شہید بریگیڈیئر مصطفی کمال برکی: جرأت و عزیمت کی لازوال داستان

گزشتہ دنوں ایک اور سپوت دھرتی پر قربان ہو گیا۔ شہید بریگیڈیئر مصطفی کمال برکی جیسے جری اور جانباز مجاہد پاک فوج کا اثاثہ، اس پاک دھرتی کا فخر ہیں۔ وہ اللہ کے ایسے سپاہی تھے جن کی مائیں انہیں وطن پر قربان ہونے کیلئے ہی جنم دیتی ہیں‘ جن کی شہادت پر والدین کا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے اور وہ بڑی شان سے کہتے ہیں کہ اگر ان کے دس بیٹے بھی ہوں تو اس ملک پر قربان۔ بلاشبہ سیاچن کی رگوں میں خون جما دینے والی سردی ہو یا سندھ کے ریگزار وں‘ صحرا ئوں کی جھلسا دینے والی گرمی، سنگلاخ پہاڑوں، گھنے جنگلات، مشرقی و مغربی محاذ پر جان ہتھیلی پر رکھے پاک فوج کے سرفروش مادرِ وطن کی حفاظت کیلئے ہمہ وقت تیار ہیں۔ یقینا انہوں نے وطن سے وفا نبھانے کی ایسی قسم کھائی ہے کہ وہ مادرِ وطن کی حفاظت کے لیے سرحد پر لڑتے ہیں اور سینے پر دشمن کی گولیاں کھاتے ہیں۔ وطن کی ناموس اور حرمت پر کٹ مرنے کا جذبہ اور سلیقہ عساکرِ پاک کا بیش قیمت سرمایہ ہے۔ پاک فوج کے نجانے کتنے لعل مادرِ وطن پر جان وار کر شہید اور غازی کا رتبہ پا چکے ہیں۔ یہ وہ جذبہ ہے جس کی بنیاد ''لاالہ الا اللہ‘‘ پر ہے جس سے ہنود و یہود بھی خائف ہیں۔ شہیدبریگیڈیئر مصطفی کمال برکی ہمیشہ کہتے تھے کہ میں فوج میں وطن پر قربان ہونے کے لیے آیا ہوں‘ میں اپنے سینے پر گولی کھائوں گا۔ انہوں نے یہ سچ ثابت کر دکھا یا۔ بریگیڈیئر مصطفی کمال برکی نے جنوبی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف ایک آپریشن کو لیڈ کرتے ہوئے جامِ شہادت نوش کیا۔ ان کی تدفین کے مناظر رُلا دینے والے تھے۔ شہید کی نمازِ جنازہ میں صدرِ مملکت ڈاکٹر عارف علوی، وزیراعظم شہباز شریف، آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا، ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم اور حاضر سروس و ریٹائرڈ فوجی افسران نے شرکت کی۔ مجھے بھی ان کے جنازے میں شرکت کی سعادت ملی۔ میں نمازِ جنازہ سے لے کر تدفین اور دعا تک وہیں موجود رہا۔ سب سے مشکل منظر وہ تھا جب کمانڈر سدرن کمانڈ جنرل اخترنواز ستی نے شہید بریگیڈیئر مصطفی کمال کے جواں سال بیٹے کو اعزازات‘ میڈل اور پرچم دیا۔ ان کے صاحبزادے نے پرچم کو چوم کر آنکھوں سے لگایا۔ جنازے میں شریک ہر آنکھ پُرنم اور اشکبار تھی۔ سپہ سالارعساکرِ پاکستان کی آنکھوں
میں بھی غم لرز رہا تھا۔ ڈی جی آئی ایس آئی ندیم انجم کے چہرے پر اس بہادر باپ جیسے جذبات عیاں تھے جس نے اپنا بہادر و نڈر بیٹا کھو دیا ہو۔ وہ باپ‘ جس کے اندر ٹوٹ پھوٹ ہو رہی ہو۔ شہید بریگیڈیئر مصطفی کمال قبرستانِ شہدا میں جنرل (ر) حمید گل، میری والدہ افسر شہناز اور جنرل سر فراز کے پڑوسی بن گئے ہیں۔ جس روز یہ عظیم قومی سانحہ رونما ہوا اور مصطفی کمال شہید ہوئے‘ جس روز ان کے جسدِ خاکی کو لحد میں اتارا جا رہا تھا‘ اسی دن لندن میں بعض عاقبت نااندیش اپنے سیاسی مفادات کے تحت مختلف مظاہروں میں ریاستی اداروں کے خلاف کمپین چلا رہے تھے۔ یہ لمحۂ فکریہ ہے کہ چند اقتدار کے پجاری سیاست دان اپنے ہی ملک کے اداروں کے خلاف دشمن کے آلۂ کار کا کردار ادا کر رہے ہیں‘ اور ان کے ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ پاک دھرتی پر قربان ہونے والے اکثر جانبازوں کے لاشے بھی نہیں ملتے۔ حکومت کے محفوظ ایوانوں کی حفاظتی دیواروں کے پیچھے بیٹھے ان سیاسی رہنمائوں کو صرف ایک روز سرحدوں پر دشمن کی گولیوں کی بوچھاڑ میں گزارنا پڑے تو انہیں اصل حقیقت معلوم ہو جائے۔
مصطفی کمال برکی کا تعلق جنوبی وزیرستان کے علاقے کانیگرم سے تھا۔ وہ ایک سکول ٹیچر کے بیٹے تھے‘ جنہوں نے نامساعد حالات میں بھی ہمت نہیں ہاری۔ شہید کے سوگواران میں اہلیہ، ایک بیٹا، تین بیٹیاں ہیں۔ دو جڑواں بیٹیوں کی عمر محض آٹھ برس ہے۔ شہید مصطفی کمال نے اپنے والدین کی وفات کے بعد اپنے بہن‘ بھائیوں کی تمام تر ذمہ داریاں بھی بخوبی نبھائیں۔ ان کے بھائی کے مطابق '' آج ہمارے سر سے والد کا سایہ اٹھ گیا ہے‘‘۔ مصطفی کمال برکی نے 12 اکتوبر 1995ء کو فرنٹیئر فورس رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا اور اپنے بل بوتے پر ترقی کرتے کرتے وہ بریگیڈیئر کے عہدے تک جا پہنچے۔ سیاچن میں بطور جونیئر افسر متعدد بار زخمی ہوئے۔ دشمن نے گھات لگا کر ان پر کئی حملے کیے مگر وہ ان کے حوصلے کو پست نہ کر سکے۔ عسکری کیریئر میں شہید بریگیڈیئر انسدادِ دہشت گردی آپریشنز میں متحرک رہے۔ انہوں نے خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں بڑی کامیابی سے دہشت گردوں کے نیٹ ورکس توڑے۔ 2014 ء کے اے پی ایس حملے میں ملوث دہشت گردوں کو انجام تک پہنچانا شہید بریگیڈیئر مصطفی کمال برکی کا ایک بڑا کارنامہ تھا۔ وہ ایک مایہ ناز فوجی افسر تھے جو ہمیشہ فرنٹ محاذ سے لیڈ کرتے تھے اور تنِ تنہا ہی مردانہ وار دہشت گردوں کا مقابلہ کرنے نکل پڑتے تھے۔ ان کی شہادت ان مخالفین کے منہ پر بھی طمانچہ ہے جو گاہے گاہے یہ پروپیگنڈا کرتے رہتے ہیں کہ دفاعی اداروں میں افسر نہیں لڑتے اور صرف سپاہی ہی اپنی جانوں کی قربانی دیتے ہیں۔ شہید مصطفی کمال برکی نے کالعدم تحریک طالبان پاکستان اور حکومت کے درمیان ہونے والے امن مذاکرات میں بھی اہم کردار ادا کیا تھا۔ شہید بریگیڈیئر کے قریبی خاندان کے چار افراد سوات اور وزیرستان آپریشن میں پہلے ہی مادرِ وطن پر جان نچھاور کر چکے ہیں۔ یہ خاندان حقیقی معنوں میں شہدا کا خاندان ہے۔
اس سے قبل 3 جنوری کو کاؤنٹر ٹیررازم ونگ کے سربراہ نوید صادق اورایک انسپکٹر محمد ناصر عباس نے خانیوال میں ایک حملے میں اپنی جانیں وطن پر نچھاور کر دیں۔ دونوں افسران طویل عرصے سے شدت پسندوں کی ہٹ لسٹ پر تھے۔ نوید صادق 16 سال سے زائد عرصے تک پاکستان کے انٹیلی جنس سیٹ اَپ میں خدمات سر انجام دے چکے تھے۔ دو برس قبل ہی ملک دشمن عناصر کے خلاف بہادری اور جرأت سے لڑنے کے اعتراف میں ان کو ستارۂ شجاعت سے نوازا گیا تھا۔ نوید صادق نے پنجاب بھر میں داعش اور القاعدہ کے خلاف کئی کامیاب کارروائیاں کی تھیں۔ سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے بیٹے علی حیدر گیلانی کے اغوا میں ملوث نیٹ ورک کا بھی سراغ لگایا تھا۔ یہ فوجی افسر بھی فرنٹ محاذ پر لڑتے تھے۔ ایک اور آئی ایس آ ئی افسر کرنل سہیل عابدبے مثال جرأت، بے خوفی اور قائدانہ صلاحیت کی مثال تھے۔ آپ بلوچستان میں فرنٹ محاذ پر لڑتے ہوئے شہید ہوئے تھے۔ بے شک ہمارے افسران بھی فرنٹ لائن پر لڑ رہے ہیں:
یہ غازی یہ تیرے پُراسرار بندے
جنہیں تو نے بخشا ہے ذوقِ خدائی
دو نیم ان کی ٹھوکر سے صحرا و دریا
سمٹ کر پہاڑ ان کی ہیبت سے رائی
کیا پُراسرار بندے تھے جنہوں نے دشمن کی انٹیلی جنس ایجنسیوں میں گھس کر ان کو دھول چٹائی۔ افغان سر زمین میں ان کے ٹھکانے اور ان کے مذموم عزائم کے آگے سیسہ پلائی دیوار بنے رہے۔ وطن کی مٹی اور پوری قوم اپنے ان بہادر بیٹوں کو سلامِ پیش کرتی ہے۔ جہاد کا جذبہ، دھرتی پر مر مٹنے کا جنون، اسلام کی سر بلندی کیلئے سر فروشی کی آرزو انہی پُر اسرار بندوں کا خاصہ ہے۔ یقینا ان کا جنت میں بھی اونچا مقام ہے کہ جنہوں نے وطن کی خاطر اپنی جان لٹا دی۔ بھارت‘ جس نے پاکستان پر اپنی طاقت کی دھا ک بٹھانے کیلئے اپنے عوام کو بھوکا رکھتے ہوئے کھربوں ڈالر کے اسلحے کا انبار لگا رکھاہے‘ اس کی تمام تر جنگی تیاریاں اور جدید ہتھیار عساکرِ پاک کے جذبۂ ایمانی اور سر فروشی کی طاقت کے آگے ڈھیر ہیں۔ آج ہم محفوظ ہیں تو پاک آرمی کی وجہ سے‘ وگرنہ ہماری حالت بھی لیبیا، عراق اور شام جیسی ہوتی۔ بلوچستان سے لے کر وزیرستان اورکراچی تک‘ محدود وسائل میں دہشت گردی کے عفریت کو جس طرح کچلا گیا‘ اس کی مثال دنیا میں نہیں ملتی۔ یقینا پاک فوج دنیا کی واحد فوج ہے جس نے کم بجٹ میں بھی کبھی معیاری صلاحیتوں پر سمجھوتا نہیں کیا۔ بلاشبہ پاک فوج کے افسران اور سپاہیوں کی لازوال قربانیاں عسکری تاریخ کا روشن باب ہیں۔ یقینا ہمارا ازلی دشمن عوام کو ملک کے دفاعی اداروں سے بدظن کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور ہمیں ان سازشوں کا ادراک کرنا ہو گا۔ چند روزقبل میں نے ایک ٹویٹ کے ذریعے دشمنوں کے بعض مذموم ارادوں سے باخبر کیا تھا کہ کئی اہم افسران دشمن کے نشانے پر ہیں اور اسی روز یہ سانحہ ہو گیا۔ پوری قوم اس پر سوگوار ہے مگر ہمارے بہادر جوانوں کی ایسی قربانیاں ہی پاک فوج کے عزم کو مزید مضبوط کرتی ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آ ئی ایس آئی دنیا کی بہترین ایجنسی ہے اور پاک فوج نے ہر میدان میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا ہے۔ دھرتی ان شہیدوں‘ ان سپوتوں کی ہمیشہ احسان مند رہے گی۔ پاک فوج زندہ باد! پاکستان پائندہ باد!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں