چین اور روس نئے عالمی مالیاتی نظام کیلئے سرگرم!

روس اور یوکرین کے مابین جاری جنگ سے جہاں عالمی اقتصادی نظام کو شدید خطرات لاحق ہو ئے ہیں‘ وہیں برطانیہ کے یورپی یونین سے انخلا اورکورونا وائرس کی عالمی وبا نے گلوبلائزیشن کی بنیادیں ہلا کر رکھ دی ہیں۔ دنیا کا ہر ملک جب کورونا کی وبا سے نمٹنے کی جدوجہد میں مصروف تھا تو ایسے میں چین نے پائلٹ پروجیکٹ لانچ کرکے نظر نہ آنے والی ڈیجیٹل یوآن کرنسی ''ای آر ایم بی‘‘ لا کر امریکی ڈالر کی اجارہ د اری کو چیلنج کر دیا۔ یہ کوئی خیالی بات نہیں کیونکہ مرکزی پیپلز بینک آف چائنا نے متعدد شہروں سمیت کئی ممالک میں اس پر کام کرنا شروع کر دیا ہے۔ روس یوکرین جنگ میں کرپٹو کرنسی کے کردار نے اس کی اہمیت کو مزید اجاگرکیا۔ یہی وجہ ہے کہ ڈیجیٹل کرنسی کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کے بعد بیشتر ممالک میں کرپٹو کرنسی کو قانونی شکل دینے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ یورپی یونین ماسکو کے ساتھ تجارت کرنے والا مجموعی طور پر سب سے بڑا بلاک ہے جس کا اندازہ اس امر سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے کہ2021ء میں اس سے روس کی تجارت کا حجم چین کی نسبت دو گنا زیادہ تھا۔ البتہ اس میں کوئی شک و شبہے کی گنجائش نہیں کہ یوکرین تنازع کے بعد صورتحال یکسر تبدیل ہو چکی ہے۔ انٹرنیشنل انرجی ایجنسی 2021ء کے اعداد و شمار کے مطابق تیل برآمدات کا صرف 20 فیصد حصہ چین کو جاتا ہے جس میںاب 9 فیصد اضافہ ہوا جبکہ یورپ کی 40 فیصد گیس اور 26 فیصد تیل کی ضرورت اب بھی ماسکو پوری کر رہا ہے۔ اس بحران نے یورپ کی اس سوچ کو مزید تقویت دی ہے کہ اسے اپنی ضروریات کے لیے دیگر ذرائع پر بھی غور کرنا ہو گا۔ جرمنی تو حال ہی میں اعلان کر چکا ہے کہ یوکرین پر روسی حملے کے ردعمل میں گیس کی نئی پائپ لائن کا منصوبہ معطل کر دیا جائے گا جسے ''نورڈ سٹریم ٹو‘‘ کا نام دیا گیا تھا۔ امریکا، اہم تجارتی شراکت داروں، یورپی یونین اور برطانیہ کی طرف سے روس پر عائد کی گئی اقتصادی پابندیوں کے باوجود چین کو بھیجی جانے والی برآمدات میں ماضی کے مقابلے میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔
ماسکو ایک ایسا نظام بنا چکا ہے جسے سسٹم فور ٹرانسفر آف فنانشل میسیجز (ایس ٹی ایف ایم) کہا جاتا ہے جبکہ چین میں بھی کراس بارڈر انٹر بینک پیمنٹ سسٹم (سی آئی پی ایس) موجود ہے لیکن یہ اب تک صرف اندرونِ ملک اپنی اپنی کرنسی میں استعمال کرتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں دونوں ممالک اس کوشش میں بھی مصروف رہے کہ وہ ادائیگیوں کے لیے کوئی متبادل نظام مرتب کر لیں تاکہ سوئفٹ جیسے مغربی نظام پر انحصار کم ہو‘ جو ڈالر میں سودے بازی کرتا ہے۔ 2021ء تک صرف ایک ہی چینی بینک نے ایس ٹی ایف ایم میں شمولیت اختیار کی تھی جبکہ دوسری جانب بیجنگ کے سی آئی پی ایس سسٹم سے بہت سے روسی اور بین الاقوامی بینک جڑ چکے ہیں۔ یہاں یہ بھی یاد رہے کہ توانائی کی زیادہ تر تجارت اب بھی ڈالر میں ہی ہو رہی ہے لیکن 17 فیصد باہمی تجارت کے لیے چینی یوآن استعمال ہوتا ہے جس میں 2014ء کے مقابلے میں 3.1 فیصد اضافہ ہوا۔ تیل برآمد کرنے والے بیشتر خلیجی ممالک حالیہ ہونے والے نقصان اور گھاٹے کے پیش نظر عالمی تجارت میں امریکی ڈالر کی اجارہ داری کے خاتمے کے خواہش مند ہیں۔ روس، فرانس، چین اور برازیل کے درمیان ڈالر کی اجارہ داری ختم کرنے کے حوالے سے بات چیت بھی ہو چکی ہے۔ روس اور تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک کے لیے ڈالر میں تیل بیچنا اس وقت گھاٹے کا سودا ثابت ہوتا ہے جب اصل منڈیوں یعنی ایشیا اور یورپ کی کرنسی کی قدر ڈالر کے مقابلے میں مستحکم ہو۔ بیجنگ ماسکو کی توانائی برآمدات جیسے تیل، گیس، کوئلہ اور زرعی اجناس کی کھپت کی سب سے بڑی منڈی ہے اور یہ بھی صاف ظاہر ہے کہ حالیہ برسوں میں چین کو بھیجی جانے والی برآمدات میں ماضی کے مقابلے میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔
واضح رہے کہ دونوں ممالک کی باہمی تجارت کاحجم حالیہ برسوں میں بتدریج بڑھا ہے جس کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ گزشتہ برس یہ تقریباً 150 ارب امریکی ڈالر پر جا پہنچا تھا جو 2020ء کے مقابلے میں 36 فیصد رہا جو ایک نیا ریکارڈ تھا۔ حال ہی میں صدر پوتن اور چینی صدر شی جن کی طرف سے اس عزم کا اظہار بھی کیا جا چکا ہے کہ 2024ء تک باہمی تجارت کو 250 ارب ڈالر تک بڑھایا جائے گا۔ روس اور چین امریکی ڈالر کے بجائے چینی کرنسی یوآن میں تیل کی خرید و فروخت کے علاوہ اپنے دیگر متعلقہ مالیاتی اداروں کے درمیان امریکی ڈالر کے استعمال کی حوصلہ شکنی کرنے کے لیے ایک نیا مالیاتی نظام قائم کرنے کے لیے بھی بڑی تیزی کے ساتھ ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہیں۔ ماسکو حکومت اس طرح مغربی ممالک کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کا جواب دینا چاہتی ہے کیونکہ مغربی ممالک نے یوکرین پر حملے کے بعد پابندیاں عائد کرتے ہوئے متعدد بڑے روسی بینکوں کو عالمی ادائیگیوں کے نیٹ ورک سوئفٹ (Swift) سے الگ کر دیا تھا اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روس ڈالر اور یورو کا استعمال کرتے ہوئے نہ تو ملک سے باہر پیسہ بھیج سکتا ہے اور نہ ہی باہر سے پیسہ ملک میں لا سکتا ہے۔ اگر آئندہ چند ماہ مذکورہ بالا تمام ممالک امریکی ڈالر کا استعمال ترک کرکے آپس کی تجارت کے لیے چینی کرنسی یوآن یا کسی اور متبادل کو اختیار کر لیتے ہیں تو یقینا یہ اقدام امریکی ڈالر کی موت کے برابر ہو گا۔
اس وقت عالمی سیاسی و معاشی نظام جس خرابی سے دوچار ہے‘ وہ امریکا کی اپنی پالیسیوں کا پیدا کردہ ہے۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ایک ایسا عالمی نظام درکار تھا جو بڑی طاقتوں کے درمیان کسی اور بڑی جنگ کی راہ مسدود کرے۔ امریکا اور یورپی یونین نے یہ مقصد تو حاصل کر لیا مگر اس دوران انہوں نے بالخصوص امریکا نے اتنی زیادہ طاقت حاصل کر لی کہ اس کیلئے اپنے وجود کو سنبھالنا انتہائی دشوار ہو گیا۔ جن ممالک کو موجودہ عالمی نظام سے شدید نقصان پہنچا‘ وہاں عوام نے سڑکوں پر آ کر اس نظام کو چیلنج کر دیا۔ کئی ممالک میں عوام کیلئے شدید معاشی مسائل پیدا ہوئے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک دنیا اب امریکا پر بھروسہ کرنے کو تیار نہیں جبکہ چین کے ''دی بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹو‘‘ منصوبہ مکمل ہونے کے بعد امریکا اور یورپ کے سامنے چین کے آگے ہتھیار ڈالنے کے سوا چارہ نہ ہو گا۔ چین دنیا بھر میں بنیادی ڈھانچے کو مضبوط تر بنانے پرتوجہ دے رہا ہے۔ جن ممالک کی معیشت کمزور ہے‘ وہ اپنے بنیادی ڈھانچے کومضبوط کرنے میں چین سے مدد لے رہے ہیں۔ جن وسائل سے وہ اپنے طور پر مستفید ہونے کی صلاحیت نہیں رکھتے‘ ان سے مستفید ہونے میں وہ چین کا سہارا لے رہے ہیں۔ چین کی دنیا بھر میں کی گئی سرمایہ کاری سے امریکا خوفزدہ ہے۔
عالمی افق پر قبضے کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کیلئے امریکا نے جو جنگ شروع کی تھی‘ اس میں وہ آج اتنی بری طرح سے پھنس چکا ہے کہ اسے یوکرین کی مدد کیلئے اپنی افواج بھجوانے سے دوٹوک انکارکرنا پڑا۔ اس فیصلے سے اب جوبائیڈن حکومت کے خلاف ایک نیا محاذ کھل چکا ہے۔ امریکا نے اپنے تزویراتی مقاصد کے حصول کی خاطر یوکرین کی لگ بھگ 4 کروڑ سے زائد آبادی کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے کیونکہ ماسکو کی طرف سے کیے گئے حملے کے بعد لاکھوں مہاجرین محفوظ پناہ گاہوں کی تلاش میں دربدر کی ٹھوکریں کھا رہے ہیں۔ دنیا ایک نئے بلاک کی سیاست اور کولڈ وار کی وجہ سے غلط سمت میں چل پڑی ہے۔ عراق‘ شام اور یمن کے بعد افغانستان ان دنوں سنگین انسانی بحران کے دہانے پر کھڑا ہے جس سے عالمی سطح پر دہشت گردی مزید بڑھ رہی ہے۔ اقوام عالم نے فلسطین اور مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو مایوس کیا ہے کیونکہ ان کے حق خود ارادیت کی حمایت تو کی گئی لیکن اقوام متحدہ کی قرادادوں پر آج تک عمل نہیں ہو سکا۔ مقام افسوس ہے کہ اسرائیل اور بھارت اب بڑی تیزی سے ان مقبوضہ علاقوں میں آبادی کا تناسب بدلنے کیلئے گھنائونی کارروائیوں میں مصروفِ عمل ہیں جو ایک جنگی جرم ہے۔
روس کے ساتھ پاکستان کے کثیر الجہتی تعلقات ہیں اور ان کا گراف مسلسل اوپر جا رہا ہے۔وزیراعظم پاکستان عمران خان کا حالیہ دورۂ ماسکو بھی دوطرفہ تعلقات کی مضبوطی کے تناظر میں تھاجس میں افغانستان‘ مقبوضہ کشمیر اور خطے کے امن پر بات کی گئی۔ یوکرین تنازع کے حوالے سے پاکستان نے واضح کیا ہے کہ اپنی پالیسیوں سے غیر جانبدار رہتے ہوئے کسی کیمپ سیاست کا حصہ نہیں بنے گا کیونکہ قبل ازیں جانبدار انہ پالیسی کی ہمیں بڑی بھاری قیمت چکانا پڑی تھی جس کا اب ہمارا ملک متحمل نہیں ہو سکتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں