قطر میں فٹ بال ورلڈ کپ

قطر میں فٹ بال کا عالمی میلہ عربی و اسلامی ثقافت کو مثبت انداز میں اجاگر کر کے اختتام پذیر ہو گیا ہے۔ بلاشبہ یہ فیفا ورلڈ کپ ایک چھوٹے سے مسلم ملک کے نام کے ساتھ تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا کہ کس طرح 220 بلین ڈالر کی لاگت سے دنیا کا مہنگا ترین مگر ایک شاندار ایونٹ منعقد کرکے مغرب کی بالادستی کو چیلنج کیا گیا۔ بعض مغربی ممالک اور میڈیا گروپس قطر کے بہانے عربوں اور دینِ اسلام کے خلاف زہر افشانی کا سلسلہ تاحال جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اہلِ مغرب در اصل فٹ بال پر اپنی اجارہ داری سمجھتے ہیں‘ وہ اس بات کو ہضم نہیں کر پائے کہ ایک عرب مسلم ملک کو فٹ بال کے سب سے بڑے ایونٹ کی میزبانی کا شرف حاصل ہو گیا۔ مغرب کی اس منافقت کو خود فیفا کے چیف نے بھی بے نقاب کیا ہے۔ نام نہاد ترقی یافتہ ممالک کو یہ غلط فہمی تھی کہ کسی میگا سپورٹس ایونٹ کا کامیاب اہتمام عرب یا مسلمان نہیں کرسکتے۔ قطر نے نہ صرف عالمی معیار سے بہتر اہتمام کرکے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا بلکہ اس موقع کو اسلام کی دعوت پیش کرنے کا ایک ذریعہ بھی بنا لیا۔ اگرچہ کھیل کے میدان میں قطر کی ٹیم کوئی خاص کامیابی درج نہیں کرا سکی مگر اس کمی کو مراکش نے نہایت خوش اسلوبی سے پورا کیا۔ مراکش کی ٹیم نے بہترین کھیل پیش کر کے میدان کے اندر اور باہر مسلم ممالک کا ایک دبدبہ قائم کردیا۔ کوارٹر فائنل میں مراکش نے عالمی شہرت یافتہ فٹ بالر رونالڈو کی ٹیم پرتگال کو 0-1 سے شکست دے کر پہلی مرتبہ سیمی فائنل میں جگہ بنائی۔ اس طرح مراکش کو یہ اعزاز بھی حاصل ہوا کہ وہ فٹ بال ورلڈ کپ میں سیمی فائنل تک پہنچنے والی پہلی عرب افریقی ٹیم بنی۔ مراکش ہی کی بدولت ورلڈ کپ میں کوالیفائی کرنے سے محروم رہنے کے باوجود فلسطین کا پرچم کھیل کے میدانوں میں لہرایا گیا۔
قطر نے اسلامی تہذیب کو مقدم رکھتے ہوئے جس طرح ببانگِ دہل اسلام کا تصور دنیا کے سامنے پیش کیا وہ قابلِ تحسین ہے۔ قطر دنیا کو یہ باور کرانے میں بھی کامیاب رہا کہ آج مغرب کے ذریعے پروان چڑھائی گئی کھوکھلی تہذیب سے اگر چھٹکارا پانا ہے تو اسلام جیسا شاندار متبادل موجود ہے۔ اس نے یہ پیغام بھی دیا کہ شراب کے بغیر بھی‘ ایک مہذب ماحول میں کھیل کے مقابلوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ یورپی ٹیموں کے برعکس مراکش کی ٹیم نے دنیا کے سامنے یہ کلچر پیش کیا کہ اسلام عائلی قدروں کو فروغ دیتا ہے۔ مراکش کے سپر سٹار اشرف حکیمی کا ہر جیت کے بعد اپنی ماں کی پیشانی کو بوسہ دینا اور ان کا بے حد احترام کرنا اپنی جیت منانے کے ایک بالکل اچھوتے انداز کو اجاگر کرتا ہے۔ قطر نے اسلام کا پیغام عام کرنے کیلئے جو طریقہ اختیار کیا‘ بلاشبہ وہ دوسرے مسلم ملکوں کیلئے بھی ایک روشن مثال کا درجہ رکھتا ہے۔ اب تک دنیا کے کتنے ہی مسلم ملکوں میں سپورٹس ایونٹس منعقد ہو چکے ہیں لیکن اس طرح کا طرزِ عمل کسی نے نہیں اپنایا۔ افتتاحی تقریب میںناچ گانے کے بجائے ایک جسمانی معذرو نوجوان سے قرآنِ پاک کی تلاوت کروا کر تاریخ رقم کی گئی۔ دراصل فیفا ورلڈ کپ کے کامیاب انعقاد سے قطر نے مسلم امہ کو بھی پیغام دیا کہ مسلمانوں کی کامیابی و کامرانی کاراز صرف اسلام کی سر بلندی میں پوشیدہ ہے۔ انسیت و اپنائیت کے پاکیزہ ماحول میں قطرکے لوگوں کی مہمان نوازی نے مغربی مادہ پرستی کے بت کو پاش پاش کر دیا۔ کہیں پر روایتی کھانوں اور کہیں قہوے سے غیر ملکی شائقین کی تواضع کی گئی۔ خواتین کو حجاب اور مردوں کو روایتی عربی لباس دیے گئے۔ بچے کھجور اور چاکلیٹ پیش کرنے میں پیش پیش رہے۔ بے حسی اور مادہ پرستی کے ماحول میں رہنے والے مغربی سیاح اور شائقین اس بات کا اعتراف کیے بنا نہیں رہ سکے کہ قطر میں انہیں قلبی سکون و اطمینان کے ساتھ پُرامن ماحول میں نہ صرف فٹ بال میچوں سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملا بلکہ عربوں کی ضیافت اور ان کی وسعتِ قلبی کا قریب سے مشاہدہ کرنے کا تجربہ بھی حاصل ہوا۔
فٹ بال میچوں کیلئے آٹھ نئے سٹیڈیمز تعمیر کیے گئے جن میں نماز کیلئے بھی جگہ مختص کی گئی۔ سٹیڈیمز کے قرب وجوار کی تمام مساجد کے دروازے سیاحوں کیلئے کھول دیے گئے جن میں قرآنِ پاک اور دینی کتب کے دنیا کی سبھی اہم زبانوں میںتراجم بھی رکھے گئے۔ اسلامی تعلیمات کی تفہیم کیلئے ہزاروں علمائے کرام مامور کیے گئے جو غیرمسلم شائقین کو خوشدلی اور محبت سے اسلام کی دعوت دینے میں مشغول پائے گئے۔ اہم بات یہ ہے کہ فٹ بال ٹیموں کیلئے جو کیبن بنائے گئے‘ میچ کے بعد تمام تر سہولتوں سے آراستہ یہ گھر نما کیبنز کینیا کے بے گھر لوگوں کو تحفتاً دیے جائیں گے۔ قطر نے اس موقع پر ہم جنس پرستوں کو اپنا پرچم لہرانے کی اجازت بھی نہیں دی جبکہ غیر مناسب لباس پر بھی پابندی عائد کیے رکھی۔ قطر کی جرأت اور بے باکی کو سلام ہے کہ اس نے اس موقع پر فلسطین کا قضیہ ایک بار پھر زندہ کر دیا۔
جنسی بے راہ روی‘ خواتین کا استحصال اورحقوق کے نام پر ہم جنس پرستی کی حمایت مغرب کا شیوہ رہا ہے۔ جرمنی اور برازیل میں منعقد ہونے والے فٹ بال کے عالمی مقابلوں میں فلپائن، تھائی لینڈاور بنکاک جیسے ممالک سے بڑی تعداد میں جسم فروشوں کو لایا گیا تھا۔ عالمی مقابلوں بالخصوص فٹ بال کے عالمی کپ کے ساتھ قحبہ خانوں کی اربوں روپے کی صنعت بھی چلائی جاتی ہے مگر قطر نے ایسے تمام اقدامات کو یکسر رد کر دیا۔ مغرب کو قطرکے اس طرح کے اقدامات کی بدولت طرح طرح کا نقصان برداشت کرنا پڑا جس کی وجہ سے قطر کے خلاف انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگایا گیا۔ یہ وہی مافیا ہے جس نے اسلام کو دہشت گردی سے جوڑنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ مغرب نے مشرق اور خاص طور پر اسلام اور مسلم دنیا کو دیکھنے کا اپنا ایک خاص پیمانہ بنا رکھا ہے جس میں حقارت اوربے جا عداوت کا پہلو غالب ہے۔ مغربی ہسٹریا کی کیفیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ فرانس کے ایک اخبار نے قطر کے فٹ بال کھلاڑیوں کے کارٹون بناکر انہیں دہشت گرد تک کہنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ ایک برطانوی میڈیا گروپ نے سب سے پہلے قطر کے خلاف پروپیگنڈے کا سلسلہ شروع کیا اور الزام لگایا کہ قطر کو فیفا ورلڈ کپ کی میزبانی کا اعزاز کرپشن کے ذریعے حاصل ہوا۔ سوال یہ ہے کہ آخر قطر کی میزبانی سے مغرب کو کیا پریشانی لاحق ہے؟ قطرنے حقوقِ انسانی کے حوالے سے کن جرائم کا ارتکا ب کیا؟ دراصل مغرب صدیوں سے نفسیاتی بالادستی کے زعم کا شکار ہے۔ اسے گمان ہے کہ برتری کا مستحق وہی ہے۔ جب فٹ بال کا عالمی کپ مسولینی کی موجودگی میں اٹلی میں ہو سکتا ہے اور اسے ورلڈ کپ کے دوران اپنے فسطائی ایجنڈے کا پروپیگنڈا کرنے کی اجازت مل سکتی ہے تو قطر میں عالمی مقابلے کے انعقاد پر سوالیہ نشان لگانے والوں کو ایک مرتبہ آئینہ ضرور دیکھ لینا چاہیے۔
فٹ بال کا اگلا عالمی مقابلہ امریکہ، کینیڈا اور میکسیکو میں ہونے والا ہے۔ وہ امریکہ‘ جس نے عراق اور افغانستان کے شہروں کو کھنڈروں میں تبدیل کردیا، جس نے بے گناہوں پر لاکھوں ٹن بم برسا کر انہیں موت کی نیند سلا دیا، جس نے نیوکلیائی ہتھیاروں کو استعمال کر کے انسانیت کی تذلیل کی‘ اس کے باوجود وہ آج انسانی حقوق کا چیمپئن اور اگلے عالمی کپ کی میزبانی کا مستحق گردانا گیا ہے۔
قطر سے پہلے 1985 ء میں انگلینڈ نے مخصوص ایریا کے علاوہ سٹیڈیم میں شراب کی فروخت پر پابندی عائد کی تھی‘ سکاٹ لینڈ میں 1980ء سے سٹیڈیمزمیں شراب کی فروخت پر پابندی عائد ہے۔ فرانس کے سٹیڈیم میں بھی اس پر جزوی پابندی عائد ہے۔ 2018ء میں روس نے بھی عالمی کپ کے دوران سٹیڈیمز میں شراب کی فروخت پر پابندی عائد کی تھی‘ صرف قطر کے پابندی عائد کرنے پر اس قدر واویلا کیوں مچایا گیا؟ اب دیکھنا یہ ہے کہ قطر نے فٹ بال ورلڈکپ کے ایونٹ کے انعقاد کی آڑ میں عالمی استعمار کی تہذیبی و ثقافتی برتری کے خلاف جوجنگ چھیڑی ہے‘ وہ کس انجام کو پہنچتی ہے۔ البتہ قطر نے فٹ بال کے عالمی کپ کے کامیاب انعقاد کے ذریعے عالمی امن و بھائی چارے میں اسلام کے مثبت کردارکو پیش کر کے دنیا پرثابت کر دیا کہ پُر امن بقائے باہمی کیلئے ایک دوسرے کی تہذیب و تمدن کا احترام کرنا سیکھنا ہو گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں