آذربائیجان‘ آرمینیا تنازع اور امن مذاکرات پر کاری ضرب

آرمینیا اور آذربائیجان کے درمیان نگورنوکاراباخ ریجن میں ایک بار پھر جنگ کا آغاز ہو چکا ہے اور دونوں ممالک کی افواج کے مابین جھڑپوں میں آرمینیا کے50 سے زائد فوجی مارے جا چکے ہیں؛ تاہم جانی نقصان اس سے زیادہ ہوسکتا ہے۔ ترکیہ نے آرمینیا سے اشتعال انگیزی بند کرنے اور آذربائیجان کے ساتھ امن مذاکرات اور تعاون پر زور دیا مگر دونوں ممالک میں سیز فائرصرف چند منٹ ہی برقرار رہ سکا۔ آذربائیجان اور آرمینیا کے مسئلے پر اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بھی بے سود رہا۔ آرمینیا اور آذربائیجان دہائیوں سے لسانی آرمینیائی علاقے نگورنوکاراباخ پر تنازع کا شکار ہیں۔ یہ آرمینیا اورآذربائیجان کاسرحدی علاقہ ہے۔ نگورنو کاراباخ سات اضلاع پرمشتمل ہے۔ یہ علاقہ آذربائیجان میں شامل ہے لیکن اب آبادی کی اکثریت آرمینیائی افراد پر مشتمل ہے۔ فروری 1988ء میں یہاں کے افراد نے ایک تحریک چلائی تھی کہ جنوبی قفقاز میں واقع یہ علاقہ آرمینیا میں شامل کیا جائے۔ جس پر جنگ کا آغاز ہو گیا کیونکہ اس پر آرمینیا بھی حقِ ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے۔ یہ ایک نسلی اورعلاقائی تنازع ہے۔
یہ تنازع مسلم اکثریتی ملک آذربائیجان اور آرمینیا کے مابین 1918 ء میں روسی سلطنت سے آزادی حاصل کرنے کے بعد شروع ہوا۔ اس سے قبل یہ علاقہ سوویت یونین کا حصہ تھے مگر جوزف سٹالن نے چاہا تھا کہ نگورنو کو سوویت یونین کے ماتحت ایک خود مختار علاقہ بنا دیا جائے۔ موجودہ تنازع 1988ء میں شروع ہوا اور اب تک اس حوالے سے دونوں ملکوں میں کئی جنگیں بھی ہوچکی ہیں۔ 1988ء، 1992ء اور 1994ء میں محدود جنگوں کے بعد سیز فائر ہوا لیکن کشیدگی جاری رہی۔ 2016ء میں چار روزہ جنگ ہوئی۔ 2020ء میں بھی جنگ ہوئی جس میں پاکستان نے آذربائیجان کی بھر پور اخلاقی اور سفارتی مدد کی۔ آذربائیجان دنیا کے ان ممالک میں سے ایک ہے جہاں پر پاکستانی عوام اور پاکستانی پاسپورٹ کو قدر اور نہایت عزت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ آذربائیجان کے شہری اور حکومت‘ پاکستان اور پاکستانی عوام سے بے پناہ پیار کرتے ہیں۔ اس جنگ میں آخر کار آذربائیجان فتح یاب ہوا اور کاراباخ سمیت شوشا کا وہ علاقہ بازیاب کرا لیا تھا جس پر پچھلے 30 سالوں سے آرمینیا قابض تھا۔ تین دہائیوں بعد شوشا کی مسجد میں اللہ اکبر کی صدائیں گونجنے پر دشمنانِ اسلام میں صفِ ماتم بچھ گئی تھی۔
