یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ افواجِ پاکستان دفاعِ وطن کا ہر تقاضا نبھانے کی نہ صرف بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں بلکہ اس کے لیے ہمہ وقت تیار اور مستعد بھی ہیں اور متعدد بار دشمن سے اپنی پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا لوہا اس کے دانت کھٹے کر کے منوا بھی چکی ہیں۔ عساکر پاکستان کی پیشہ ورانہ مشاقی اور ان کی خدا داد صلاحیتوں کی اقوام عالم بھی معترف ہیں۔ پاک فوج کے افسران اور جوانوں نے اقوام متحدہ کے امن مشن کا حصہ بن کر علاقائی اور عالمی امن کے لیے بھی قربانیاں دینے سے کبھی گریز نہیں کیا۔ ابھی گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کے امن مشن میں افریقی ملک کانگو میں فرائض سرانجام دیتے ہوئے پاک فوج کے افسران اور جوان ایئر کریش میں شہید ہو گئے۔ ملک کے اندر بھی امن و امان کے قیام اور ریاست کے خلاف کسی انتشار کے آگے بند باندھنے کے لیے عساکر پاکستان اپنی بہترین پیشہ ورانہ صلاحیتیں بروئے کار لاتی ہیں جبکہ گزشتہ دو دہائیوں سے وہ ملک میں تخریب کاروں اور دہشت گردوں سے بھی نبردآزما ہیں، مختلف آپریشنز کے ذریعے ان کا قلع قمع کر رہی اور تحفظ و دفاعِ وطن کی خاطر اپنی جانیں قربان کر رہی ہیں۔ گزشتہ دنوں جنوبی وزیر ستان میں دہشت گردوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کے آپریشن کے دوران دہشت گردوں کی فائرنگ سے ایک میجر اور ایک جوان نے جام شہادت نوش کیا جبکہ سکیورٹی فورسز نے دو دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا۔ اسی طرح شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں نے ایک فوجی قافلے پر حملہ کیا جس میں 7 اہلکار شہید ہو گئے اور مقابلے میں 4 دہشت گرد بھی مارے گئے۔ وطن کے دفاع اور تحفظ کے لیے پاک فوج کے اس بے پایاں جذبے اور قربانیوں پر پوری قوم کو فخر ہے۔ وہ پاک فوج کے جذبات سے ہم آہنگ ہے اور اس کے ساتھ سیسہ پلائی دیوار بن کر کھڑی نظر آتی ہے جس سے ملک کی سلامتی کے درپے ہمارے سفاک دشمن کو پاکستان کا دفاع مضبوط ہونے کا ٹھوس پیغام جاتا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ بھارت ہماری کسی نہ کسی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کے لیے ہمیشہ موقع کی تاک میں رہتا ہے۔ آج بھلے ہم ملک کے دولخت کرنے کے لیے کبھی شیخ مجیب‘ کبھی یحییٰ اور کبھی بھٹو کو موردِ الزام ٹھہراتے ہیں‘ بنگلہ دیش توبن گیا، لیکن نقصان کس کا ہوا؟ نقصان صرف پاکستان کا ہوا۔ اگر ملک میں سیاسی عدم استحکام اور غیر یقینی کی صورت حال پروان چڑھ رہی ہو تو ہمارے دشمن کو ملک کی سلامتی کے خلاف اپنی گھنائونی سازشیں بروئے کار لانے کا موقع مل جاتا ہے اور اس حوالے سے حالیہ دنوں کی بھی کئی مثالیں موجود ہیں۔
ایسے وقت میں جب ہماری سیاسی قیادت آستینیں چڑھائے‘ ایک دوسرے کے گریبان پر ہاتھ ڈالنے کے لیے کوشاں ہے‘ یہ خوش آئند صورت حال ہے کہ ملک کی عسکری قیادت نے افواجِ پاکستان کو ملک کے سیاسی معاملات سے لاتعلق رکھ کر آئین کی پاسداری اور ا س کے ساتھ کھڑے ہونے کا عہد کیا ہے اور سیاستدانوں کو اپنے تنازعات و معاملات اپنے اپنے فورموں پر خود طے کرنے کا کہا ہے۔ بدقسمتی سے ہماری سیاست میں ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور معاملہ فہمی کا کلچر نہیں پنپ پایا۔ درحقیقت سابق وزیر اعظم عمران خان کے عدم اعتماد پر ووٹنگ نہ کرانے کے غیر آئینی اقدام پر اداروں نے جس طرح آئین و قانوں کا ساتھ دیا ‘اس سے وطن عزیز کو سنگین آئینی بحران سے بچا لیا گیا۔ عساکر پاکستان نے جس طرح آئین کی بالا دستی اور حاکمیت کی حمایت کی‘ وہ پاک فوج ہی کا قابلِ فخر اقدام ہے اورملک کو ایک بار پھر آئینی راستے پر گامزن کر کے ان قوتوں کو منہ توڑ جواب دیا ہے جو ہمارا آئین ہی لپیٹنا چاہتی تھیں اور جن کو ملکی خوشحالی گوارا نہیں۔ بعض قوتوں نے سوشل میڈیا کا سہارا لے کر ملک کے ریاستی اداروں کو رگیدنے کا مذموم سلسلہ شروع کیا جس کا حکومت اور اداروں نے فوری اور سخت نوٹس لیا اور ان عناصر کے خلاف قانونی کارروائیوں کا آغازکیا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی زیرصدارت فارمیشنز کمانڈرز کانفرنس میں بھی ریاستی اداروں اور معاشرے کے مابین تفریق پیدا کرنے کی پروپیگنڈا مہم کا نوٹس لیا گیا اور واضح پیغام دیا گیا کہ پوری فوج آئین اور قانون پر عمل پیرا ہے ‘ کچھ بھی ہو جائے فوج قومی سلامتی پرکبھی کمپرو مائز نہیں کرے گی۔ اس انتباہ کے بعد صورت حال کچھ بہتر ہوئی لیکن اب بھی مذموم مہم جاری ہے۔
اس ساری صورت حال کا افسوسناک پہلو یہ ہے کہ دیدہ و دانستہ ملک کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ دوسری جانب ترجمان پاک فوج میجر جنرل بابر افتخار نے کہا کہ قومی سلامتی کمیٹی کے اعلامیے میں 'سازش‘ کا کوئی ذکر نہیں‘اداروں کو سیاست میں نہ گھسیٹا جائے، یہ سازش نہ پہلے کبھی کامیاب ہوئی اور نہ اب ہو گی۔ پاک فوج ملکی سلامتی و دفاع کے لیے ہمہ وقت چوکس اورتیار ہے۔ عوام کی حمایت فوج کی طاقت کا منبع ہے اور اس کے خلاف کوئی سازش برداشت نہیں کی جائے گی۔ تعمیری تنقید مناسب ہے‘ بے بنیاد کردار کشی کسی بھی صورت قابلِ قبول نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اداروں کے خلاف منظم مہم چلائی جا رہی ہے جس کا مقصد عوام اور فوج کے مابین خلیج پیدا کرنے کی کوشش ہے جو کامیاب نہیں ہو گی؛ تاہم ایسی الزام تراشی کی روک تھام ہونی چاہیے جس کے ذریعے اداروں اور بین الاقوامی تعلقات کو نشانہ بنا کر سیاسی فوائد سمیٹنے کی کوشش کی جا رہی ہو۔ جمہوری سسٹم میں سیاسی مخالفین اور حکومت
کے خلاف قانونی اور آئینی حدود میں رہتے ہوئے مہم جوئی کرنا اپوزیشن یا کسی بھی سیاستدان کاحق ہے مگر حد سے تجاوز قومی و ملکی نظام کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ مسلح افواج کے ترجمان کی طرف سے قومی ایشوز پر پریس بریفنگ ایسے وقت میں دی گئی جب چند ملک دشمن عناصر کی طرف سے ملکی قیادت کے بارے میں سوشل میڈیا کے ذریعے غلیظ پروپیگنڈا جاری تھا جو عوام میں غلط فہمیوں کو جنم دینے کا سبب بن رہا تھا جس کی سرکوبی نہایت ضروری تھی۔ دوسری طرف بعض قومی ایشوز پر بعض سیاسی جماعتوں کی طرف سے کچھ اس قسم کی تبصرہ آرائی بھی کی جارہی تھی کہ جس سے اداروں کا امیج خراب ہورہا تھا؛ چنانچہ اس صورتحال میںمیجر جنرل بابر افتخار کی پریس کانفرنس سے دھند صاف ہوگئی ہے۔ لمحۂ فکریہ یہ ہے کہ تمام پارٹیوں کے سیاسی جتھے سوشل میڈیا کو استعمال کر کے قابل احترام سابق فوجیوں کے نقلی آڈیو میسجز اَپ لوڈ کر رہے ہیں‘ یقینا اس منظم سازش کو ملک دشمن عناصر کی اشیر باد حاصل ہے جس کا فوری قلع قمع کرنا ضروری ہے۔
بلاشبہ ملک کا کوئی بھی آئینی ادارہ، سیاسی جماعت اور سیاسی شخصیت ملک کے معاملات میں کسی بھی بیرونی مداخلت کی اجازت دینے کو تیار نہیں۔ اس امر پر اتفاق کے بعد ضروری ہے کہ اس سفارتی مراسلے کی حقیقت جاننے کے لیے غیر جانبدارانہ انکوائری کرائی جائے جسے غیر ملکی سازش کی بنیاد قرار دیا جا رہا ہے۔ نو منتخب وزیراعظم محمد شہباز شریف نے اپنے پہلے پالیسی خطاب میں اس بات کا عندیہ دیا تھا کہ وہ اس کی باضابطہ تحقیقات کرائیں گے تاکہ اصل حقائق سامنے آسکیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر تحریک عدم اعتماد میں غیر ملکی مداخلت ثابت ہو جائے تو وہ فوری طور پر اپنے عہدے سے مستعفی ہو جائیں گے۔ اب وقت کا اولین تقاضا ہے کہ ایک اعلیٰ سطح کا کمیشن تشکیل دیا جائے جو اس مبینہ سازش کے تانے بانے تلاش کرے اور اس کے نتائج قوم کے سامنے پیش کیے جائیں۔ ملک میں سیاسی محاذ آرائی کو جس طریقے سے بڑھاوا دینے کی دانستہ کوشش ہو رہی ہے، اصولی طور پر تو سابق حکمران جماعت کو پارلیمنٹ میں بیٹھ کر اپوزیشن کا کردار ادا کرنا چاہیے تھے کیونکہ پارلیمانی جمہوریت کا تقاضا یہی ہے۔ سابق وزیراعظم کو ہٹانا بھی ایک آئینی عمل کے ذریعے ہی ممکن ہوا۔ پاکستان بدستور گرے لسٹ میں چلا آ رہا ہے جس کی وجہ سے ملکی معیشت کو خاصا نقصان ہو چکا ہے۔ معاشی اعتبار سے ایک حوصلہ افزا اشارہ اس وقت سامنے آیا جب نومنتخب وزیراعظم کے حلف اٹھاتے ہی پاکستان سٹاک ایکسچینج چالیس ہزار پوائنٹس کی نفسیاتی حد عبور کرگئی جبکہ ڈالر کی قدر میں بھی کمی دیکھی گئی لیکن ہم اس حقیقت سے نظریں نہیں چرا سکتے کہ نئی حکومت کو مہیب معاشی چیلنجز درپیش ہیں۔ گردشی قرضے، تجارتی خسارہ، روپے کی گرتی ہوئی قدر، بجلی بحران، مہنگائی اور پٹرول کی روز بروز بڑھتی قیمت سمیت ملک پر ایک سو تیس بلین ڈالرز سے زیادہ کا قرضہ اتارنے کے لیے حکمت عملی وضع کرنا ناگزیر ہے۔ دوسری جانب آئی ایم ایف کے ساتھ معاملات طے کرنے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ نئے حکمرانوں کے سامنے یہ بھی سب سے بڑا چیلنج ہے کہ انہوں نے آئین و قانون کی عملداری کو کیسے یقینی بنانا ہے۔