امریکا بہانہ‘ پاکستان نشانہ!

آئی ایس آئی کے سابق سربراہ جنرل (ر) حمید گل مرحوم نے پیش گوئی کی تھی کہ پاکستان نے امریکا کی مدد سے روس کو شکست دی اور ایک وقت آئے گا جب ہم امریکا کو امریکا ہی کے ذریعے شکست دیں گے اور افغانستان سے امریکی فرار نے ان کے بیا نیے کو سچ ثابت کر دکھایا۔ نائن الیون کے حوالے سے جنر ل صاحب فرماتے تھے کہ '' نائن الیون ڈرامہ‘ افغانستان ٹھکانہ اور پاکستان نشانہ ہے ‘‘۔ آج جنرل صاحب ہوتے تو موجودہ گمبھیر حالات دیکھ کر فرماتے کہ ''امریکا بہانہ‘ پاک فوج نشانہ ہے‘‘۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ سیاسی خلفشار و انتشار کے تناظر میںہی جنرل صاحب بالکل درست فرمایا کرتے تھے کہ ' 'دشمن ہمیں نفاق کی دو دھاری تلوار سے کاٹ رہا ہے اس کے وار سے صرف اتحاد کی ڈھال سے ہی بچا جا سکتا ہے‘‘۔ ہماری سیاسی قیادت نے اپنے سیاسی مفادات کیلئے جو نفرتیں بو ئی ہیں‘ وہ خطرناک ترین ہیں کیونکہ دشمن ہمیں چاروں طرف سے گھیرتے ہوئے بیرونی و اندرونی طور پر ہم پر حملہ آور ہے۔ لمحۂ فکریہ ہے کہ سابق وزیر اعظم صرف اپنی کرسی اور اقتدار کی خاطر ملک میں انارکی و انتشار پھیلانے میں مصروف ہیں۔ ٹویٹر اور فیس بک سمیت تمام سوشل میڈیا پر قومی اداروں کے خلاف جاری مذموم مہم سے دشمن ہی کو فائدہ پہنچا یا جارہا ہے۔ ابھی تک تحریک انصاف کے چیئر مین نے اپنی سوشل میڈیا ٹیم سے اداروں کے مخالف مواد ڈیلیٹ کرنے کا نہیں کہا۔ آخر یہ منافرت کی آگ کس کے کہنے پر سلگائی گئی ہے؟ بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو ایک لڑی میںپرو دیا تھاجن کی نہ تہذیب ایک دوسرے سے ملتی تھی اور نہ زبان جبکہ سرحدی طور پر بھی دونوں خطوں میں ایک ہزار کلومیٹر کا فاصلہ تھا‘ اس کے باوجود قائداعظم نے دونوں خطوں کے لوگوں کو ایک قوم بنا دیا تھا۔ یہ ہوتے ہیں قومی لیڈر‘ جن کی نظر ووٹوں پر نہیں ہوتی اور نہ انہیں کرسیٔ اقتدار عزیز ہوتی ہے بلکہ انہیں ملک کا مستقبل اور اس کی سلامتی عزیز ہوتی ہے۔ آج کے لیڈرز‘ جن کا مشن صرف انتخابات ہیں‘ کو عوامی فلاح و بہبود‘ ملکی سالمیت اور امن و امان سے کوئی غرض نہیں‘ بھلے وہ پی ڈی ایم کی قیاد ت ہو یا پی ٹی آئی کی۔
1976ء میں بھٹو نے اداروں میں پولیٹیکل سیل قائم کیا تھا اس کے بعد پیپلز پارٹی، مسلم لیگ اور پی ٹی آئی کی حکومتیں آئیں‘ کیا کسی نے بھی اس سیل کو ختم کرنے کی کوشش کی ؟دراصل اداروں اور عوام کے مابین الجھائو اور ٹکرائو کی کیفیت پیدا کی جا رہی ہے۔ میں برملا کہتا ہوں کہ یہ انارکی یہ شورش برپا کرنے کی مذموم کو شش اس لیے کی جا رہی ہے کہ موجودہ حکومت ختم ہو جائے اور جون میں بجٹ کا سارا ملبہ کسی اور کو اٹھانا پڑ جائے کیونکہ اگر یہ حکومت ابھی ختم ہوتی ہے تو جون میں بجٹ پیش کرنے کے موقع پر کوئی مستقل حکومت موجود نہیں ہو گی جبکہ اس وقت حکومت کو جس طرح کام کرنے سے روکا جا رہا ہے‘ اس پر جس طرح سیاسی حوالے سے پریشر بڑھایا جا رہا ہے‘ ان حالات میں کوئی بھی حکومت بڑے اور اہم نوعیت کے سخت فیصلے نہیں کر سکتی۔ اللہ نہ کرے کہ پاکستان کو یو کرین جیسے حالات سے گزرنا پڑے‘ جسے 1994ء میں ڈی نیوکلیئر ائزڈ کر دیا گیا تھا، آج اس کی تباہی ہمارے سامنے ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان کو ڈی نیوکلیئر ائز کر نا مغرب کا کافی پرانا ایجنڈا ہے‘ اس پہلے پاکستان کی ڈی ملٹرائزڈ کرنے کی سازش تیار ہے۔ میں دوٹوک کہتا ہوں کہ سازش عمران خان کی حکومت کیخلاف نہیں پاک ا فواج کے خلاف ہوئی ہے۔
جنرل (ر) حمید گل صاحب اکثر فرمایا کرتے تھے کہ ہمیں ڈی نیوکلیئرائزڈ کرنا ہی دشمن کا اصل ہدف ہے مگریہ پاک فوج کی موجودگی میں ممکن نہیں اس لیے مضبوط فوج کے پہرے کو ہٹانے کیلئے ڈی ملٹر ائزیشن کی جائے گی۔ بدقسمتی سے آج کا موجودہ خطر ناک منظر نامہ اسی کی عکاسی کر رہا ہے۔ پاکستان پہ پابندیاں لگانے والے سابق امریکی سینیٹر لیری پریسلر کی Neighbours in Arms نامی کتاب اسی مذموم سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ جس میں برصغیر میں ایٹمی پروگرام کے حوالے سے بھارت کو چھوڑ دیا گیا جبکہ پاکستان کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارا ایٹمی پروگرام ''دلِ دشمناں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے‘‘۔پاکستان جس دن سے ایٹمی قوت بنا ہے‘ اس کے کھلے دشمن اور دوستی کا نقاب اوڑھنے والے چھپے دشمن‘ سب انگاروں پر لوٹ رہے ہیں۔ بلا خوفِ تردید یہ کہا جا سکتا ہے کہ بھارت جس شدت سے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کا مخالف ہے‘ اسی شدت سے امریکا بھی اس کا مخالف ہے مگر وہ اپنے خبثِ باطن کا کھل کر اظہار نہیں کرتا۔ پاکستان کو ایٹمی قوت کے اعزاز سے محروم کرنے کیلئے داخلی تصادم‘ لاقانونیت اور سیاسی عدم استحکام جیسے ہتھکنڈے ہمیں ڈی نیوکلیئرائز کرنے کی مذموم حکمت عملی کا حصہ ہیں۔
واضح رہے لیری پریسلر اور میمو گیٹ سکینڈل میں ملوث لوگوں کا مشن یہی تھا اور ہے کہ پاکستان کے ملکی و قومی سلامتی کے ضامن اداروں کو کمزور کرکے اس کے ایٹمی پروگرام اور اثاثوں کو منجمد کرکے اسے ایک تابع مہمل ریاست بنا دیا جائے۔ جب سے پاکستان ایٹمی قوت بنا ہے‘ بھارت نے پاکستان کے بارے میں اپنی پالیسی تبدیل کر لی ہے۔ بھارت کو معلوم ہے کہ سرحدوں پر وہ پاک فوج کا مقابلہ نہیں کر سکتا اس لیے وہ پاکستان کو اندرونی سطح پر کمزور کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور اس ضمن میں بھارت کو اسرائیل‘ امریکا اور یورپ کی خفیہ اور ظاہری حمایت بھی حاصل ہے۔ کلبھوشن یادیو بھارتی سازشوں اور خفیہ منصوبوں کا بڑا گواہ ہے۔ واضح رہے کہ ہماری مسلح افواج دنیا کی ٹاپ افواج میں شمار ہوتی ہیں۔ 1965ء کی جنگ میں ہماری جیت کی بڑی وجہ قومی اتحاد ہی تھا، اس کا سبب فوج کے ساتھ متحد اور مضبوط قوم کا کھڑا ہو نا تھا اور پھر اس فوج نے اپنے سے کئی گنا بڑے دشمن کے ناکوں چنے چبوا دیے تھے۔اس کے برعکس 1971ء میں ہماری شکست کا بڑا سبب اندرونی تقسیم اور باہمی اختلافات تھے۔ افسو س آج پھر ہم ایک دوراہے پر کھڑے ہیں۔ سابق وزیر اعظم عمران خان نے اپنی حکومت کے خاتمے کے بعد لاہور کے جلسے میں کہا تھا کہ قومی سلامتی کے اداروں کے تقدس کا خیال رکھتے ہوئے ان کے خلاف کسی قسم کی بھی بیان بازی نہیں کی جائے گی۔ پھر نجانے کیا ہوا کہ اپنے اس بیانیے سے بھی یو ٹرن لے لیاگیا۔ اس کے بعد جلسوں میں اداروں کے خلاف دشنام طرازی کا لا متناہی سلسلہ شروع ہو گیا۔ بے شک عمران خان یہ تاثر دینے میں کامیاب رہے کہ ان کی حکومت کو گرانے میں بیرونی کے ساتھ اندرونی عناصر بھی ملوث تھے۔ ابیٹ آباد کے 8 مئی کے جلسے میں ہتک آمیز رویہ اختیار کر تے ہوئے انہوں نے کہا کہ جس طرح سراج الدولہ کے سپہ سالار میر جعفر نے انگریزوں کے ساتھ مل کر حکومت ختم کی‘ اس طرح ان کی حکومت کے خلاف سازش ہوئی۔ پھر جہلم جلسے میں انہوں نے وضاحت کی اور اس بیان کو شہباز شریف کی طرف موڑ دیا۔ میری عمران خان سے درمندانہ گزارش ہے کہ سیاست ضرور کریں مگر اس کی قیمت ریاست نہیں ہونی چاہیے۔ فوج کی طاقت عوام کی قوت میں پنہاں ہے‘ اداروں کے مابین شکوک و شبہات ڈالنے کی کوشش نہ کریں‘ وگرنہ تاریخ آپ کو کبھی معاف نہیں کرے گی۔
پاک فوج کے ترجمان ڈی جی آئی ایس پی آر‘ میجر جنرل بابر افتخاربار ہا ا نتباہ کر چکے ہیں کہ فوج کو سیاست میں گھسیٹنے سے اجتناب کیا جائے۔ اداروں نے جب واضح طور پر باور کرادیا ہے کہ وہ ملک کی سیاست سے قطعی طور پر لاتعلق ہیں تو سیاسی قائدین پر بھی لازم ہے کہ وہ اپنے کسی بیان‘ کسی تقریر یا گفتگو میں اداروں کو ملوث نہ کریں۔سیاسی کھیل نے ملک کا دیوالیہ کر دیا ہے۔ ہمیں سری لنکا کے بحران سے سبق سیکھنے کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب تحریک انصاف نے ''مداخلت‘‘ اور ''امپورٹڈ حکومت نامنظور ‘‘کی تحریک چلاتے ہوئے اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کیا ہے۔ موجودہ صورتحال میں محب وطن قوتوں پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ باہمی افہام و تفہیم سے اقتدار کی رسہ کشی سے عدم استحکام کے شکار معاشرے میںسیاسی و آئینی بحران کے حل کیلئے اپنا مؤثر کردار ادا کریں تاکہ ملک دشمن عناصر کو ہماری کسی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کا موقع میسر نہ آسکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں