دہشت گردی کی نئی لہر اور سکیورٹی اقدامات

وفاقی دارالحکومت سمیت مختلف علاقوں میں دہشت گردانہ حملوں کے مذموم سلسلے کی بحالی سے امن اور ملکی سالمیت کے لیے دی گئی قربانیوں کے زائل ہونے کاخدشہ تقویت پکڑتا جارہا ہے۔ دہشت گردوں اور افغان فورسز کے حملوں کے خلاف سخت احتجاج‘ افغان ناظم الامور کی دفترِ خارجہ طلبی اور کابل انتظامیہ کی جانب سے آئندہ ایسے واقعات کا اعادہ نہ ہونے کی یقین دہانیوں کے باوجود پاکستان کے خلاف جارحیت کا سلسلہ رک نہ سکا۔ حالانکہ جس طرح افغانستان میں قیامِ امن کیلئے کوششیں کی گئی تھیں‘اس تناظر میں تو یہ امید تھی کہ مستقبل میں دونوں ملکوں کے مثالی تعلقات استوار ہوں گے۔ افغانستان اور پاکستان کے مابین 2640کلو میٹر طویل سرحد موجود ہے لہٰذابدامنی یا افغانستان میں خانہ جنگی کی صورت میں افغان پناہ گزینوں کا پاکستان پر دبائو بڑھتا ہے جس کے منفی اثرات ملک کے سماجی و معاشی نظام پر مرتب ہوتے ہیں۔ ایسے میں پُرامن افغانستان ہی پاکستان کے مفاد میں ہے مگر کالعدم ٹی ٹی پی کی جانب سے جنگ بندی کا معاہدہ ختم کرنے کے اعلان کے بعد دہشت گردانہ کارروائیوں کا ایک بار پھر سے آغاز ملکی سالمیت اور شہریوں کے جان و مال کے تحفظ کے حوالے سے ایک سنگین چیلنج بن چکا ہے۔ پاکستان کی عسکری قیادت دہشت گردی کے عفریت کے خاتمے کے لیے پُرعزم ہے اور اس نے اس مقصد کے لیے حکمتِ عملی تیار کر لی ہے جس کے تحت دہشت گردوں کو ان کے ٹھکانوں پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
دیگر صوبوں کی نسبت خیبرپختونخوا گزشتہ چند سالوں میں دہشت گردی کاسب سے زیادہ شکار ہوا ہے۔ اس صوبے کا جغرافیائی محل وقوع چونکہ پیچیدہ اور افغانستان سے متصل ہے‘ جبکہ قبائلی علاقے‘ جو پہلے فاٹا کہلاتے تھے‘ کالعدم تنظیموں کے مضبوط گڑھ رہے ہیں۔ گزشتہ نو‘ دس سالوں سے کے پی میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے اور تحریک انصاف کو بخوبی علم ہے کہ صوبہ اس وقت پوری طرح دہشت گردی کی نئی اٹھنے والی لہر کی زد میں ہے۔صوبائی حکومت کے انسدادِ دہشت گردی کے اقدامات کی قلعی اس وقت کھلی جب پتا چلا کہ صوبے میں سی ٹی ڈی کاجو بجٹ ہے‘ اس کا 96فیصد محض تنخواہوں پر خرچ ہوتا ہے جبکہ پیچھے صرف4فیصد بچتا ہے۔نہ ہتھیار، نہ کوئی ٹریننگ۔انٹیلی جنس نیٹ ورک کا بھی فقدان جس کی مدد سے دہشت گردوں پر قابو پایا جا سکتا۔ عالم یہ ہے کہ حالیہ دنوں میں لکی مروت میں پولیس قافلے پر حملہ ہوا‘ بنوں میں کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ (سی ٹی ڈی )کے کمپائونڈکودہشت گردوں نے یرغمال بنائے رکھا۔ جسے بعد ازاں ایک کامیاب آپریشن کے ذریعے پاک فوج کے سپیشل سروس گروپ (ایس ایس جی) نے بازیاب کرایا۔ اگر پاک فوج آپریشن نہ کرتی تو کیا صوبائی حکومت میں اتنی سکت تھی کہ ایک چھوٹے سے تھانے میں دہشت گردوں پر قابو پا سکتی؟
بنوں میں خیبر پختونخوا کے کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے تھانے پر دہشت گردانہ حملے نے صوبائی انسدادِ دہشت گردی کے محکمے کی صلاحیت کو بے نقاب کر دیا ہے کہ کے پی کا کائونٹر ٹیررز ام ڈیپارٹمنٹ دہشت گردی کے بڑے واقعات کا سامنا کرنے کے باوجود اپنی استعدادِ کار بڑھانے پر کوئی توجہ نہیں دے رہا جبکہ صوبائی حکومت کی بھی اس پر کوئی توجہ نہیں ہے۔ پنجاب اور کے پی میں اس محکمے میں تنخواہوں کا فرق 70 فیصد تک ہے۔ یہیں پر بس نہیں‘ کے پی میں سیکرٹریٹ کے ملازمین کو کسی بھی سی ٹی ڈی افسر سے اوسطاً 70 فیصد زیادہ تنخواہ ملتی ہے۔اس کے علاوہ سی ٹی ڈی میں انفراسٹرکچر کا بھی فقدان ہے،اس محکمے کا کوئی صوبائی ہیڈ کوارٹر نہیں۔پورا محکمہ ایک کرائے کی عمارت میں ایک پورشن میں قائم ہے‘ اس عمارت کا تہہ خانہ صوبائی پولیس کے ایمونیشن ڈپو کے طور پر استعمال ہوتا ہے؛ یعنی یہ اہم ترین دفتر دھماکہ خیز مواد کے ڈھیر پر ہے۔ بنوں میں چار علاقائی ہیڈکوارٹر پچھلے کئی سالوں سے زیرِ تعمیر ہیں مگر عملاً ان میں سے کچھ پر ابھی تک کام بھی شروع نہیں ہو سکا ہے۔
گزشتہ ایک سال کے دوران پنجاب کو دہشت گردی کے پانچ بڑے واقعات کا سامنا کرنا پڑا جبکہ کے پی میں ایسے 704 واقعات پیش آئے جن میں 305 افراد ہلاک اور 689 زخمی ہوئے۔دہشت گردی کی بڑھتی کارروائیوں کے باوجود کے پی حکومت انسدادِ دہشت گردی کے معاملے پر زیادہ توجہ نہیں دے رہی، اور اس سے نمٹنے والا محکمہ اس چیلنج کے مقابلے میں قدرے کمزور ہے۔سی ٹی ڈی کو درپیش اہم مسائل یہ ہیں: خریداری کے لیے کم بجٹ، آلات کی اَپ گریڈیشن، انسانی وسائل کی تربیت، آپریشنز کے لیے انفراسٹرکچر جبکہ سب سے بڑا مسئلہ سینئر رینک کے افسران کی شدید کمی ہے۔ محکمے میں صرف ایک سینئر ایس ایس پی رینک کا افسر ہے جو قائم مقام ڈی آئی جی کے طور پر بھی کام کر رہا ہے۔ اس کے برعکس سی ٹی ڈی پنجاب میں تقریباً 18 سینئر رینک کے افسران اور دو ڈی آئی جیز ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا کہ خیبرپختونخوا سی ٹی ڈی میں دیگر تمام صوبوں سے زیادہ تعیناتیاں ہیں۔اس کے باوجود سی ٹی ڈی کے انسانی وسائل غیر تربیت یافتہ اور کم تعلیم یافتہ ہیں۔ لمحۂ فکریہ تو یہ ہے کہ محکمے کے افسروں اور جوانوں کی تربیت کے لیے پچھلے دو سالوں میں کوئی گرانٹ جاری نہیں کی گئی۔ تربیتی سامان کی بھی کمی ہے اور مستقبل قریب میں انہیں حاصل کرنے کا کوئی منصوبہ بھی زیرِ غور نہیں۔ محکمہ مالی طور پر بھی شدید نقصان اٹھا رہا ہے۔
گزشتہ سال پنجاب سی ٹی ڈی کو آپریشنز فنڈ کے طور پر 276 ملین روپے دیے گئے جبکہ سی ٹی ڈی کے پی کو محض 8 ملین روپے ملے۔ اس کا مطلب ہے کہ پنجاب نے 276 ملین روپے کے ساتھ تین بڑے دہشت گردی کے واقعات کا سامنا کیا‘ دوسری جانب کے پی کا کاؤنٹر ٹیررازم ڈپارٹمنٹ 8 ملین روپے میں 300 سے زیادہ دہشت گردی کی کارروائیوں سے نبرد آزما ہوا۔کے پی سی ٹی ڈی کا مجموعی بجٹ پنجاب کے لیے مختص رقم کے نصف سے بھی کم ہے۔کے پی کو تنخواہوں سمیت 2180 ملین روپے ملے جبکہ پنجاب کو 4700 ملین روپے۔ اس رقم کا زیادہ تر حصہ تنخواہوں اور الاؤنسز پر خرچ ہوتا ہے۔ کل 2180 ملین روپے کا 4 فیصد سے بھی کم (8 ملین روپے) آپریشنز پر خرچ ہوئے جبکہ اس کے مقابلے میں پنجاب میں 276 ملین روپے آپریشنز پر خرچ ہوئے۔ کے پی سی ٹی ڈی میں انعامی رقم 70 ملین روپے ہے جبکہ پنجاب میں یہ 475 ملین روپے ہے۔ سی ٹی ڈی کے شہدا پیکیج میں پنجاب اور خیبرپختونخوا میں 150 فیصد کا فرق ہے۔ مالی صورتحال کی خرابی کے سبب کے پی میں اہلکاروں کے لیے مراعات کی شدید کمی ہے۔اہلکاروں کے لیے رہائش کی بھی کوئی سہولت نہیں ہے‘ یہاں تک کہ ڈی آئی جی کے پاس بھی رہنے کو کوارٹر نہیں ہے اور وہ صوبائی حکومت سے درخواست کر رہے ہیں کہ کینٹ کے اندر انہیں رہائش فراہم کی جائے لیکن کوئی شنوائی نہیں ہو رہی۔ عجیب بات یہ ہے کہ دیگر محکموں کے تمام سیکرٹریوں کو مکانات الاٹ کیے جا چکے ہیں۔کے پی سی ٹی ڈی کے لیے کوئی ٹریننگ سکول نہیں ہے اور اس مقصد کے لیے یہ مکمل طور پر سی ٹی ڈی پنجاب پر منحصر ہے؛ تاہم پنجاب سی ٹی ڈی کی زیر قیادت تربیت اکثر مہنگی ہوتی ہے اور اسی لیے عمومی طور پر اس کی منظوری نہیں لی جاتی۔
سابقہ فاٹادہشت گردی کی سرگرمیوں کا اہم مرکز رہا ہے‘ انضمام کے باوجود ان اضلاع میں بنیادی ڈھانچے کا فقدان ہے اور ابھی تک افرادی قوت کی تعیناتی تک عمل میں نہیں لائی گئی۔ ان علاقوں میں سی ٹی ڈی کے اہلکاروں کو لیویز اور خاصہ داروں سے نامزد تو کیا گیا تھا مگر کوئی تربیت نہیں دی گئی۔ تمام ضلعی دفاتر گزشتہ دو سال سے زیرِ تعمیر ہیں جبکہ خیبر اور مہمند میں ضلعی دفاتر کی تعمیر پر بھی کام شروع نہیں ہو سکا۔ اس کے علاوہ کے پی سی ٹی ڈی کے پاس سائبر صلاحیت کی بھی شدید کمی ہے۔ پنجاب سی ٹی ڈی کے محکمے کو سٹیٹ آف دی آرٹ کا درجہ حاصل ہے اور جدید ترین سائبر سہولت موجود ہے مگر خیبر پختونخوا میں ایسی کوئی سہولت میسر نہیں جبکہ محکمہ کو جی ایس ایم لوکیٹرز، جیمرز کے لیے مین پیک لوکیٹر، کمیونیکیشن سسٹم کی اَپ گریڈیشن، نائٹ فائٹنگ کی صلاحیت اور سائبر صلاحیت کے انفراسٹرکچر کی بھی اشد ضرورت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں