15 اگست 2015ء پاکستان کی تاریخ کا وہ دن ہے جب وطن کے جانثار، پاک دھرتی کے بہادر سپوت جنرل (ر) حمید گل ہم سے بچھڑ گئے۔ آج میرے والد کو ہم سے دور گئے سات برس بیت چکے ہیں۔میں کس طرح بھول جائوں اس عظیم ہستی کو‘ جس کی انگلی پکڑ کر میں گردشِ ایام،تلخیٔ حالات اور دنیا کی طلاطم خیز موجوں سے بے خوف وخطر ٹکرا جاتا تھا۔ آج بھی یقین نہیں آتا کہ وہ مجھے چھوڑ کر جاچکے ہیں۔ ان کے ہوتے ہوئے مجھے یوں محسوس ہوتا تھا کہ جیسے مجھے ہفت اقلیم کی شہنشاہیت مل گئی ہے۔ وہ بیک وقت میرے دوست، ہمراز، استاد، مربی اور رہنما تھے۔ آج میں جو کچھ بھی ہوں‘ وہ رب کریم کی رحمت کے بعد انہی کے جوتوں کی خاک کی بدولت ہوں ورنہ مجھ ناچیز کو کون پوچھتا ؟میں جب تھک جاتا تو مجھے بڑے پیار سے تھپکی دیتے ہوئے فرماتے: محمد عبداللہ! تم اللہ کے سپاہی کے بیٹے ہو۔ تم کیسے تھک سکتے ہو تمہارا باپ کبھی نہیں تھکتا کیونکہ تمہارے باپ پر اللہ اور اس کے رسولﷺ کی رحمت کا سایہ ہے‘ تمہارے باپ کی زندگی کا مقصد اللہ کی زمین پر اللہ تعالیٰ کی حاکمیت کے لیے کام کرنا ہے‘‘۔وہ اکثر فرمایا کرتے تھے '' ہماری منزل اسلام ہے‘ اسلام آباد نہیں‘‘۔
مجھے آج بھی یاد ہے کہ جب گھر سے مجھے یہ دلسوزخبر موصول ہوئی کہ میرے محسن، میرے مسیحا،میرے رہبر و رہنما میرے والد اب اس دنیا میں نہیں رہے تو ایسے لگا کہ جیسے میرے جسم سے روح کھینچ لی گئی ہو۔ آسمان و زمین‘یہ کل کائنات گواہ ہے کہ میں اپنے والد کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتا تھا لیکن یہ میری زندگی کی سب سے بڑا قلق ہے کہ جو عبداللہ ان کے ساتھ سائے کی طرح رہتا تھا‘ آخری وقت میں ان کے پاس کیوں نہیں تھا۔ خود ابو جان نے مجھے وطن عزیز کی سلامتی سے متعلق ایک معاملے کے لیے ترکی بھیجا اور پھر مجھے ملے بغیر‘ مجھے چھوڑ کر اپنے حقیقی سفر پر روانہ ہوگئے اور یہ حسرت ہی رہی کہ کاش میں ابو جان کو اپنے ہاتھوں سے لحد میں اتارتا۔ جنرل (ر) حمید گل صاحب کو شہداء کے قبرستان میں سپرد خاک کیا گیا۔ مجھے آج بھی اس حوالے سے کوئی شک نہیں اور اپنے والد کی وفات کے حوالے سے میں آج بھی اسی موقف پر قائم ہوں کہ انہیں شہید کیا گیاتھا۔ بعض روحانی ذرائع سے بھی اس کی تصدیق ہوئی، اس کے علاوہ بھارتی و افغانی ویب سائٹس و سوشل میڈیا پر بھی انہیں زہر دے کر مارنے کی خبریں گردش کرتی رہی ہیں۔ میں نے اس وقت کے ایک اعلیٰ عہدیدار کو باقاعدہ خط لکھا تھا اور ان کی توجہ اس جانب مبذول کرائی مگر ان باتوں پر کوئی ایکشن نہ لیا گیا۔ عموماً دنیا میں اولاد اپنے والدین کی معاشی وارث ہوتی ہے لیکن مجھے فخر ہے کہ میں محمد عبداللہ حمید گل‘ اپنے والد جنرل (ر) حمید گل کا جانشین‘ ان کا نظریاتی وارث ہوں اور انہی کے مشن پر گامزن ہوں۔ میں ان کی وطن کے دفاع کی کھائی گئی قسم کو آخری سانس تک نبھائوں گا ‘ ان شاء اللہ!
جنرل صاحب کو ''مجاہد اسلام‘‘ کے خطاب سے سعودی عرب نے نوازا تھا۔عسکری و سیاسی اور عوامی حلقوں کے ساتھ ساتھ عالمی سطح پر بھی ان کے نظریات اور ان کی عسکری حکمت عملیوں کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ان کی وفات پر کہا گیاتھا کہ دنیا کے پانچ بڑے عسکری دماغوں سے ایک دماغ چلا گیا ہے۔ وسط ایشیائی ریاستوں سمیت دنیا کے کئی ممالک میں ان کی غائبانہ نمازِ جنازہ ادا کی گئی۔ وسطی ایشیا کے مسلمانوں نے کہا کہ جنرل گل کی وجہ سے ہی ہماری مسجدیں محفوظ ہیں۔ان کی رحلت پر تعزیت کرنے والوں کا تانتا بندھا رہا۔بیرونِ ملک سے صدور اور وزرائے اعظم اور شاہان سے لے کر مسلم تحریکوں کے ذمہ داران تک کی جانب سے‘ کئی ہفتوں تک تعزیتی پیغامات کی موصولی کا سلسلہ جاری رہا۔
جنرل (ر) حمید گل مر کر بھی امر ہو چکے ہیں اور وہ آج بھی اپنی قوم کے دلوں میں زندہ ہیں۔ یہ سب پر عیاں ہے کہ وہ پاکستان میں اسلامی نظام کا نفاذ چاہتے تھے۔ ساری عمر انہوں نے اپنے اصولوں کے تحت گزاری اور انہی اصولوں کی پاسداری میں ہمیشہ وقت کے سلطانوں کے سامنے جھکنے سے انکاری رہے۔ان کے تجزیے کا کوئی بھی جملہ بے وزن نہیں ہوتا تھا‘ یہی وجہ ہے کہ ان کی رحلت کے سات سال بعد بھی‘ عوامی سطح سے لے کر سوشل میڈیا تک پر‘ انہی کے نظریات کا چرچا ہے، ان کا نظریہ، ان کی ڈاکٹرائن آج بھی سلامت ہے۔ ان کی بہت سی پیش گوئیاں وقت کے ساتھ ساتھ سچ ثابت ہوئی ہیں اور ہورہی ہیں۔2014ء میں ایک ٹی وی پروگرام میں انہوں نے کہا تھا کہ افغانستان میں پاکستان نے امریکہ کی مدد سے روس کو شکست دی۔ پھر تاریخ لکھی جائے گی کہ امریکہ کی مدد سے امریکہ کو شکست دی گئی۔ افغان جنگ کے خاتمے پر ان کے اس تاریخی جملے کی گونج پوری دنیا میں سنائی دی اور بین الاقوامی میڈیا نے ان کی پیش گوئیوں اور ان کے نظریات پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی۔ گزشتہ سال 15 اگست کو ان کی چھٹی برسی کے موقع پر کابل کی آزادی کا تحفہ ملا، افغان جنگ کا خاتمہ ہوا اور اس جنگ میں امریکہ کی شکست سے اللہ نے مردِ حُر جنرل (ر) حمید گل کو سرخرو کیا۔
نائن الیون کے بعد حمید گل صاحب نے ایک تاریخی جملہ کہا تھا کہ ''نائن الیون بہانہ، افغانستان ٹھکانہ اور پاکستان نشانہ ہے‘‘۔ نائن الیون حادثے کو اندرونی سازش کہنے پر ان کے امریکہ میں داخلے پر پابندی لگا دی گئی تھی۔پرویز مشرف دور میں امریکیوں کی ناراضی اورآمر کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرنے پر مجھے اور میرے والد کو اڈیالہ جیل میں بھیج دیا گیا تھا۔ میں نے اس دوران بھی اپنے والد کو اکیلا نہیں چھوڑا اور ا ن کے ساتھ ہی پابندِ سلاسل ہوا۔لیاقت بلوچ اور اعتزاز احسن سمیت کئی دیگر لوگ بھی اس وقت وہاں موجود تھے۔بعد ازاں ہمار ے گھر کو سب جیل قرار دے دیا گیا اور پولیس گھر کے اندر آگئی۔جرم صرف اتنا تھا کہ ہم اللہ اور اس کے دین کا علم بلند کر رہے تھے،ہم چاہتے تھے کہ ملک میں انصاف کا بول بالا ہو اور اسلامی نظامِ عدل قائم ہو۔اس وقت کے چیف جسٹس‘ جسٹس افتخار چوہدری سے بھی میرا اور والد محترم کا مکالمہ ہوا۔ والد محترم نے حق کی خاطر جیل جانا قبول کر لیا لیکن کسی کے سامنے جھکے نہیں۔وہ ہمیشہ یہ الفاظ ببانگ دہل کہا کرتے تھے ''ایک مومن کے لیے سپر پاور صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہوتی ہے‘ میں اللہ کے سوا کسی کو سپرپاور نہیں مانتا‘‘۔ انہوں نے اپنے قول و فعل سے بھی اس بات کو ثابت کیا۔ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی وہ برملا اس امر کا اظہار کرتے تھے کہ انہوں نے پاکستان کی حفاظت کا حلف عمر بھر کے لیے اٹھایا تھا نہ کہ صرف نوکری کی حد تک۔ایک فوجی‘ خواہ وہ حاضر سروس ہو یاریٹائرڈ‘ ملک وقوم کی حفاظت کے لیے ہر دو صورتوں میں سربکف رہتا ہے۔وہ ہمیشہ فرماتے: میں نے وردی اتاری ہے‘ بوٹ نہیں اتارے۔
جنرل (ر) حمید گل کانام آج بھی دشمنوں کے دلوں میں ہبیت اور لرزہ طاری کردیتا ہے۔انہوں نے بہترین منصوبہ بندی کے ذریعے سوویت افواج کو شکست دے کر دنیا کی عسکری تاریخ میں نئے باب کا اضافہ کیا اور چھ مسلم ریاستوں‘ قازقستان، ترکمانستان، کرغزستان، ازبکستان، آذربائیجان اور تاجکستان کو وجود بخشنے میں اہم کردار ادا کیا۔ دیوارِ برلن کے ٹوٹنے پر اس کا ایک ٹکڑا انہیں تحفتاً بھیجا گیا تھا۔ جنرل صاحب کاکشمیر کے بارے میں بھی واضح موقف تھا کہ ' کشمیر بنے گا پاکستان نہیں‘ بلکہ کشمیر پاکستان ہے‘۔ حمید گل ہی کی سربراہی میں پاکستانی تاریخ کی سب سے بڑی جنگی مشقوں ضربِ مومن کا آغاز ہوا جن کی کامیابی کا سہرا یقینا آپ ہی کے سر جاتا ہے۔حمید گل اس پاک دھرتی کا وہ بطل حریت تھا جس نے بطورِ بریگیڈیئر برطانیہ کے عالمی شہرت یافتہ رائل وار کالج کا عسکری کورس یہ کہہ کر مسترد کردیا کہ ''انگریز کون ہوتا ہے مجھے جنگ سکھانے والا،وطن کا دفاع اپنی مٹی کے جس فہم سے آتا ہے،وہ میرے لہو میں دوڑتا ہے‘‘۔ انہیں پاکستان کی تاریخ کا سب سے کم عمر لیفٹیننٹ جنرل ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہوا۔میری خواہش ہے کہ مجھے اپنے والدین کے پہلو میں جگہ ملے اور جب میں روزِ محشر اللہ کے حضور میں پیش ہوں اور میرے والد سے میرا سامنا ہوتو جب وہ پوچھیں کہ عبداللہ! تمہیں پاکستان اور دین اسلام کے حوالے سے جو ذمہ داریاں سونپی تھیں‘ وہ پوری طرح نبھائیں؟میں چاہتا ہوں کہ اس وقت اپنے والد کے سامنے میری نظریں نہ جھکیں اور میں ان کے سامنے سرخرو ہو جائوں۔