سوویت یونین کے انہدام کے بعد کئی نئی ریاستیں وجود میں آئی تھیں جن میں آرمینیا اور آذربائیجان بھی شامل تھے۔ تیل کے ذخائر سے مالا مال آذربائیجان بحیر ہ کیسپین کے کنارے پر مشرقی یورپ اور مغربی ایشیا کے بیچ واقع ہے۔ اس کے شمال میں روس، جنوب میں ایران اور مغرب میں آرمینیا موجود ہیں۔ اگر آذربائیجان کی تاریخ پر نظر دوڑائی جائے تو 19ویں صدی میں آج کے دور کا آذربائیجان فارس اور روسی سلطنت میں بٹا ہوا تھا۔ اسی صدی کے وسط میں یہاں پہلا تیل کا ذخیرہ دریافت ہوا تھا۔ 1918 ء میں آذربائیجان نے خود کو ایک آزاد ملک قرار دیا لیکن پھر سوویت فوج نے اس پر قبضہ کر لیا اور یہ 1991 ء تک سوویت یونین کا حصہ رہا۔ 1991 ء میں جب آذربائیجان سوویت یونین سے آزاد ہوا تو ترکی، پاکستان، امریکہ اور ایران وہ ابتدائی ممالک تھے جنہوں نے اس کے ساتھ سفارتی سطح پر تعلقات قائم کیے۔ آذربائیجان کو تسلیم کرنے والا پہلا ملک ترکی جبکہ دوسرا پاکستان تھا جبکہ اسرائیل کی طرح‘ پا کستان نے آج تک آرمینیا کو بھی بطور ر یاست تسلیم نہیں کیا۔ آرمینیا مشرقی یورپ اور مغربی ایشیا کا حصہ شمار ہوتا ہے۔ اس کے چاروں اطراف ممالک ہیں یعنی یہ لینڈ لاکڈ ملک ہے اوراسے کوئی سمندری سرحد نہیں لگتی۔ آرمینیا کے مغرب میں ترکی جبکہ مشرق میں آذربائیجان ہے۔ یہ قدیم ترین مسیحی تہذیبوں میں سے ایک ہے۔ 31 لاکھ کی آبادی والے اس ملک میں اکثریت عیسائی افراد کی ہے۔نگورنو کاراباخ باضابطہ طور پر جمہوریہ آذربائیجان کا حصہ ہے اور دار الحکومت باکو سے 270 کلو میٹر (170 میل) مغرب میں اور آرمینیا کی سرحد کے قریب واقع ہے۔اس علاقے پر تنازع اس وقت شروع ہوا جب آرمینیا نے نگورنو کاراباخ پر قبضہ کر لیا۔ اس علاقے کی آبادی مسلمان تھی جس پر آرمینین فوج کے ظلم و ستم کی وجہ سے نہ صرف بیشتر مقامی آبادی کو ہجرت کرنا پڑی بلکہ خواتین اور بچوں سمیت ہزاروں مسلمانوں کو شہید کر دیا گیا تھا۔ سفاک آرمینیائی آرمی نے ایک ہی دن میں6000 نہتے مسلمانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر شہید کیا۔ آرمینیا کے افراد اس سے قبل سوویت یونین کے زیر قبضہ رہتے ہوئے خلافت عثمانیہ کے خلاف بھی لڑتے رہے ہیں۔ انیسویں صدی سے قبل کاراباخ میں آرمینیاکا وجود تک نہیں تھا۔ آذربائیجان نے ہمیشہ آرمینیا کے شہریوں کو خوش آمدید کہا لیکن بعد ازاں وہ اس کے خلاف بطور ہتھیار استعمال ہوئے۔
1988 ء سے 1994 ء تک مختلف وقفوں سے جاری رہنے والی جنگ کے دوران آرمینیا نے نگورنو کارا باخ سمیت سات علاقوں پر قبضہ کر لیا۔ 1994 ء میں جنگ بندی تو ہو گئی؛ تاہم کوئی امن معاہدہ طے نہیں پایا۔ اقوامِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کی منظور کردہ قرارداد میں آرمینیا کی فورسز سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ آذربائیجان کے مقبوضہ علاقوں کو فی الفور خالی کر دیں۔ اس قرارداد میں اس جنگ زدہ علاقے پر 2005ء میں یو این او فیکٹ فائنڈنگ مشن کی رپورٹ بھی پیش کی گئی جس میں تسلیم کیا گیا تھاکہ یہ علاقہ آذربائیجان کا حصہ ہے۔ اگر دیکھا جائے تو اس جنگ کے پس پردہ عوامل اور مذموم مقاصد کچھ اور ہی کہانی بیان کرتے ہیں۔ وہ یہ کہ آذربائیجان میں موجود بیش بہا تیل اور گیس کے ذخائر کو یورپ کسی بھی طرح ہڑپ کرنا چاہتا ہے۔ توانائی کی برآمدات کے لیے اس وقت دو راستے ہیں۔ ایک شمال مغربی روس اور دوسرا جنوب مغربی راستہ قفقاز یا کا کیشیائی ریاستوں سے گزرتا ہے۔ یورپ روس کے بجائے اس راستے کو ترجیح دیتا ہے اور اس سے گزرنے والی دو پائپ لائنیں اس کے لیے اہمیت کی حامل ہیں۔ یورپ اپنی گیس کی ضروریات کو یہاں سے پورا کرنے کے لیے مستقبل میں یہاں سے مزید پائپ لائنوں کی تعمیر کا خواہشمند ہے۔ نگورنو کارا باخ سے بھی چند پائپ لائنیں گزرتی ہیں؛ تاہم یہ پہاڑی علاقہ خود گیس یا تیل پیدا نہیں کرتا۔
اس علاقے میں کشیدگی عالمی منڈی خصوصاً یورپ کو گیس اور تیل کی ترسیل پر اثرانداز ہو سکتی ہے۔ آذربائیجان روزانہ آٹھ لاکھ بیرل تیل پیدا کرتا ہے اور یورپ اور وسطی ایشیا کو تیل برآمد کرنے والا ایک بڑا ملک ہے ۔ حالیہ کشیدگی آذربائیجان کو دباؤ میں رکھنے کے لیے پیدا کی گئی ہے اور یہ جنگ نئے ورلڈ آرڈر کی خبر سنا رہی ہے۔ کچھ شک نہیں کہ ترکی، روس اور چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ نے عالمی سامراج کی نیندیں حرام کر رکھی ہیں۔ یوکرین پر روسی حملے کے بعد امریکہ نے یورپ سمیت اپنے اتحادیوں کو روس کے خلاف ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا۔ چین اور روس کے مابین قبل ازیں تعلقات زیادہ قریبی نہیں تھے لیکن یوکرین کی جنگ کے بعد چین نے جو متوازن پالیسی اختیار کی‘ اس نے اسے امریکہ کے مقابلے میں روس کے زیادہ قریب کر دیا۔ امریکہ کی دوغلی پالیسی اور چین کے مقابلے میں بھارت کو ہلہ شیری دینے کی روش نے بھی چین اور امریکہ کو ایک دوسرے سے فاصلے پر کر دیا ہے۔ ان حالات میں فطری طور پر ایک نیا بلاک تشکیل پا چکا ہے جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف روس، چین، ترکی اور ایران کے باہمی تعاون سے وجود میں آیا ہے۔ دوسری طرف روس کا پاکستان کو پائپ لائن کے ذریعے گیس کی فراہمی کا عندیہ بلاشبہ خوش آئند اور حوصلہ افزا ہے۔ چنانچہ اس لحاظ سے پاکستان، چین اور روس میں باہمی تعاون اور سٹرٹیجک تعلقات خطے کے ساتھ یہاں کے عوام کے لیے بھی پُرامن اور پائیدار مستقبل کے ضامن ہو سکتے ہیں۔ چنانچہ شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس کے توسط سے جو سنہری موقع میسر آیا ہے‘ ضروری ہے کہ پاکستان اس سے بھرپور فائدہ اٹھائے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں