ہندوتوا کی دہشت گردی سے عالمی امن تباہ

''اسلامو فوبیا‘‘ کی سب سے خوفناک اور بھیانک شکل بھارت میں ملاحظہ کی جا سکتی ہے جہاں مختلف حیلے بہانوں سے آئے روز انتہا پسندوں کے ہاتھوں مسلمانوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ مسلم مخالف جذبات نے ہندو قوم پرست حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کے اثر کو مضبوط کیاہے۔ سابق بھارتی وزیراعظم منموہن سنگھ اس امر کا اعتراف کر چکے ہیں کہ بھارت میں مذہب اور نسلی یکجہتی کا غلط استعمال سیاستدانوں کے لیے کوئی مشکل کام نہیں۔ بھارت میں انتہا پسندی اور پاکستان دشمنی کے بارے میں چند اہم حقائق سے پردہ اٹھا تے ہوئے سابق امریکی صدر براک اوباما اپنی کتاب میں رقمطراز ہیں ''مجموعی طور پر بھارتی معاشرہ نسل پرستی اور قوم پرستی پر مرکوز ہے، انتہا پسندی، جنونیت، بھوک، بدعنوانی، عدم رواداری سرکاری اور نجی سطح پر بہت گہرائی تک سرائیت کر چکی ہیں‘‘۔ مشہور عالمی تنظیم جینوسائیڈ واچ کے بانی و محقق ڈاکٹر گریگوری سٹینٹن کے مطابق مسلم مخالف ماحول بنانے کا کام ہندو انتہا پسند تنظیمیں بڑی منصوبہ بندی کے ساتھ کر رہی ہیں اور بھارت میں مسلمانوں کی نسل کشی اب صرف دو مراحل کی دوری پر ہے۔ پانچ فیصد برہمن نے اقلیتوں اور نچلی ہندو ذاتوں پر ظلم کا بازار گرم کر رکھا ہے، انسانی و آئینی حقوق سے انکار اور سماجی و اقتصادی حالت خراب ہونے سے مسلمان مستقل خوف اور عدم تحفظ کا شکار ہیں۔ آر ایس ایس اور 'را‘کی جانب سے پھیلائے گئے نفرت انگیز نظریات اور امتیازی قوانین نے کروڑ وںمسلمانوں کے خلاف خوف و تشدد کی ایک لہر پیدا کر رکھی ہے۔ اسلامی عائلی قوانین پر اٹھائے جانے والے اعتراضات میں حجاب انتہاپسندوں کے خصوصی نشانے پر ہے۔ بی جے پی حکومت نے اقلیتوں‘ خاص طور پر مسلمانوں کے حقوق کو غصب کرنے کے لیے نئے سٹیزن ایکٹ کی آڑمیں جو مذموم پروگرام بنایا‘ اس پرعالمی برادری کی مجرمانہ خاموشی سوالیہ نشان ہے۔ مذہب اور عقیدے کے نام پر اقلیتوں کے حقوق کو پامال کرنا انسانی اخلاقیات، عالمی ضوابط اور قانون کی صریح خلاف ورزی ہے۔
اقوام متحدہ اور دیگر عالمی ادارے پوری دنیا میں انسانی حقوق کی بحالی کانعرہ بلند کیے ہوئے ہیں لیکن مقبوضہ کشمیر کی خون آلود جھیلیں، جلتے چنار، بلکتے بچے، چیختی عورتیں، گمنام قبریں، سنسان بازار، نعشوں سے بھری گلیاں اور ویران بازا ر انہیں نظر نہیں آرہے۔ ہندوتوا اور آر ایس ایس کی سوچ کی حامل بی جے پی سرکار کشمیر کی خصوصی حیثیت مٹانے کے لیے مقبوضہ جموں و کشمیر میں آبادیاتی تناسب تبدیل کرنے کے درپے ہے تاکہ نریندرمودی کے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل ہو سکے۔ یو این او کو چاہئے کہ نریندر مودی کی ہٹ دھرمی، جارحیت و بربریت اور امتیازی قوانین کے نفاذ کا فوری نوٹس لے کر بھارت میں مظلوم مسلمانوں اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ یقینی بنائے۔ عصرِ حاضر میں مسلمانوں سے ان کی تہذیب و ثقافت اور دینی تشخص چھینے کے لیے یہود و ہنود کے تابڑ توڑ حملے جاری ہیں۔ بھارتی دہشت گرد تنظیم ''آر ایس ایس ‘‘کوسی آئی اے ''سیفرون ٹیرر ازم‘‘ کا نام دے کر اس امر کا اعتراف کر چکی ہے کہ بی جے پی اس کا پولیٹکل چہرہ ہے۔ سَنگھ پریوارکے بینر تلے پچاس سے زائد شدت پسندتنظیمیں‘جن میں آر ایس ایس، بھارتیہ جنتا پارٹی، ویشوا ہندو پریشد، شیو سینا اور بجرنگ دَل نمایاں ہیں‘ اپنے ہولناک نظریات کو عملی جامہ پہنانے کے لیے مسلسل سرگرمِ عمل ہیں۔
آر ایس ایس بنیادی طور پر ایک فرقہ پرست اور مسلم دشمن تنظیم ہے جس کا مقصد بھارت میں ہندوراشٹر کا قیام ہے، ایسی ہندوراشٹر (ریاست) جس میں اقلیتوں اور نچلی ذاتوں کی حیثیت دوسرے بلکہ تیسرے درجے کے شہری کی سی ہوگی۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) 1925ء میں ناگپور میں قائم ہوئی تھی اور اس کا بانی کیشوبالیرام ہیگوار (Keshav Baliram Hedgewar) تھا۔ اس تنظیم کے قیام کا مقصد ہندوؤں کو متحد کرنا اور بھارت کو ایک ہندو ملک میں تبدیل کرنا تھا اور اس کی بنیادیں فاشزم پر رکھی گئیں۔ اس وقت آر ایس ایس کی سربراہی موہن بھاگوت کے ہاتھ میں ہے جو متعدد مرتبہ بھارت کو ہندو راشٹر قرار دے چکا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ ''یہاں کا ہر باشندہ بنیادی طور پر ہندو ہے۔ وہ مسلمان ہو، عیسائی ہو یا سکھ ہو، اسے بہرصورت واپس ہندو بننا ہوگا‘‘۔ تاریخی شواہد سے یہ واضح ہے کہ آر ایس ایس ایڈولف ہٹلر اور مسولینی جیسے ڈکٹیٹروں اور فاشسٹ رہنمائوں کو اپنا آئیڈیل مانتی ہے اور تشدد وجارحیت کے ذریعے ہندوستانی اقلیتوں کے حقوق کو پامال اور انہیں دیس سے نکال باہر پھینکنا اس کا بنیادی مقصد ہے۔ آج پورے بھارت میں اس کی برانچز کا جو جال پھیلا ہوا ہے‘ درحقیقت وہ اِسی فاشسٹ ذہنیت کی آبیاری کرتی ہیں اور انہی کے ذریعے ہندوتوا کی آڑ میں فاشزم کے زہریلے جراثیم پھیلائے جا رہے ہیں۔
برصغیر میں برطانوی عہد میں اس پر پابندی عائد کی گئی تھی اور خود بھارت میں بھی اس پر دو بار قدغن لگائی جاچکی ہے۔ بھارت میں دنگے فساد کرانے میں یہ تنظیم سرفہرست ہے۔ 1927ء کا ناگپور فساد اس حوالے سے اولین اور اہم ترین مثال ہے۔ 1948ء میں اسی تنظیم کے ایک رکن نتھو رام گوڈسے نے موہن داس گاندھی کو قتل کردیا تھا۔ ان لوگوں کے نزدیک آج بھی گوڈسے ایک ہیرو اور گاندھی ایک ولن ہے۔ یہ 1969ء میں احمد آباد فساد، 1971ء میں تلشیری فساد اور 1979ء میں بہار کے ضلع جمشید پور کے مسلم کش فسادات میں بھی ملوث تھی۔ 6 دسمبر 1992ء کو سنگھ پریوار ہی نے دیگر ہندو فرقہ پرست تنظیموں کے ساتھ مل کر بابری مسجد کو شہید کیا تھا۔ واضح رہے کہ آر ایس ایس کے آدرشوں کے مطابق سرگرم ہندو انتہا پسند تنظیموں کو ''سَنگھ پریوار‘‘ کہا جاتا ہے۔ متعدد تحقیقاتی کمیشنوں نے آر ایس ایس کو بھاگلپور فسادات 1989ء، ممبئی فسادات 1992ء اور گجرات فسادات 2002ء میں بھی ملوث قرار دیا۔ دو سال قبل دہلی میں ہوئے مسلم کش فسادات میں بھی سنگھ پریوار ہی ملوث تھا۔ برطانوی دورِ تسلط میں آر ایس ایس پر سب سے پہلے پابندی پنجاب کے وزیراعظم ملک خضر حیات ٹوانہ نے 24 جنوری1947 ء کو لگائی تھی جو 28 جنوری 1947ء کو‘ محض چار دن بعد ہی ہٹا لی گئی۔ دوسری پابندی گاندھی کے قتل پر لگائی گئی تھی کیونکہ گوڈسے اسی جماعت کا رکن تھا، تیسری پابندی بابری مسجد کے شہیدکیے جانے اور فسادات کرانے پر لگائی گئی تھی لیکن یہ پابندی بھی جلد ہی ختم کردی گئی۔ آر ایس ایس سے ملحق دیگر انتہا پسند دہشت گرد تنظیموں میں ویشواہندو پریشد، ون بندھو پریشد، راشٹریہ سیوکاسمیتی، اکھل بھارتی ویارتھی پریشد، ونواسی کلیان آشرم، بھارتی مزدور سَنگھ، ودیا بھارتی، ہندو مہاسبھا شامل ہیں۔
ڈنمارک کے سکالر تھامس بلوم ہینسن نے اپنی کتاب The Saffron Wave: Democracy and Hindu Nationalism in Modern India میں لکھا ہے ''آر ایس ایس کو جمہوری اقدار میں محض برائے نام دلچسپی ہے، یہ اپنے قیام سے لے کر اب تک بھارت کو ''ہندو راشٹر‘‘ یعنی ہندو ریاست بنانے کے مشن پر لگی ہوئی ہے، وہ ہندوازم کو مذہب نہیں بلکہ زندگی گزارنے کا ایک طریقہ کہتی ہے‘‘۔ یہ امر کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کہ کس طرح اس تنظیم کے بانی نے 1927 ء میں مسلمانوں کے خلاف 100 سویم سیوکوں کو تیار کیا تھا اور لکشمی پوجا کے دن مسجد کے سامنے ڈھول باجے کے ساتھ جلوس لے جانے کی کوشش کی تھی اور جب مسلمانوں نے ان افراد روکا تو پلاننگ کے مطابق آر ایس ایس کے کارکن تیار تھے اور انہوں نے مسلمانوں کو اس علاقے کو چھوڑنے پر مجبور کر دیا‘‘۔ بھارت اس وقت پوری طرح دہشت گرد اور انتہا پسند ہندوئوں کے نرغے میں گھر چکا ہے۔ ایم ایس گولوالکر کی کتاب ''ہم یا ہماری قومیت کی وضاحت‘‘ سے مودی کی سیاسی تنظیم کے اراکین کی فکر واضح ہو جاتی ہے۔ واضح رہے کہ گولوالکر 1940ء میں کیشو بالیرام کے بعد آر ایس ایس کا سربراہ بنا تھا۔ وہ لکھتاہے کہ ''وہ ایک منحوس دن تھا جب مسلمانوں نے ہندوستان پر قدم رکھا، اس دن سے آج تک ہندو قوم ان کے خلاف بہادری سے جنگ کررہی ہے جس کے باعث اب ان میں قومیت کا احساس اجاگر ہونے لگا ہے‘ ہندوستان میں ہندوئوں کو ہی رہنا چاہیے، باقی سب قومیتوں سے تعلق رکھنے والے غدار اور قومی مفاد کے دشمن ہیں، سادہ الفاظ میں اگر بیان کیا جائے تو وہ احمق ہیں۔ ہندوستان میں بسنے والی تمام قوموں کو ہندوئوں کے زیرِ نگیں رہنا چاہیے، وہ کوئی حق مانگیں اور نہ ہی کوئی مراعات۔ ترجیحی برتائو اور شہری حقوق کا مطالبہ بھی نہ کریں۔ اپنی قوم اور ثقافت کو دوسری قوموں کے اثرات سے بچانے کے لیے جرمنی نے یہودیوں سے اپنی دھرتی کو پاک کرکے دنیا کو ورطۂ حیرت میں ڈال دیا تھا، اہلِ جرمنی میں قومیت کا فخر پیدا کیا گیا، اس میں ہمارے لیے بہت سے اسباق پنہاں ہیں‘‘۔
آرایس ایس اور بی جے پی ایک ہی سکے کے دو رُخ ہیں۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کو بھارت کی دہشت گرد تنظیموں کی ماں کہا جائے تو بے جا نہیں ہو گا۔ اگرچہ بھارت میں حکومت بی جے پی کی ہے ہے لیکن اس کی باگ ڈور آر ایس ایس کے ہاتھوں میں ہے۔ دراصل آر ایس ایس اور بی جے پی کا ایک ہی مقصد ہے کہ کسی طرح بھارت کو ہندو ریاست بنا دیاجائے۔ مسلم کش فسادات، گائے کے گوشت پر قتل و غارت گری، گھر واپسی مہم، مسجدوں کو مندر قرار دینے کی مہم، ما ب لینچنگ، طلاقِ ثلاثہ کا مسئلہ، نقاب وحجاب پر قد غنیں، مدرسے کی تعلیم پر فتنہ کھڑا کرنا اور اب یکساں سول کوڈ کا ایشو، دراصل یہ سب مسلم طبقے کو الجھانے کے مختلف ہتھکنڈے ہیں تاکہ مسلمانوں کو دوسرے درجے کا شہری بنایا جا سکے۔ اسی لیے مسجدوں سمیت مسلم املاک پر بلڈوزر چلا کر وہ کام کیے جا رہے ہیں جو آئینی و قانونی طور پر نہیں کیا جا سکتے۔ مسلم نوجوانوں کو بغیر کسی جرم کے سلاخوں کے پیچھے دھکیلا جا رہا ہے۔ دراصل اس کے پیچھے ان کا مقصد یہی ہے کہ مسلمانوں کو پسماندہ رکھا جائے تاکہ وہ اپنے حق کے لیے آواز نہ اٹھا سکیں۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی بھی اب اعلانیہ اس عزم کا اظہار کر رہے ہیں کہ وہ آر ایس ایس کے قیام کے سو سال پورے ہونے پر یعنی 2025ء تک‘ پورے بھارت کو '' ہندو ریاست‘‘ کا روپ دینے کی کوشش کریں گے۔ اگر دنیا نے اس تنظیم کی دہشت گردی کا فوری نوٹس نہ لیا تو عنقریب یہ دنیا بھر کے امن کے لیے داعش سے بھی بڑا خطرہ ثابت ہو گی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں