دہشت گردی کی نئی لہر‘ ایک ابھرتا خطرہ

وطنِ عزیز میں 2022 ء کا خاتمہ دہشت گردی کی نئی لہر سے ہوا اور نیا برس یعنی 2023ء ملکی سالمیت اور امن کی بحالی کے حوالے سے ایک سنگین چیلنج لے کر سامنے آیا ہے۔ گزشتہ دنوں کور کمانڈرز کانفرنس میں بلا تفریق دہشت گردی کے عفریت کو کچلنے کے عزم کا اعادہ کیاگیا۔ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بھی حکومت اور عسکری قیادت کی جانب سے اس حوالے سے اہم فیصلے کیے گئے۔ اس ضمن میں ضروری ہے کہ اپوزیشن بھی بھرپور تعاون کرے۔ یہ ایک ایسا مسئلہ ہے جس پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ نہیں ہونی چاہیے۔ اب 2023 ء کے ابتدائی ماہ ثابت کریں گے کہ کیا ہم دہشت گردی کے بڑھتے ہوئے خطرے کے خلاف اکٹھے ہونے کے لیے دانشمندی اور پختگی کا مظاہرہ کر سکتے ہیں یا ہماری زہریلی سیاست نے ہمیں تباہی کے دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے۔ ایک اور چیلنج بلوچستان میں باغیوں اور کالعدم ٹی ٹی پی کا گٹھ جوڑ ہے جبکہ افغان طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے اب تک اندرونِ ملک 420 دہشت گرد حملے ہو چکے ہیں۔ گزشتہ تین ماہ میں کالعدم ٹی ٹی پی نے 141 حملوں کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ 2014 ء کے بعد‘ اب دوبارہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں خودکش حملہ ہوا ہے جس نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔ کالعدم ٹی ٹی پی کو سرحد پار محفوظ پناہ گاہیں ملی ہوئی ہیں جن کو 'ریڈ لائن‘ قرار دیا گیاہے اور افغان طالبان پر بھی دبائو ڈالا گیا ہے کہ انہیں پاکستان پر حملہ کرنے سے روکیں یا انہیں افغان سرزمین سے بے دخل کریں۔ بے شک کے پی، بلو چستان اور اسلام آباد میں ہونے والی دہشت گردی کے تانے بانے کالعدم ٹی ٹی پی کے الٹی میٹم اور جنگ بندی کے خاتمے کے اعلان سے جڑے ہوئے ہیں۔ ملک دشمن عناصر کی سرکوبی کیلئے 2007ء اور2009ء میں سوات 2011-12 ء میں جنوبی وزیر ستان،2014ء میں آپریشن ضربِ عضب اور 2017ء میں آپریشن ردالفساد کے خاطر خواہ نتائج برآمد ہو ئے۔
دوسری جانب کے پی میں لگ بھگ پچھلے دس سالوں سے برسرِ اقتدار پی ٹی آئی حکومت انسدادِ دہشت گردی میں ناکام رہی ہے۔ اس کی دس سالہ کارکردگی کا پول اس وقت کھلا جب پتا چلاکہ صوبے میں انسدادِ دہشت گردی کے محکمے کو ایک ایس ایس پی افسر چلا رہا ہے۔ سی ٹی ڈی کا96 فیصد بجٹ تنخواہوں پر خرچ ہو جاتا ہے اور باقی صرف 4فیصد بجٹ بچتا ہے۔ نہ ہتھیار، نہ کوئی ٹریننگ، انٹیلی جنس نیٹ ورک کا بھی فقدان جس کی مدد سے دہشت گردوں پر قابو پایا جا سکتا۔ گزشتہ دنوں پاک فوج کے کمانڈوز نے جان ہتھیلی پر رکھ کر بنوں میں25 دہشت گردوں کو جہنم واصل کر کے یرغمال بنائے گئے سی ٹی ڈی اہلکاروں کو بازیاب کرایا۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ حکومت اور پاک افواج کو خطے میں قیامِ امن کیلئے بے پناہ جانی و مالی نقصان سے دوچار ہونا پڑا۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان نے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں 80 ہزار سے زائد شہریوں‘ بشمول 10 ہزار سکیورٹی اہلکاروں اور افسران کی جانوں کا نذرانہ پیش کرتے ہوئے اربوں ڈالرزجھونک دیے۔ دنیا کے دوسرے کسی ملک میں ایسی کوئی مثال موجود نہیں۔ دہشت گردی کے خلاف20برس تک جاری رہنے والی نام نہاد امریکی جنگ کے دوران شدیدمتاثر ہونے کے باوجود امن، مصالحت، تعمیرِ نو اور اقتصادی ترقی کے تمام اقدامات کی حمایت جاری رکھتے ہوئے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے کوئی کسر نہیں چھوڑی گئی لیکن مقامِ افسوس ہے کہ اس کے باوجود واشنگٹن کی طرف سے ''ڈومور‘‘کے تقاضوں میں کوئی کمی دیکھنے کو نہیں ملی۔ پاکستان نے دوحہ مذاکرات سے لے کر طالبان حکومت کے قیام‘ اسے تسلیم کرانے‘ سلامتی کونسل میں اس کے حق میں راہ ہموار کرنے میں گرمجوشی کا مظاہرہ کرنے کے علاوہ امریکہ میں اس کے منجمد اثا ثوں کی بحالی کیلئے بھی بھرپور کو ششیں کی ہیں۔ اس کے باوجود افغان حکومت پر بھارت اور کالعدم ٹی ٹی پی کی سوچ غالب آ چکی ہے اور پاک افغان سرحد پر کشیدگی نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے کہ آخر افغان سرحد پاکستان کیلئے محفوظ کیوں نہیں ؟ مودی سرکار نے سوچی سمجھی حکمت عملی کے ساتھ افغانستان میں اپنا ایک ایسا جال پھیلا رکھا ہے کہ تاحال پاکستان مخالف بیوروکریسی اور انٹیلی جنس آپریٹرز کو استعمال کیا جا رہا ہے۔ حامد کرزئی اور اشرف غنی کے ادوار میں بھی بھارت کو اپنے دہشت گردوں کی تربیت اور پھر انہیں پاکستان میں داخل کرنے کیلئے افغان سرزمین استعمال کرنے کی کھلی چھوٹ ملتی رہی۔ حامد کرزئی تو نیٹو فورسز کو پاکستان پر حملہ آور ہونے کی بھی ترغیب دیتے رہے جبکہ اشرف غنی دور میں ڈیورنڈ لائن پر افغان فوجیوں نے پاکستان کی چیک پوسٹوں پر حملوں کا باقاعدہ سلسلہ شروع کیا۔ اس دور میں طورخم سرحد پر حفاظتی گیٹ اور باڑ لگانے کی سخت مزاحمت کرتے ہوئے پاکستان کی سکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپوں کا سلسلہ بھی جاری رہا۔
مقامِ افسوس ہے کہ ا فغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے باوجود پاکستان کو وہاں سے ابھی تک ٹھنڈی ہوا کا کوئی جھونکا نہیں آیا۔ حالانکہ طالبان نے یقین دہانی کرائی تھی کہ ان کی سرزمین پاکستان سمیت کسی بھی ملک کے خلاف تخریبی سر گرمیوں کی غرض سے استعمال نہیں ہو گی۔ شاید طالبان کو پاکستان سے کچھ زیادہ ہی امید تھی اور وہ ابھی تک کنفیوزڈ ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ طالبان کی صفوں میں گھسے افغان نیشنل آرمی، سپیشل سروسز اور بدنام زمانہ افغان انٹیلی جنس ' این ڈی ایس ‘کے افراد بھارتی و امریکی ایما پر منظم منصوبہ بندی کے تحت دونوں برادر ملکوں کے مابین غلط فہمیاں پیدا کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں؟ بلاشبہ طالبان کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھایا جا رہا ہے کیونکہ ابھی تک وہ اپنے اندر موجود دھڑے بندیوں اور گروہی اختلافات کوبھی مکمل طور پر دور نہیں کر سکے ہیں۔ یہاں سوال یہ بھی ہے کہ افغان طالبان حکومت کو تسلیم کرنے میں تاخیر سے کام کیوں لیا جا رہا ہے؟ ہمیں دنیا سے زیادہ اپنے فوائد کو مد نظر رکھنا چاہیے۔ دونوں ممالک جغرافیائی لحاظ سے ایک اہم سٹرٹیجک خطے میں واقع ہیں جو مشرقی یورپ سے لے کر وسطی ایشیااور ایران و چین تک پھیلا ہوہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ امریکہ کو افغانستان سے بے نیل مرام لوٹنا پڑا اور اس کے حواری بھارت کو بھی ساڑھے چار بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے باوجود منہ کی کھانا پڑی۔ عالمی سامراج کو اس خطے میں ماسکو اور بیجنگ کا بڑھتا اثر و رسوخ کسی طور بھی قبول نہیں۔ واشنگٹن کی اپنے مذموم مقاصد اور مفادات کے حصول کیلئے توسیع پسندانہ اور جنگجویانہ پالیسیاںخطے میں قیا مِ امن کیلئے زہرِ قاتل ثابت ہوئی ہیں۔ چنانچہ امریکہ بطور جارح مار کھانے کے بعد اب اس خطے میں دوستانہ اینٹری کیلئے پر تول رہا ہے۔ عالمی سامراجی کھیل کے مطابق افغانستان یا کشمیر میں سے ایک کا انتخاب کیا جائے گا۔ مبینہ طور پر وہ کشمیر میں بھی یو این او کی صورت میں آ کر بیٹھ سکتا ہے تاکہ یہاں سے چار نیوکلیئر پاورز کی نگرانی کر سکے۔ دہشت گردی کی نئی لہر، ٹی ٹی پی کا دوبارہ متحرک ہونا، ریاستی اداروں کے خلاف تضحیک آمیز مہم، ملکی معاشی و سیاسی عدم استحکام‘ یہ سب اسی مذموم سلسلے کی ایک کڑی ہیں۔
دنیا کی تاریخ گواہ ہے کہ معاشی بحران سے دو چار قومیں ہی سلامتی کے بحران کا سامنا کرتی ہیں۔ سوویت روس کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ معاشی عدم استحکام اورسوویت فوج کی افغانستان میں ذلت آمیز شکست دنیا کی دوسری بڑی عسکری طاقت کے ٹوٹنے کا باعث بنی۔ اب یہ منصوبہ ایک خاص طریقے سے ہمارے ہاں دہرایا جا رہا ہے۔ اداروں کو تنقید کا نشانہ بنا کر عوام کو ان کے مقابل کھڑا کرنے کی کوشش کی گئی۔ ہمارے دشمن جانتے ہیں کہ پاک فوج ہی وہ واحد ادارہ ہے جو پاکستان کی سالمیت کا ضامن ہے‘ اسی وجہ سے یہ ادارہ ان کے خاص ہدف پر ہے۔ کیاو جہ ہے کہ سانحہ اے پی ایس کے بعد نیشنل ایکشن پلان پر تو سب یکجا ہو گئے لیکن کووڈ، سیلاب، دہشت گردی اور معاشی و سیاسی پالیسیوں پر متفق نہ ہو سکے۔ ضروری ہے کہ محب وطن سول و عسکری قیادت سکیورٹی نظام کا جائزہ لے کر تمام خامیوں اور نقائص پر قابو پانے کے مؤثر اقدامات پر عملدرآمد یقینی بنانے کیلئے ٹھوس حکمت عملی وضع کرے اور افغان پالیسی میں موجود سقم کو دور کرنا بھی ناگزیر ہو چکا ہے، یہ تبھی ممکن ہو گا جب ہم غیر ملکی دبائو سے آزاد ہوں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں