی چاپر ہے جس کا استعمال ٹرانسپورٹ ہیلی کاپٹر کے طور پر ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں اسے ٹرانسپورٹ سے لے کر فوجی مہمات میں استعمال کیا جاتا ہے۔ بھارت میں وی آئی پی لوگوں کے سفر کیلئے استعمال کیے جانے والے جہازوں اور چاپرز یا ہیلی کاپٹرز کی سیفٹی کیلئے رولز، ڈائریکٹوریٹ آف سول ایوی ایشن (DGCA)طے کرتا ہے۔ ڈی جی سی اے کی گائیڈلائنز کی بنیاد پر ہی ریاست اور مرکزی حکومتیں و دیگر اداروں کی جانب سے وی آئی پی ٹریول کیلئے استعمال میں لائے جانے والے طیاروں اور ہیلی کاپٹروں کے حوالے سے اعلیٰ سکیورٹی کے اصول و ضوابط پر عمل کیا جاتا ہے۔ وی وی آئی پی جہازوں اور ہیلی کاپٹرزکیلئے پائلٹ گروپس اور انجینئروں کیلئے الگ سے ٹریننگ پروگرام مقرر کیے جاتے ہیں۔ ہر فلائٹ سے پہلے پوری طرح سے جہاز یا ہیلی کاپٹر کی جانچ کی جاتی ہے اور یہ یقینی بنایا جاتا ہے کہ جہاز یا ہیلی کاپٹر پوری طرح سے اُڑان کے قابل ہے۔
جس علاقے میں مذکورہ حادثہ ہوا‘ وہ پہاڑی علاقہ ہے جہاں اکثر موسم خراب رہتا ہے۔پائلٹ نے یہ بھی بتایاکہ ہیلی کاپٹر حادثے کی ایک وجہ تکنیکی خرابی ہو سکتی ہے۔ وی وی آئی پی فلائٹ میں ایک سکیپ کیپسول بھی ہوتا ہے‘ حادثے کے وقت اسے استعمال کیوں نہیں کیا گیا؟ وی وی آئی پی ہیلی کاپٹر کے ساتھ بھی ایک ہیلی کاپٹر اڑتا ہے‘ وہ کہاں تھا؟ جنرل بپن راوت کے معاملے میں فی الحال یہی مانا جارہا ہے کہ ان تمام رولز کو نظر انداز کیا گیا۔ 2015ء میں بھی جنرل راوت کے ساتھ ایک حادثہ پیش آیا تھا جس کی تحقیقات کبھی منظر عام پر نہیں لائی گئیں؛ تاہم روسی صدر کے دورے کے اگلے روز ہی روسی ساختہ ہیلی کاپٹر کے گرنے نے کئی شکوک و شبہات کو جنم دیا ہے۔ یہ خدشہ بھی بدستور موجود ہے کہ مودی حکومت اس حادثے سے سیاسی فائدہ اٹھانے کی پوری کو شش کر ے گی۔ نریندرمودی جیسا متعصب اور پاکستان دشمن شخص اپنے سیاسی مفادات اور وقتی فائدے کے لیے کچھ بھی کر سکتا ہے۔پلوامہ سمیت کئی ایسے حملے بھارت میں ہو چکے ہیں جن کے بارے میں بعد میں ثابت ہوا کہ یہ خود کرائے گئے تھے۔ نیز اپنی برتری ثابت کرنے کے لیے تاریخ کا قتل کرنا بھی بھارت میں عام بات ہے۔ ایک بڑی مثال ابھینندن کا واقعہ ہے جسے ایف سولہ گرانے کا جھوٹا پروپیگنڈا کرتے ہوئے اعلیٰ ٰ فوجی ایوارڈ سے نوازا گیا۔
آر ایس ایس نظریات کے حامی جنرل بپن راوت کا شمارمودی کے قریب ترین لوگوں میں ہوتا تھایعنی فوجی وردی میں وہ سنگھ پریوار کے پر چارک تھے۔ مودی کے ہندوتوا ایجنڈے پر عمل پیر اتھے۔ بھارتی فوج میں اپنی چار دہائیوں پر مبنی ملازمت میں بپن راوت بریگیڈیئر کمانڈر، جنرل آفیسر کمانڈنگ اِن چیف سدرن کمانڈ، جنرل سٹاف آفیسر گریڈ ٹو، کرنل ملٹری سیکرٹری اور ڈپٹی ملٹری سیکرٹری کے عہدوں پر بھی فائز رہے۔ اس کے علاوہ جنرل بپن راوت ڈیموکریٹک رپبلک آف کانگو میں اقوام متحدہ کی امن افواج کا حصہ بھی رہے۔ بپن راوت مقبوضہ کشمیر میں راشٹریہ رائفلز کی کمانڈ بھی کرچکے تھے۔بھارت کے بعض اخباروں نے بپن راوت کو ''ماسٹر آف سرجیکل سٹرائیک‘‘ کا خطاب دیا ہے کیونکہ یہ وہی بپن راوت تھا جو پاکستان کو سرجیکل سٹرائیک کی دھمکیاں دیتا رہتا تھا۔
واضح رہے جنرل بپن راوت دسمبر2016ء سے 31 دسمبر 2019 ء تک بھارت کے آرمی چیف بھی رہے۔ا نہیں دو سینئر افسران کو ہٹا کر 27 ویں آرمی چیف کے عہدے پر فائز کیا گیا تھا۔ان کی ریٹائرمنٹ پر وزیراعظم مودی نے انہیں پہلا چیف آف ڈیفنس مقرر کر دیا۔ یہ عہدہ مودی حکومت نے آئین میں ترمیم کر کے 2019 ء میں جنرل راوت کے لیے ہی تخلیق کیا تھا حالانکہ مودی کی جانب سے بھارتی افواج کے اندرونی معاملات میں غیر ضروری مداخلت اور چیف آف ڈیفنس سٹاف کی تقرری کا کسی نے بھی خیر مقدم نہیں کیا۔اسے بی جے پی؍ آر ایس ایس حکومت کا سیاسی اقدام قرار دیا گیا اوراس ناپسندیدہ تقرری سے بھارتی اسٹیبلشمنٹ میں ایک جنگ چھڑی ہوئی تھی۔اس سے پہلے موصوف آخری چیئر مین چیف آف سٹاف کمیٹی رہے‘ بعد میں یہ عہدہ بھی ختم کر دیا گیا تھا۔ جنرل راوت کے لیے اس کی ریٹائرمنٹ کی عمر خصوصی طور پر 62 سے 65 برس کی گئی تھی۔ اس سے قبل وہ وائس چیف آف آرمی بھی رہے اور یہ تمام تقرریاں نریندر مودی کے دورِ اقتدار میں ہی ہوئی تھیں۔
قابلِ ذکر بات تو یہ ہے کہ 47ء سے لے کر 2021ء تک‘ بھارت کی تاریخ میں کوئی فور سٹار جنرل اتنا پاور فل نہیں رہا جتنے بپن راوت تھے۔ افواج، نیوکلیئر اثاثوں سمیت سکیورٹی کے تمام امور انہی کی دسترس میں رہے۔ آنجہانی جنرل کی سربراہی میں ہی بھارت نے رافیل طیاروں کی خریداری کا سودا کیا جس میں کرپشن کا میگا سکینڈل سامنے آیا تھا۔ اس سکینڈل میں موصوف نے اپنی ہی ایئر فورس کو 45 ہزار 696 کروڑ بھارتی روپوں کا ٹیکہ لگایا۔جنرل راوت کی قیادت میں ہی بھارتی افواج کو 2020ء میں لداخ میں چین نے ناکوں چنے چبوا دیے تھے،ا س ہزیمت پر جنرل راوت اور بھارتی آرمی چیف جنرل منوج نروانے کی آپس میں جھڑپ بھی ہوئی تھی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ کچھ حلقوں کی جانب سے جنرل راوت کی ہلاکت کو بھارتی افواج کے دو بڑوں میں اختلافات کا شاخسانہ قرار دیا جا رہا ہے۔ ایئر چیف سمیت بھارت کے اعلیٰ فوجی افسران بھی جنرل راوت کے خلاف تھے کیونکہ جولائی میں جنرل راوت نے گلوبل کائونٹر ٹیررازم کونسل کے زیرِ اہتمام ایک تقریب سے خطاب میں کہاتھا کہ ایئر فورس کی ضرورت اس لیے ہے کہ وہ بری فوج کو سپورٹ کرے اور اسے یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ایئر فورس محض مسلح افواج کا ایک سپورٹنگ آرم ہے۔اس کے جواب میں بھارتی ایئر چیف مارشل راکیش کمار نے سخت ردعمل دیتے ہوئے کہاتھا کہ فضائیہ کا کام صرف زمینی افواج کی اعانت کرنا نہیں بلکہ فضائی طاقت جنگ کا ایک اہم حصہ ہے۔اس کے علاوہ بھی بھارتی ایئر چیف اور سی ڈی ایس بپن راوت کے مابین سرد جنگ کے کئی پہلو منظر عام پر آ چکے تھے۔ پلوامہ اور ڈوکلام میں ہزیمت کے بعد بھی بھارتی دفاعی اُمور سنبھالنے والے آپس میں لڑ پڑے تھے ۔
جنرل بپن نے مقبوضہ کشمیر سمیت پورے بھارت میں مسلم کشی کے نت نئے ہتھکنڈے ایجادکیے۔ 9 اپریل 2017 ء کو مقبوضہ کشمیر میں ایک نوجوان کو جیپ کے ہڈ پر انسانی ڈھال کے طور پر باندھ کر بر بریت و حیوانیت کے تمام ریکارڈ توڑے گئے تھے۔ ایسا فعل سرانجام دینے والے میجر کو نہ صرف اعزازات سے نوازا گیا بلکہ جنرل راوت نے کہا تھا کہ اگر وہ خود بھی اس جگہ پر ہوتے تو یہی کرتے۔ یہ تھی بھارتی فوج کے سر براہ کی سوچ۔ جنرل بپن راوت نے بھارتی فوج کو Rough Army بنا نے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس کی قیادت میں غاصب فوج کشمیریوں پر قہر بن کر ٹوٹی ۔اسے بھارت کا جنرل ڈائربھی کہا جاتا ہے جس نے پیلٹ گنوں سے کشمیری نسل کشی کے مذموم منصوبے بنائے اور مقبوضہ وادی کے عوام کو ڈرون حملوں کی دھمکیاں دیں۔بپن راوت نے نومبر 2018 ء میں پاکستان کے حوالے سے کہا تھا کہ اگر پاکستان کو بھارت سے دوستی کرنی ہے تو اس کے لیے پاکستان کو سیکولر ریاست بننا پڑے گا۔ بھارت کے پہلے سی ڈی ایس کی حادثاتی ہلاکت بی جے پی حکومت اور سینئر فوجی قیادت میں شدید اختلافات کی طرف اشارہ کرتی ہے؛ چنانچہ موجودہ تناظر میں یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ بھارتی افواج تقسیم کے دہانے پر کھڑی ہیں۔