امریکا یورپ کو تحفظ فراہم نہ کر سکا اورروس نے آخر کار یوکرین پر حملہ کر ہی دیا۔ روسی حملے کے نتیجے میں یوکرین کا میزائل ڈیفنس سسٹم اور انفراسٹرکچر تباہ ہو کر رہ گیا ہے۔ عالمی سٹاک مارکیٹیں کریش ہو گئیں، تیل، سونا اور غذائی اجناس کی قیمتیں بڑھ گئیں، متاثرہ علاقوں سے آبادی کی نقل مکانی جاری ہے۔ ماسکوکے مطابق اس کے پاس روس کی سلامتی کو یقینی بنانے کے لیے یوکرین پر حملے کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا جبکہ امریکا اور یورپ صرف مذمت پر ہی اکتفا کرتے رہے۔ یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کے مطابق مغرب نے یوکرین کو مکمل طور پر تنہا چھوڑ دیا ہے‘ ان کو 27 یورپی ممالک سے نیٹو میں شمولیت پر کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ در حقیقت امریکا اب واحد سپر پاور کے ٹائٹل سے محروم ہو گیا ہے۔ وہ تاریخ کی سب سے بڑی لیکن سب سے کم عمر سپر پاور ثابت ہوا۔ دوسری جانب چین نے روس کی طاقت کا سہارا لیا اور سپر پاور بننے کی طرف ایک قدم اور آگے بڑھ گیا۔ موجودہ بدلتے عالمی منظر نامے سے ایسا لگتا ہے کہ ڈالر کا جنازہ نکلتے ہی اب تجارت بھی کسی اور کرنسی میں ہوگی۔ روس پر سفارتی و معاشی پابندیاں لگانے سے ایک بات واضح ہو گئی ہے کہ امریکا اور اس کے حواری روس کی عسکری قوت سے مقابلہ نہیں کر سکتے۔ روس اور یوکرین کے مابین چپقلش کی اہم وجہ امریکی پالیسی ہے جس کے تحت وہ یوکرین کو نیٹو میں شامل کرنا چاہتا ہے کیونکہ نیٹو کا رکن بننے کی صورت میں نیٹو افواج یوکرین میں اڈے بنا سکتی اور وہاں میزائل نصب کرسکتی ہیں۔ ہمسایہ ملک ہونے کی بنا پر روس کو ہرگز قبول نہیں ہو سکتا کہ اس کی مخالف اتحادی افواج اس کی دہلیز پر آکر بیٹھ جائیں۔
سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد مشرقی یورپ کے وہ ملک جو پہلے وارسا پیکٹ کا حصہ تھے‘ نیٹو میں شامل ہوتے چلے گئے جبکہ نیٹو کا سرغنہ امریکا اس خدشے میں مبتلا ہے کہ روس اس کے مقابلے میں کسی بھی وقت کوئی مضبوط عسکری بلاک کھڑا کر سکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پہلے روس نے آزاد ملکوں کی کامن ویلتھ‘ سی آئی ایس بنائی، پھر مشترکہ معاہدے کی دفاعی تنظیم بنائی، پھر شنگھائی تنظیم تعاون کو فروغ دیا اور برک کے نام سے برازیل، انڈیا، جنوبی افریقہ کے ساتھ مل کر بھی ایک تنظیم بنا ڈالی۔ انسانیت کو تباہ کرنے میں امریکا کا بڑا کردار ہے اس نے اپنی طاقت کے زعم میں عراق، افغانستان،لیبیا اور شام میں بر بادی کی تاریخ رقم کی۔ میزائل شیلڈ کی آڑ میں بحری اڈے قائم کیے۔ اس وقت دنیا کے 120 ملکوں میں اس کے فوجی اڈے موجود ہیں۔ ایران‘ عرب تنازعات کو ہوا دینے میں بھی امریکا ہی ملوث ہے اس نے اپنے عالمی سپر پاور کے منصب کو طول دینے کیلئے پوری دنیا کو جنگ میں جھونک رکھا ہے اور اب اس کا اگلا ہدف نیٹو کی آڑ میں مشرقی یورپ کے ذخائر ہیں اور ان تک پہنچنے کیلئے یوکرین کو استعمال کیا جا رہا ہے۔کچھ طبقوں میں روس اور یوکرین کی موجودہ کشیدگی کو تیسری عالمی جنگ کی شروعات قرار دیا جا رہا ہے۔ اس تناظر میںروس اور یوکرین کے حکام کی ملاقات بھی ہوئی جس میں اس تنازع کو حل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن کامیابی نہ ہو سکی۔ اگر یہ لڑائی نہ رکی تو اس کے منفی اثرات دیگر ممالک تک بھی پہنچیں گے۔ اس سے دنیا دوبارہ دھڑوں میں تقسیم ہو جائے گی۔ پابندیوں کی صورت میں روس سے جرمنی جانے والی گیس پائپ لائن بند ہو جائے گی چونکہ یورپ میں ایندھن کی 40 فیصد ضروریات روسی گیس‘ جس کا حجم 183 ارب کعب میٹر ہے اور جو روسی تیل اور گیس کے مجموعی برآمدی حجم کا نصف ہے‘ سے پوری ہوتی ہیں لہٰذا یورپ کا پیدواری عمل رک سکتا ہے۔ چیک ریپبلک، لٹویا، فن لینڈ، پولینڈ، ہنگری، بلغاریہ اور سلواکیہ کی 90 فیصد توانائی روس سے آنے والی گیس کی مرہونِ منت ہے۔ گیس پائپ لائن کی بندش سے اگرچہ روسی معیشت پر کاری ضرب لگے گی لیکن اس سے دنیا بھر میں تیل کی قیمتوں پر نہ صرف اثر پڑے گا بلکہ توانائی کا ایک نیا بحران پیدا ہو گا۔ اس میں کسی شک و شبہے کی گنجائش باقی نہیں رہ جاتی کہ نیٹو توبہانہ ہے‘ امریکا کی نظر یورپی گیس کی منڈی پر ہیں۔
یوکرین‘ روس جنگی حالات میں‘ تقریباً گیارہ سال بعد کسی سربراہِ مملکت کا دورۂ ماسکو موضوعِ بحث بنا رہا۔ یہ دورۂ چند ہفتے پہلے روسی حکام نے طے کیا تھا۔ اس پروگرام میں تبدیلی ناممکن تھی؛ تاہم بہت سے حلقوں کیلئے یہ ایک تنقیدی معاملہ بنا رہا۔ سوال یہ ہے کہ اگر وزیر اعظم صاحب امریکا کے دورے پر جاتے اور اس وقت امریکا کسی جنگی محاذ پر مصروف ہوتا تو تب تنقید کی جاتی یا پذیرائی ہوتی؟ بدقسمتی سے ہماری خارجہ پالیسی کا جھکائو امریکا کی جانب رہا جس کے باعث ہمیں بھاری جانی اور مالی نقصانات اٹھانا پڑے جبکہ امریکا کے ڈومور کے تقاضوں نے بھی ہمارا پیچھا نہیں چھوڑا۔ خطے کے امن و سلامتی اور علاقائی خوشحالی اس امر کے متقاضی ہیں کہ ہمارے چین اور روس سمیت خطے کے تمام اہم ممالک کے ساتھ تعلقات میں مضبوطی آئے۔ چین کے ساتھ ہماری دوستی سمندروں سے گہری، ہمالیہ سے اونچی اور شہد سے میٹھی ہے جس کے ثمرات ہمیں سی پیک کی صورت میں حاصل ہوئے ہیں جبکہ چین مسئلۂ کشمیر پر بھی ہمارے موقف کے ساتھ ڈٹ کر کھڑا ہے۔ روس رقبے کے اعتبار سے دنیا کا سب سے بڑا ملک ہی نہیں بلکہ وہ دیگر کئی حوالوں سے بھی دنیا کے اہم ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے۔ پاکستان کے روس کے ساتھ 1948ء سے سفارتی تعلقات قائم ہیں اور دوطرفہ تجارت چلی آرہی ہے؛ البتہ بعض عالمی معاملات اور سرد جنگ کے باعث ان میں اتار چڑھائو کا عنصر غالب رہا، اس کے باوجود 1973ء میں پاکستان سٹیل مل‘ جو اپنی تکمیل کے بعد کم و بیش 30برس تک مؤثر رہی‘ سوویت یونین ہی کے اشتراک سے بنی تھی۔ سردجنگ کے خاتمے کے بعد‘ دونوں ملکوں کی تجارت کا حجم 2015 ء میں ریکارڈ 381ارب ڈالر تھا۔ البتہ پاکستان کے روس کے ساتھ بہتر تعلقات کے پیش منظر میں اہم معاملہ یہ ہے کہ ہم روس سے کیا فوائد حاصل کر سکتے ہیں اور پاکستان روس کو کیا دے سکتا ہے ؟ اس سلسلے میں سب سے اہم بات یہ ہے معاملات کو عملی طور پر بھی آگے بڑھایا جائے۔ افغانستان سے امریکی شکست اور فرارکے بعد دونوں ملکوں کو ایک دوسرے کے قریب آنے کا جو موقع ملا ہے‘ حالات کا تقاضا ہے کہ ان روابط کو پائیدار بنانے کے اقدامات کیے جائیں۔ نائن الیون کے ردعمل میں امریکا نے دہشت گردی کے خاتمے کے نام پر نیٹو اتحادیوں کے ہمراہ افغانستان پر اپنے مفادات کی جنگ کیلئے چڑھائی کی اور پاکستان کو پتھر کے زمانے کی جانب واپس دھکیلنے کی دھمکی دے کر اپنا فرنٹ لائن اتحادی بنایا جبکہ بھارت بھی امریکا ہی کے کیمپ میں تھا۔ امریکا نے اپنے ان دونوں اتحادیوں کے مابین جاری مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اپنا کردار ادا کرنے کے بجائے بھارت کی پیٹھ ٹھونکنا شروع کر دی جس نے امریکی شہ پر پاکستان کی سلامتی کمزور کرنے کی سازشوں کو مزید پروان چڑھایا اور افغان سرزمین کو پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے کیلئے استعمال کیا۔
پاکستان کو جاری اور بالخصوص آنے والے برسوں میں گیس کے جس بحران کا سامنا ہے، اس کے تناظر میں پاک روس سٹریم گیس پائپ لائن منصوبہ ایک سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس معاہدے پر پہلی بار 2015ء میں دستخط کیے گئے تھے جس کے تحت روس اس پروجیکٹ کو 25برس تک اپنے کنٹرول میں رکھے گا اس کے بعد اسے پاکستان کے حوالے کر دیا جائے گا۔ منصوبے میں پاکستان کا حصہ 74فیصد ہو گا اور اس پر کل 2.3ارب ڈالر لاگت آئے گی۔ جب سارے موسم سرما میں پورا ملک سردی سے ٹھٹھرتا رہا تو اس وقت کیا ہی بہتر ہوتا کہ ایران کے ساتھ کیے گئے گیس معاہدے کی تکمیل کے اقدامات کیے جاتے، کیا اب روس کے ساتھ کیے گئے گیس معاہدے کی بیل مینڈھے چڑھ پائے گی یا نہیں ؟ اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ خارجہ پالیسی کا درست سمت میں تعین کیا جائے اور گومگو کی کیفیت سے نکل دو ٹوک فیصلہ کرتے ہوئے اقدامات کیے جائیں وگرنہ ان اقدامات کی حیثیت 'آدھا تیتر‘ آدھا بیٹر‘ جیسی ہی رہے گی۔