سانحۂ سقوطِ مشرقی پاکستان اور چند حقائق

سابق سپہ سالار عساکرِ پاکستان جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے الوداعی خطاب میں1971ء کے حوالے سے کہا کہ ''میں کچھ حقائق درست کرنا چاہتا ہوں؛مشرقی پاکستان کا سانحہ ایک عسکری نہیں‘ سیاسی ناکامی تھی، لڑنے والے فوجیوں کی تعداد 92 ہزار نہیں بلکہ صرف 34 ہزار تھی۔ 34 ہزار افراد کا مقابلہ ڈھائی لاکھ بھارتی فوج اور دو لاکھ ٹرینڈ مکتی باہنی سے تھا۔ 1971ء میں پاک فوج بہادری سے لڑی اور بے مثال قربانیاں پیش کیں، پاک فوج کی قربانیوں کا اعتراف بھارتی فوج کے آرمی چیف نے بھی کیا مگر پاکستانی قوم نے ان فوجیوں کی قربانیوں کا اعتراف آج تک نہیں کیا جو بڑی زیادتی ہے‘‘۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہماری فوج مشرقی پاکستان میں جوش وجذبے اور جرأت و بہادری سے لڑ ی۔ یہ بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے کہ سقوطِ ڈھاکہ میں پاکستان کے 34 ہزار سے زائد فوجیوں نے دشمنوں کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالے بلکہ وہ اپنے اس وقت کے حکمرانوں کی مفاد پرستی اور منافقت کی بھینٹ چڑھے۔ اس آگ و خون کے معرکے میں پاک فوج کے افسروں اور جوانوں نے جرأت و دلیری کی بے شمار روشن مثال قائم کیں۔ غازیوں اور شہیدوں نے آزمائش کی اس گھڑی میں ایمان، غیرت، بہادری، استقامت، برداشت، وفاداری اور سب سے بڑھ کر اپنے شوقِ شہادت کو ثابت کیا۔ افسوس !وطن کے بیٹوں‘ جو ملک کی سالمیت کی خاطر قربان ہو گئے‘ کی لاشوں کی بے حرمتی کی گئی۔ بہت سے افراد کو تو کفن، جنازہ اور قبریں تک نصیب نہ ہو سکیں۔ ہر سال 16 دسمبر کو ''سرنڈر‘‘ کی کہانی تو خوب مرچ مسالا لگا کر پیش کی جاتی ہے لیکن مشرقی پاکستان میں پاک فوج و مجاہدوں کے کارناموں کا ذکر تک نہیں کیا جاتا۔ اس جنگ میں بحریہ و فضائیہ کے کارناموں کو تو بالکل ہی فراموش کر دیا گیا ہے۔
فخرِ وطن میجر شبیر شریف شہید نے1971 ء کی جنگ میں دشمن کو منہ توڑ جواب دیا۔ 5 اور 6 دسمبر کی درمیانی رات گھمسان کی جنگ میں میجر شبیر شریف نے بھارت کی 4 جاٹ رجمنٹ کے کمپنی کمانڈر میجر نرائن کو للکارا، دست بدست لڑ ائی میں اُسے ہلاک کیا اور اہم دستاویزات قبضے میں لیں۔ 6 دسمبرکی دوپہر میجر شبیر شریف نے دشمن کا ایک اور حملہ پسپا کیا، اسی دوران دشمن کے ٹینک کا ایک گولا انہیں لگا اور وہ جامِ شہادت نوش کر گئے۔ یاد رہے کہ میجر شبیر شریف سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے بڑے بھائی تھے۔ میجر شبیر شریف شہید پاک فوج کے واحد آفیسر ہیں جنہیں دو ستارۂ جرات ملے اور پھر نشانِ حیدرسے نوازا گیا۔ مشرقی پاکستان کے ضلع بوگرا دیناج پور کے قصبہ ہلّی میں بھارت کی جانب سے مکتی باہنی کے غنڈوں کے لیے اسلحہ اور افرادی قوت کی رسد کو میجر محمد اکرم کی قیادت میں صرف 42 سپاہیوںنے روکے رکھا اور دشمنوں کے پانچ سو سے زائد افراد کو جہنم واصل کیا۔ یہ وہ مجاہدینِ تھے جنہوں نے خون کے آخری قطرے تک مقابلہ کیا اور بالآخر شہادت کا جام پیا۔ اس دستے کے ہوتے ہوئے مشرقی پاکستان کی شہ رگ بھارت اور بنگلہ دیش بنانے والوں کے ہاتھ میں نہیں آ سکی۔ ہلّی سیکٹر کے اس معرکے کے عظیم ہیرو میجر محمد اکرم شہید کو نشانِ حیدرسے نوازا گیا، شہید میجر اکرم کو مشرقی پاکستان کے شہر دیناج پور میں دفن کیا گیا جہاں آج بھی ان کی آرام گاہ مشرقی پاکستان میں پاک فوج کی قربانیوں کی یاد دلاتی ہے۔
پاک فضائیہ بھی وطن کے دفاع میں کسی سے پیچھے نہ رہی۔ فلائٹ لیفٹیننٹ سعید افضل خان، فلائٹ لیفٹیننٹ پی کیومہدی (جوبعد میں پاک فضائیہ کے سربراہ بھی بنے) فلائنگ آفیسر خلیل احمد اور فلائنگ آفیسر شمس الحق جیسے شاہینوں نے کئی تاریخی معرکے سرانجام دیے۔ انہوں نے ایک کے مقابلے میں دس سکواڈرنز کی برتری رکھنے والے دشمن کے لاتعداد طیاروں کو مار گرایا جو بلاشبہ ایک قابلِ ستائش کارنامہ ہے۔ اسی طرح پاک بحریہ کی آبدوز ہنگور نے بھارتی نیول شپ ککری کو نیست و نابود کیا اور جہاز کرپان کو مفلوج بنا دیا۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد پہلی بار کسی آبدوز نے جنگی جہاز کو تباہ کر کے ایک تاریخ رقم کی۔
تاریخ شاہد ہے کہ1971 ء کی جنگ میں انتہائی نامساعد حالات کے باوجود ہمارے جوانوں اور افسروں نے اپنے حوصلے بلند رکھے۔ اس امر کی شہادت بھارتی فیلڈ مارشل جنرل مانک شا نے بھی اپنے انٹرویو میں دی کہ پاکستان آرمی اور بھارتی فوج میں سپاہ و سازوسامان کا تناسب ایک کے مقابل نو کے برابر تھالیکن پھر بھی پاک فوج مصمم ارادے کے ساتھ ڈٹی رہی۔ کمال پور کے محاذ پر کیپٹن احسان ملک اور ان کے 140 ساتھی مکتی باہنی اور ان کے اتحادیوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بن گئے تھے۔ فیلڈ مارشل جنرل مانک شا نے برطانوی نشریاتی ادارے کو دیے ایک انٹرویو میں کیپٹن احسان ملک کی جرأت و بہادری کو خراجِ تحسین پیش کیا تھا۔ ایک طرف راشن کی قلت تھی تو دوسری طرف پانی اور دلدلی علاقوں میں چل چل کر جوانوں کے پاؤں گل چکے تھے۔ بھوک‘ پیاس اور نیند سے برا حال تھا جبکہ جو نکوں سے ان کا پورا جسم بھرا ہوا تھا۔ یہ سب مشکلات بھی ان کے جذبۂ جہاد و حب الوطنی کو متزلزل نہ کر سکیں۔ ان کے مقابلے میں ایک لاکھ بنگالی سولجرز، ایسٹ پاکستان رائفلز، ایسٹ پاکستان پولیس، دو لاکھ مکتی باہنی، دس ڈویژن بھارتی فوج جسے ہر قسم کی ایئر اور نیول سپورٹ میسر تھی جبکہ توپخانے اور جدید ٹینکوں کی کمک بھی اسے میسر تھی او ر اس پر مستزاد مقامی عوام میں پیدا کی گئی نفرت۔ آج ہماری نئی نسل کو اپنے ان ہیروز کے بارے میں کچھ بھی معلوم نہیں جو اس جنگ میں غازی بنے یا شہید ہوئے۔ انہیں محسوس ہوتا ہے کہ پلیٹ میں رکھ کر مشرقی پاکستان جنرل اروڑا سنگھ کو پیش کر دیا گیا۔
بھارت کے قوم پرست بنگالی رہنما سبھاش چندر بوس (نیتا جی) کی پوتی اور نامورمصنفہ شرمیلا بوس نے اپنی کتاب میں 1971ء میں مشرقی پاکستان کی علیحدگی سے متعلق انکشاف کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستانی فوج نے اپریل‘ مئی (1971ء)تک مشرقی پاکستان کاکنٹرول واپس حاصل کرتے ہوئے معاملے کے سیاسی حل کاموقع پیداکردیاتھا مگرپاکستانی حکمران اورسیاستدان اس وقت اورسنہری موقع سے فائدہ اٹھانے میں ناکام رہے۔ مشرقی پاکستان میں مشکلات کے باوجودبلندحوصلے اورجوانمردی سے لڑنے والے فوجیوں کوعزت دینے کے بجائے ان کی تذلیل کرناناقابلِ فہم ہے۔ شرمیلا بوس کی کتاب ان تمام باتوں کی تردید کرتی ہے جو اب تک 1971 ء کی جنگ کے حوالے سے بیان کی جاتی ہیں۔ کتاب میں تاریخی دستاویز اور حقائق سے ثابت کیا گیا ہے کہ نہ تو اس جنگ میں لاکھوں افراد مارے گئے تھے، نہ ہی بے حرمتیوں کا تناسب بیان کے مطابق تھا اور نہ ہی یہ تشدد پاکستانی فوجیوں نے کیا تھا۔ سانحۂ سقوطِ ڈھاکہ پر اس وقت کی بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے کہا تھا کہ میں نے دو قومی نظریہ خلیج بنگال میں غرق کردیا ہے اور برصغیر پر مسلمانوں کے ہزار سالہ اقتدار کا بدلہ لے لیا ہے لیکن اکھنڈ بھارت کا خواب دیکھنے والی بھارتی قیادت کا یہ خواب کبھی شرمندۂ تعبیر نہیں ہوا۔ دو قومی نظریہ آج بھی زندہ ہے اور ان شاء اللہ ہمیشہ زندہ رہے گا۔ اگر دو قومی نظریہ ختم ہو گیا ہوتا تو مشرقی پاکستان آزاد مملکت بننے کے بجائے مغربی بنگال میں شامل ہوکر بھارت کی ایک ریاست بن جاتا؛ مگر ایسا نہیں ہوا اور آج بھی بنگلہ دیش ایک آزاد اسلامی ملک کی حیثیت سے دو قومی نظریے کو زندہ رکھے ہوئے ہے۔
آج ایک بار پھر ہم دوراہے پر کھڑے ہیں۔ سابق وزیراعظم عمران خان نے اداروں کے خلاف محاذ کھول رکھا ہے۔ صرف پی ٹی آئی چیئرمین ہی نہیں‘ ہر دور میں سیاستدانوں اور حکمرانوں نے حصولِ اقتدار اور کرسی کو دوام بخشنے کی خاطر ملکی وحدت کو نقصان پہنچانے سے دریغ نہیں کیا۔ سابق وزیراعظم نواز شریف بھی اپنے جلسوں میں ''حساب دو‘‘ کے نعرے لگاتے رہے ہیں۔ سوال یہ ہے حکمران و سیاستدان ملک ٹوٹنے کا حساب کب دیں گے؟ کیا صرف مکتی باہنی نے ملک کے ٹکڑے کیے؟ نریندر مودی نے برملا سقوطِ ڈھاکہ میں پاک فوج کے خلاف اپنی کارروائیوں کا اعتراف کیا مگر مودی کے ملک کو ''موسٹ فیورڈ نیشن‘‘ قرار دینے کی کوشش کی گئی‘ بھارت سے تجارت کا سلسلہ رک نہ سکا۔ یہ شہدا کے لہو سے بے وفائی نہیں تو اور کیا ہے؟
موجودہ گمبھیر صورتِ حال میں حکومتی سطح پر اصلاح کی کوئی کاوش نظر نہیں آتی۔ اقتدار کی جنگ میں سیاستدان ایک دوسرے کی کردار کشی میں مصروف ہیں۔ ادھر بھارت بلوچستان میں حالات کو مزید خراب کرنے کے لیے اپنے سبھی وسائل خرچ کر رہا ہے۔ کالعدم ٹی ٹی پی نے دوبارہ سر اٹھا لیا ہے، داعش کا خطرہ بھی منڈلا رہا ہے‘ ایسے میں توانائی بحران‘ مہنگائی و بیروزگاری کے سبب معاشی حالات انتہائی مخدوش ہو چکے ہیں۔ اخلاقیات کا فقدان اور گالم گلوچ کا رجحان بھی نمایاں ہے۔ اگر ہمارے قائدین پارلیمنٹ کے اندر اور باہر باہم دست و گریباں نظر آئیں گے تو اس سے دشمن کو ہمارے اندرونی طور پر کمزور ہونے ہی کا پیغام ملے گا۔ اے پی ایس سانحے کے بعد قوم ایک پیج پر آئی تھی تو نیشنل ایکشن پلان بنا تھا اور بے لگام دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑ دیا گیا تھا۔ بعد ازاںمقبوضہ کشمیر، افغانستان، ایف اے ٹی ایف اے سمیت اہم ایشوز پر ہم یکجا نہ ہو سکے۔ اپنی بے تدبیریوں کے سبب ہماری ایٹمی قوت عالمی استعمارکا ہدف بنی ہوئی ہے۔ اور اسی لیے پاک فوج دشمنوں کو کھٹک رہی ہے جس کا امیج مسخ کرنے کیلئے مذموم مہمیں چھیڑی گئی ہیں۔ حالیہ ادارہ جاتی ٹکرائو کا تاثر بھی ملک دشمن عناصر کی منظم منصوبہ بندی کا حصہ ہے۔ آج پھر قوم کی صفوں میں چھپے میر جعفروں نے انتشار، گروہی و علاقائی منافرت اور عصبیت کی بلیم گیم شروع کر رکھی ہے جس میں نقصان صرف قوم و ملت کا ہو رہا ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں