بھارت کشمیریوں کا حق چھیننے کے درپے

مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں کو اس وقت تعلیمی پسماندگی‘ معاشی تباہ حالی‘ وسائل کے استحصال اور بھارتی فورسز کے ہاتھوں جبری گرفتاریوں‘ گمشدگیوں اور نسل کشی جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ کشمیریوں کی تذلیل‘ بھارت کا پسندیدہ مشغلہ بن چکا ہے۔ بھارت کی ہٹ دھرمی اور دیدہ دلیری سے یہی تاثر ابھرتا ہے کہ وہ کسی دبائو اور عالمی قانون کو خاطر میں نہیں لاتا۔ حلقہ بندیوں کے حوالے سے بھارتی سپریم کورٹ کا متعصبانہ فیصلہ بھی کشمیر پر بھارتی قبضے کے مذموم منصوبے کی ایک کڑی ہے۔ دراصل بھارتی عدالتیں فاشسٹ ہیں اور زعفرانی دہشت گردی نے مقبوضہ وادی سمیت پورے بھارت میں مسلمانوں پر عرصۂ حیات تنگ کر رکھاہے۔ کشمیر میں ہندو وزیراعلیٰ لانے اور مسلم آبادی کا تناسب تبدیل کر نے کیلئے 44لاکھ ہندوئوں کو کشمیری ڈومیسائل جاری کیے گئے۔ یہ سب مودی کے دورۂ اسرائیل کے بعد شروع ہوا‘ اب مقبوضہ کشمیر میں بھی اسرائیلی طرز کی بستیاں بسائی جارہی ہیں اورکشمیرکو دوسرا روہنگیا بنانے کے گھناؤنے منصوبے پر آر ایس ایس کا پرچارک‘ گجرات کا قصائی عمل پیرا ہے۔ کشمیر میں بھارتی غیرآئینی اقدامات کا سلسلہ انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی ناک کے نیچے جاری ہے‘ افسوس! عالمی ادارۂ انصاف نے بھی اس پر چپ سادھ رکھی ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے ضلع ریاسی کے سلال ہیمانہ علاقے میں لیتھیم کے 5.9ملین ٹن ذخائر کی دریافت اس وقت عالمی خبروں کا مرکز بنی ہوئی ہے۔ یہاں دریافت ہونے والا 220ppm لیتھیم بہترین ہے۔ اس قیمتی دھات کو 'سفید سونا‘ بھی کہتے ہیں جو بیٹریوں میں استعمال ہوتی ہے۔ایک اندازے کے مطابق 2050ء تک لیتھیم کی طلب میں 488فیصد تک اضافہ متوقع ہے۔ بھارت اس وقت اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے سو فیصدلیتھیم درآمد کر رہا ہے۔ 2020-21ء میں بھی بھارت نے اربوں روپے مالیت کا لیتھیم درآمد کیا تھا۔ مقبوضہ کشمیر میں 5.9ملین ٹن لیتھیم کا حالیہ دریافت شدہ ذخیرہ دنیا میں تیسرے نمبر پر ہے۔ لیتھیم ہائی ٹیک مصنوعات کی تیاری میں ایک اہم عنصر کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ تھیم ایک کیمیائی عنصر ہے جس کی علامت لی اور ایٹمی نمبر 3ہے۔ لیتھیم اپنی منفرد کیمیائی خصوصیات کی وجہ سے مختلف قسم کے سمارٹ فونز‘ لیپ ٹاپس اور الیکٹرک گاڑیوں سمیت الیکٹرانک آلات کی ایک وسیع رینج کے لیے ریچارج ایبل بیٹریوں کی تیاری میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ لیتھیم آئن بیٹریوں کو دوسری قسم کی بیٹریوں پر ترجیح دی جاتی ہے کیونکہ یہ وزن میں ہلکی لیکن صلاحیت میں بڑی عمدہ ہوتی ہیں۔ اسے ڈپریشن اور دیگر دماغی بیماریوں کے علاج میں مُوڈ سٹیبلائزر کے طور پر بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ یہ دھات ایک خاص قوم کے شیشے اور سرامکس کی تیاری میں بھی استعمال ہوتی ہے‘ اس سے ایسا شیشہ تیار کیا جاتا ہے جو ہلکا اور مضبوط ہو۔ لیتھیم کو ایرو سپیس اور فوجی صنعتوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ لیتھیم کا استعمال خلائی گاڑیوں اور فوجی ساز و سامان مثلاً ریڈار سسٹم اور میزائل گائیڈنس سسٹم میں درجۂ حرارت کے حساس اجزا کو ٹھنڈا رکھنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ مقبوضہ علاقے میں دنیا کے بڑے ذخیرے کی موجودگی سے محکوم و مقہور مظلوم کشمیریوں کو کیا فائدہ پہنچے گا؟ مقبوضہ کشمیر سے روزانہ ٹنوں کے حساب سے معدنی ذخائر نکالے جا رہے ہیں لیکن کشمیریوں کو بھارت سرکار کی طرف سے کوئی فائدہ نہیں پہنچ رہا۔ بھارت کشمیریوں سے ان کی زمین‘ قدرتی وسائل اور ان کا کشمیری کہلانے کا حق چھین رہا ہے۔ اب وقت آ گیا ہے کہ عالمی برادری اور اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ادارے کشمیریوں کے لیے اپنا کردار ادا کریں اور بھارت کی موجودہ سازشوں کو روکیں‘ جو کشمیریوں کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ کشمیر کے حریت رہنماؤں اور تنظیموں نے اقوام متحدہ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بھارت کو جموں و کشمیر کے وسائل لوٹنے سے روکے۔ بھارت سرکار نے کشمیر میں سکولوں اور کالجوں کے مقابلے میں جدید ہوٹل بنانے پر زور دے رکھا ہے۔ بلاشبہ جن خطوں کو اللہ تعالی نے معدنی دولت سے مالا مال کیا ہے‘ ان میں وادیٔ چناب سرفہرست ہے۔ جموں و کشمیر ہمالیہ اور پیر پنجال کے پہاڑی سلسلوں سے جڑا ہوا وسیع معدنی وسائل کا حامل خطہ ہے۔ یہاں گرینائٹ‘ جپسم‘ ماربل‘ گلینا‘ کارٹز کرسٹل‘ گارنٹ‘ ٹارملین‘ چونے کا پتھر اور گرینائٹ کی دیگر اقسام کیساتھ ساتھ قیمتی نیلم وغیرہ کافی مقدار میں پایا جاتا ہے۔ جموں و کشمیر میں 500سے زیادہ معدنی بلاکس ہیں۔ جہلم‘ چناب‘ سندھ‘ راوی اور توی جیسے پانچوں دریا کشمیر سے نکلتے ہیں۔ کشمیر میں جھیلوں‘ گلیشیرز اور دریاؤں کی شکل میں پانی کے وافر وسائل موجود ہیں۔ 1230دیگر آبی ذخائر کے علاوہ وولر جھیل‘ مناسبل جھیل‘ ڈل جھیل اور نگین جھیل کشمیر کی رعنائی کو بڑھاتی ہیں۔ کشمیر دنیا میں باکسائٹ پیدا کرنے والا آسٹریلیا کے بعد دوسرا بڑا خطہ ہے۔ کشمیر میں کوئلے کے ذخائر 5ملین ٹن اور لگنائٹ کے ذخائر 6ملین ٹن سے زیادہ ہیں۔ سری نگر کے نیچے دریائے جہلم کے دونوں اطراف وادیٔ کشمیر میں ڈیمب‘ تسک یا پیٹ نامی ایک غیرمعروف ایندھن کی موجودگی کا انکشاف بھی ہوا ہے۔ اسے کاٹ کر خشک کیا جاتا ہے پھر کھاد اور ایندھن کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے۔ کشمیر کے آبی ذخائر سے محتاط اندازے کے مطابق 24ہزار کروڑ مالیت کی پیدا شدہ بجلی سالانہ پنجاب‘ ہریانہ‘ راجستھان اور دہلی وغیرہ کو ٹرانسفر کی جا رہی ہے جبکہ خود مقبوضہ ریاست کے بیشتر علاقے اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ آزاد کشمیر بھی معدنی وسائل سے مالامال ہے لیکن پاکستانی حکومت پوری طرح عالمی انسانی حقوق پر عمل پیرا ہے اور ان وسائل پر آزاد کشمیر کے لوگوں کا ہی استحقاق ہے۔ عالمی قوانین کے مطابق کسی بھی علاقے میں دریافت ہونے والے وسائل یا معدنی ذخائر پر وہاں کے مقامی باشندوں کا سب سے زیادہ حق ہوتا ہے۔ کشمیر کے وسائل پر ڈاکہ زنی کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ دوسری جانب بھارتی سیون سسٹرز ریاستیں جن کو ''ریڈ کوریڈور‘‘ بھی کہا جاتا ہے‘ وہاں موجود معدنیات پر بھارت اپنا حق جتانے کی پوزیشن میں نہیں کیونکہ وہاں علیحدگی پسندوں نے مودی سرکار کی ناک میں دم کر رکھا ہے۔ اس وقت بھارت میں 33بڑی اور مجموعی طور پر 100کے قریب علیحدگی پسند تنظیمیں کام کر رہی ہیں اور بھارت ٹوٹنے کے قریب ہے۔ ان شاء اللہ! مائو باغیوں نے بھارتی حکومت کو کھلم کھلا دھمکی دے رکھی ہے کہ 2050ء سے پہلے لال قلعہ دہلی پر ان کا جھنڈا لہرائے گا۔ مقبوضہ کشمیر میں بھی بھارت کو شکستِ فاش ہوگی اور وہ کبھی بھی اپنے توسیع پسندانہ عزائم میں کامیاب نہیں ہو سکتا۔ اس وقت مقبوضہ کشمیر کی کم و بیش 28لاکھ کنال زرعی اور جنگلاتی زمین اور صحت افزا مقامات بھارتی فوج کے قبضے میں ہیں۔ خالصتاً فوجی اور جنگی مقاصد کی خاطر ریلوے لائنیں بچھائی اور ٹنلیں نکالی جا رہی ہیں۔ فوجی مقبوضات اور تنصیبات کو وسیع تر کیا جا رہا ہے۔ دریائے جہلم اور باقی ندی نالوں سے ریت نکالنے کے لیے بے تحاشہ کھدائی کی جا رہی ہے۔ ماہرینِ ماحولیات کے مطابق اس کھدائی سے ماحولیات پر منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ جموں کے دور دراز دیہاتی و سرحدی علاقوں میں سکونت پذیر مسلمانوں کو Land Evacuation Forest پروگرام کے نام پر بالجبراُن کی رہائشگاہوں اور جائیدادوں سے محروم کیا جا رہا ہے۔ دراصل کشمیری مسلمان آبادی کی اراضی پر قبضے کی پالیسیاں مودی سرکار کے نوآبادیاتی منصوبے کی واضح عکاس ہیں جس کے تحت بھارتی صنعتکار صنعتیں لگانے کے نام پر کشمیریوں کی زمینوں پر قبضہ کر رہے ہیں۔ جندال گروپ نے مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ کی 70کنال اراضی پر سٹیل پروسیسنگ یونٹ کا سنگ بنیاد رکھ دیا ہے جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔ بی جے پی نے اپنے منشور پر عمل کرتے ہوئے 5اگست2019ء کو دفعہ 370 اور 35Aکی منسوخی کے بعد نئے ڈومیسائل اور اراضی قوانین متعارف کرائے جو بھارتی شہریوں کو مقبوضہ علاقے میں زمین اور سرکاری ملازمتیں حاصل کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ مسئلہ کشمیر کے حل اور بھارت میں اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنانے کیلئے زبانی جمع خرچ نہیں‘ عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ خطے کی بالا دستی کے زعم میں مبتلا ہندوستان اوچھے ہتھکنڈوں سے باز نہیں آرہا۔ کشمیر میں بھارتی فالس فلیگ آپریشن ناکام ہو چکے ہیں کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کی غیرتربیت یافتہ سینا اور اسلحہ کے انبار پاک فوج کی جنگی مہارتوں اور جذبۂ ایمانی کے آگے ڈھیر ہیں۔ بھارت ہمیشہ اپنے ناپاک منصوبوں میں منہ کی کھائے گا۔ ان شاء اللہ!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں