بھارتی توسیع پسندانہ عزائم اور عالمی امن کے تقاضے

بھوک، افلاس اور وسائل کی عدم دستیابی سے بے حال سوا ارب بھارتیوں کے وزیر اعظم پر خطے کی تھانیداری کا بھوت سوارہے اور جب سے مودی سرکار برسراقتدار آئی ہے‘ خطے میں آگ سی لگی ہوئی ہے۔ پورے بھارت میں لوگ کورونا کے موذی وائرس اور بھوک سے مرتے جا رہے ہیں لیکن بھارتی قیادت پاکستان دشمنی میں اپنی رعایا کو بھی زندہ درگور کر رہی ہے۔ بھارت نے جدید ترین اسلحہ کے انبار لگا رکھے ہیں اور آئے دن اپنے عسکری بجٹ میں اضافہ کرتارہتا ہے۔ اگرچہ پاکستان کے خلاف بھارتی بالادستی کے خواب کی تعبیر حسرت و غم اور یاس کے سوا کچھ نہیں؛ تاہم عالمی طاقتوں کو برصغیر میں امن و امان کی صورتحال کو روزانہ کی بنیاد پر مانیٹر کرنا چاہئے اور دفاعی سامان اور اسلحہ کی خرید و فروخت کے معاہدے کرتے وقت خطے میں امن اور انسانیت کی بقا کو بھی مدنظر رکھنا چاہئے تاکہ مالی وسائل بھوک اور بیماریوں کے خاتمے کیلئے استعمال کیے جا سکیں اور اس کے نتیجے میں جنوبی ایشیا میں امن پھلے پھولے اور انسانیت خوشحال ہو۔
بھارت کا ہٹلر مودی جدید اور روایتی‘ ہر قسم کے اسلحے اور جنگی سازوسامان سے لیس ہوکر پاکستان کی آزادی‘ خودمختاری اور سلامتی پر اوچھے وار کرنے کی منصوبہ بندی میں مصروف ہے۔ اس کے عزائم کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ سب تیاریاں پاکستان کی سلامتی پر شب خون مارنے کی ہی مذموم کوششیں ہیں۔ بلا شبہ بھارت کا جنگی جنون خطے میں پائیدا ر امن کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ دہلی سرکار کے توسیع پسندانہ عزائم کسی سے ڈھکے چھپے نہیں، اربوں ڈالر کے جنگی معاہدے اور اسلحے کی خریداری نئی دہلی کی سب سے اہم مصروفیت بن کر رہ گئی ہے۔ بی جے پی ہتھیاروں کے ذخائر جمع کر کے اکھنڈ بھارت اور رام راجیہ کے قیام کا خواب دیکھ رہی ہے۔ یاد رہے کہ پچھلے دس سالوں میں بھارت کے ہتھیاروں کی خریداری میں 24 فیصد اضافہ ہوا ہے جبکہ پاکستان کی امن پسندی کی کوششوں کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہو گا کہ بھارت کے برعکس اس مدت میں پاکستان میں ہتھیاروں کی خریداری میں ایک تہائی کی کمی واقع ہوئی ہے۔ ان حقائق کا انکشاف سویڈن کے ایک سرکردہ تحقیقی ادارے نے اپنی ایک رپورٹ میں بھی کیا ہے۔ یہ امر توجہ طلب ہے کہ دہلی کے حکمرانوں نے گزشتہ دس برس میں نئے ہتھیاروں اور دفاعی نظام کی خریداری پر سو ارب ڈالر سے بھی زیادہ صرف کیے۔ اس مدت میں نئے جنگی جہازوں، میزائلوں، آبدوزوں، ٹینکوں، توپوں، سپیشل طیاروں اور دوسرے ہتھیاروں کی خریداری کے سودے کیے گئے۔ اس تمام صورتحال کا جائزہ لینے والے سنجیدہ حلقوں نے کہا ہے کہ دہلی کے حکمرانوں کی اس روش کو جنگی جنون کا نام دیا جائے یا کچھ اور کہا جائے‘ یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ جنوبی ایشیا کے خطے خصوصاً مقبوضہ جموں وکشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی تھمنے کا نام نہیں لے رہی اور دہلی سرکار طویل عرصے سے عالمی قوانین اور ضابطوں کی دھجیاں اڑاتے ہوئے ہر قسم کی معاندانہ روش اختیار کیے ہوئے ہے۔ آزادی کے تہتر سالوں میں جس جنگی جنون کا بھارت مظاہرہ کرتا رہا ہے‘ اس کی انسانی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ ملک آزاد ہوتے ہی بھارت ریاستِ کشمیر پر قابض ہوگیا‘ ساتھ ہی حیدرآباد دکن کو دبوچ لیا، پاکستان سے جنگیں شروع کردیں۔ گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ بھارتی شدت پسندی میں بھی اضافہ ہوتا چلا گیا۔ شمال میں وہ چین اور نیپال سے الجھتا رہا، جنوب میں سری لنکا کیلئے دردِ سر بنا رہا اور مشرق و مغرب میں پاکستان سے اپنا بغض نکالتا رہا۔ 65ء کی جنگ ہو یا 71ء کی‘ بھارت نے سوائے زہر اگلنے کے اور کچھ نہیں کیا۔ مشرقی پاکستان میں وہ نہ صرف منفی کردار نبھاتا رہا بلکہ عالمی بارڈر کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی فوجیں بھی اس نے مشرقی پاکستان میں داخل کیں‘ یہاں تک کہ وہ الگ ہو کر بنگلہ دیش بن گیا۔ بھارت کو پھر بھی سکون نہ ملا اور وقتاً فوقتاً وہ اپنی اوقات دکھاتا رہا۔ پاکستان نے کئی مرتبہ مسئلہ کشمیر پر مل بیٹھ کر بات چیت سے اس دیرینہ مسئلے کو حل کرنے کی دعوتیں دیں لیکن تمام مثبت کوششیں بے سود ثابت ہوئیں۔
آر ایس ایس کا پرچارک نریندر مودی ہٹلر کے فاشسٹ نظریات پر عملدرآمد میں مصروف ہے۔ وہ سیکولر اور اجتماعیت کے اصولوں کو نظر انداز کر کے دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کو ہندو راشٹریہ بنانا چاہتا ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر‘ جواب بھارت کی واحد مسلم اکثریتی ریاست تھی اور جس کی خصوصی حیثیت اور جزوی خود مختاری ہندو قوم پرستوں کو ایک عرصے سے کھٹک رہی تھی‘ کو مودی حکومت نے 5 اگست کے انتہائی متنازع اقدام سے دہلی کے ماتحت دو علاقوں میں تقسیم کردیا۔ اس پر مودی سرکار نے یہ دعویٰ کیا کہ یہ فیصلہ مقبوضہ کشمیر میں معاشی ترقی اور وہاں کرپشن پر قابو پانے کیلئے کیا گیا ہے حالانکہ اس کا مقصد بھارت سے ہندوئوں کو لا کر اس خطے میں آباد کرنا اور اس کی جغرافیائی حیثیت کو تبدیل کرنا تھا۔ دوسری طرف آسام میں شہریوں کی رجسٹریشن کے نام پر 19 لاکھ افراد کو شہریت کی فہرست سے نکال دیا گیا جن میں اکثریت مسلمانوں کی ہے، انہیں حراستی کیمپوں میں قید کر دیا گیا ہے۔ بلاشبہ بھارت کے بالا دستی کے مذموم عزائم نے علاقے کا امن برباد کرکے رکھا ہوا ہے۔ بھارت شاید سمجھتا ہے کہ جدید ہتھیاروں کے انبار لگانے سے وہ خطے میں سب سے زیادہ طاقتور ہوگیا ہے مگر یہ اس کی خام خیالی ہے۔ مودی اور بھارت یاد رکھیں کہ جنگیں اسلحے کے زور پر نہیں‘ حوصلوں سے لڑی جاتی ہیں۔ سرجیکل سٹرائیک کے نام پر بھارت نے جو غلطی کی تھی‘ اس کا جواب ابھینندن کے واقعے کی صورت میں ملا تھا اور یہ عندیہ تھا کہ اگر بھارت نے جنگی جنون کے تحت کوئی بھی غلطی کی تو اسے اس کا بھاری خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔ بھارتی کے جنگی جنون سے مسئلہ یہ ہے کہ اس خطے میں جنگ کے بادلوں کا امڈ آنا عالمی سطح پر خطرے کی گھنٹی بجا دیتا ہے‘ اس لیے کہ دونوں ممالک ایٹمی طاقت ہیں، اور ان کے مابین اگر خدانخواستہ جنگ چھڑتی ہے تو وہ اس علاقے ہی نہیں‘ پوری دنیا کے لیے ہولناک تباہی کا ذریعہ بنے گی۔
موجودہ صورتحال نے بھارتی نیتائوں کو بدحواس کر دیا ہے کہ ایک طرف افغانستان میں بھارت کو کئی بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے بعد بھی اس سرزمین سے نکلنا پڑاتو دوسری جانب سی پیک اور گوادر کی وجہ سے اس کی جان اٹکی ہوئی ہے۔ جس وقت یہ منصوبے پوری طرح فعال ہوں گے‘ پاکستان میں خوشحالی کے دروازے کھل جائیں گے۔ ادھر مقبوضہ کشمیر کے عوام بھارت کے خلاف اب نہیں تو کبھی نہیں کی پوزیشن میں آچکے ہیں۔ یہ تمام حقائق بھارتیوں کیلئے ایک ڈرائونا خواب بن چکے ہیں۔ نریند مودی تو ایک کٹھ پتلی ہے‘ بھارت پر راج کرنے والی ''برہمن اسٹیبلشمنٹ‘‘ آنے والے وقت کی چاپ سن رہی ہے۔ امریکہ اور اسرائیل بھارت کو تھپکیاں دے کر اسے بیوقوف بناتے رہے ہیں۔ انہوں نے اپنا عسکری کباڑ خانہ بھارت کو بیچ کر اسے اس گمان میں رکھا ہوا ہے کہ پاکستان اور چین کے خلاف وہ اس کی پشت پر موجود ہیں۔ نائن الیون کے بعد جب نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کا آغاز کیا گیا اور امریکہ افغانستان میں آیا تو بھارت نے خطے میں اس کی موجودگی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بہت سے اقدامات کیے جن کے باعث تحریک آزادیٔ کشمیر بھی کچھ کمزور ہوئی لیکن وہ مکمل طور پر کبھی بھی ختم نہیں کی جا سکی۔ اس حوالے سے بڑی قوتوں کو بھی عقل کے ناخن لینے چاہئیں کیونکہ اس مرتبہ کشمیر کے مسئلے پر پاک بھارت جنگ چھڑی تو یہ صرف اس خطے تک محدود نہیں رہے گی بلکہ بڑی قوتوں کو بھی اس مسئلے پر خاموشی کی قیمت چکانا پڑ سکتی ہے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ موجودہ دور میں تین قسم کی جنگیں پوری شدت اور جوش کے ساتھ لڑی جارہی ہیں۔ پہلی جنگ اسلحے کے زور پر لڑی جارہی ہے جو دراصل معاشی جنگ ہے۔ یہ جنگ اب عراق، شام، لیبیا وغیرہ میں لڑی جارہی ہے۔ اس کے بعد ''ذہنی یا دماغی جنگ‘‘ ہے جو اس وقت میڈیا اور سوشل میڈیا کے پلیٹ فارمز پر لڑی جا رہی ہے۔ تیسری جنگ اب زمین کے دائرے سے نکل کر خلا میں داخل ہو چکی ہے‘ اسے دنیا کی مہنگی ترین جنگ کہا جا سکتا ہے اور یہ فی الوقت چین اور امریکہ کے مابین لڑی جا رہی ہے لیکن یقین جانیں مسلم دنیا کیلئے بھی یہ محاذ انتہائی اہم ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں