ہوسِ اقتدار سے ملک خانہ جنگی کے دہانے پر

ریاست مدینہ کا دعویٰ‘ پچاس لاکھ گھر‘ ایک کروڑ نوکریاں‘ سو دنوں میں کرپشن کا خاتمہ اور قانون کی بالادستی کے دعووں کی طرح قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف دشنام طرازی اور الزامات حسن بن صباح کی جنت کی طرح فیک ہیں۔ آج پی ٹی آئی فدائیوں کا حال سب کے سامنے ہے۔ عمران خان کی گرفتاری پر اپنے ہی ملک کو جلا ڈالا۔ چند دنوں میں اربوں روپے کی سرکاری، عسکری اور نجی املاک تباہ کر دی گئیں۔ وہ یہ بھول گئے کہ یہ وطن ان کا بھی ہے۔ اگر پاکستان ہے تو وہ ہیں۔ ریاستی اداروں کی املاک کو نشانہ بنایا گیا۔ وہ ہر اخلاقی حد سے آزاد اپنے لیڈر کے خلاف بولنے والی ہر آواز کو ملک دشمنی سمجھتے ہیں۔ ان کے نزدیک عمران خان کی توقیر قومی اداروں کے تقدس سے بڑھ کر ہے۔ یہ شر پسند ملک کو بند کرنا، تھوڑ پھوڑ، جلائو گھیراؤ اور عوام کی زندگیاں اجیرن کرنا اپنا فریضہ سمجھتے ہیں۔ بلاشبہ یوٹرن، پے درپے ناکامیوں اور کبھی نہ پورے ہونے والے خوابوں کے بعد پی ٹی آئی نے مادر پدر آزاد، اخلاقی اقدار سے عاری شر پسند تنظیم کا روپ اختیار کر لیا۔ پہلے فدائین کو حشیش کے نشے میں خود ساختہ جنت کی سیر کرائی جاتی تھی مگر اب زمانہ بدل گیا ہے۔ اب نت نئے بیانیوں اور خوش نما نعروں سے مد ہوش کر کے ریاستِ مدینہ کا سبز باغ دکھا یا جاتا ہے۔ پی ٹی آئی کے سر براہ نے اپنے مفاد اور اقتدار کیلئے اپنے ہی ملک کے نوجوانوں کے ایک گروہ کو ریاست، اس کی سا لمیت اور ملکی و نظریاتی سرحدوں کی پاسبان و نگہبان پاک فوج کے خلاف کھڑا کر دیا۔ کھلے عام جلسوں میں اداروں کے خلاف نعرے لگوائے جاتے ہیں۔ دشمن کے ہاں تو خوشی کے شادیانے بجائے جا رہے ہیں۔ بھارتی میڈیا چیخ چیخ کرکہہ رہا ہے کہ عمران خان نے عوام کو تقسیم کرنے کے بعد اداروں میں بھی دراڑیں ڈال دی ہے۔ جب عمران خان نے حکومت سنبھالی تھی‘ میں نے تو اسی روز ہی کہہ دیا تھا کہ یہ شخص پاکستان کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کو تقسیم کر دے گا۔ نتیجہ سب کے سامنے ہے۔ موجودہ بحرانوں پر قابو پانے کیلئے ضروری ہے کہ آئینی راستہ اختیار کرتے ہوئے فل کورٹ بنایا جائے۔ آخر کیا وجوہات ہیں کہ ملک میں اس قدر تباہی کے باوجود فل کورٹ تشکیل نہیں دیا جا رہا۔ دوسری طرف عمران خان کو تمام مقدمات میں نہ صرف ضمانت دی گئی بلکہ آ ئند ہ بھی کسی مقدمے میں گرفتاری سے روک دیا گیا ہے۔ اس طرح لوگوں کا اعتبار ایک قومی ادارے پر سے ختم ہو جائے گا۔ ادھر یہ نام نہاد ووٹرز‘ سپورٹرز ملک کو سرلنکا بنانے کا عزم کیے ہوئے ہیں۔ یااللہ! ان نوجوانوں کے ذہنوں کو اتنا زہر آلود کس نے کر دیا ہے کہ وہ اپنے لیڈر کی محبت میں وطن کی محبت ہی فراموش کر بیٹھے ہیں۔
یقینا پاکستان کی تاریخ میں9مئی 2023ء کا دن ایک سیاہ باب کی طرح یاد رکھا جائے گا۔ یہ دن پاکستان کے دشمنوں کے لیے خوشی اور مخلص پاکستانیوں کے لیے انتہائی افسوس ناک ثابت ہوا۔ چیئرمین پی ٹی آئی کی گرفتاری پر پاک فوج کی تنصیبات پر حملہ اس حقیقت کو بے نقاب کرتا ہے کہ پی ٹی آئی کا اصل ہدف ملکی سالمیت کے ضامن ادارے ہیں۔ جو کام ملک کے ازلی دشمن سات دہائیوں میں نہ کرسکے وہ اقتدار کی ہوس میں مبتلا ایک نام نہاد سیاسی جماعت نے کردکھایا۔ جبکہ پاک فوج نے اپنی ساکھ کی پروا نہ کرتے ہوئے ملک کے وسیع تر مفاد میں انتہائی صبر اور برداشت سے کام لیا۔ مذموم منصوبہ بندی کے تحت پیدا کی گئی اِس صورتحال سے یہ گھنائونی کوشش کی گئی تھی کہ آرمی اپنا فوری ردِ عمل دے جس کو مذموم سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ عمران خان نے اپنے پیروکاروں کو آخری کال دی کہ اگر وہ گرفتار ہوئے تو احتجاجی سیاست کا سہارا لیں۔ اس سے قبل ایک ہلکا مظاہرہ ہم 14 مارچ کو لاہور میں دیکھ چکے تھے جب گرفتاری کو روکنے کے لیے ہر قسم کی طاقت استعمال کی گئی اور پولیس پر پٹرول بموں سے حملہ کیا گیا۔ اس بار ان کا نشانہ عسکری تنصیبات تھیں جن میں لاہور اور پشاور میں کور کمانڈ ہاؤسز، جی ایچ کیو اور میانوالی کی ایئربیس خاص طور پر نشانہ بنے۔ شہدا کی کئی یادگاروں کو توڑ ا گیا، عسکری ساز و سامان اور گاڑیوں کو جلا دیا گیا۔ پبلک بسوں اور میٹرو بسوں کو بھی نہیں بخشا گیا۔ منظم منصوبہ بندی کے تحت بڑے شہروں میں بدامنی پھیلائی گئی۔ اس قسم کی توڑ پھوڑ ملکی تاریخ میں اس سے پہلے کبھی نہیں دیکھی گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی اور بینظیر کی اندوہناک شہادت کے بعد بھی نہیں! پی ٹی آئی رہنماؤں نے پہلے ہی خبردار کیا تھا کہ عمران خان کی گرفتاری کا مطلب ان کی ریڈ لائن کراس کرنا ہے اور اسے برداشت نہیں کیا جائے گا۔ اب قانون نافذ کرنے والوں کی باری ہے کہ وہ اس شرپسندی میںملوث تمام افراد اور ان کے معاونین اور ہمدردوں سے آہنی ہاتھوں نمٹیں۔ پاکستان ہائبرڈ جنگ کی مہلک گرفت میں ہے اور ایک پوری نسل کی برین واشنگ ہو چکی ہے۔ اس میں چند گمراہ سابق افسروں کی کمیونٹی کے کردار کوبھی نظر انداز نہیں کیاجاسکتا۔ میرا اُن سے یہ کہنا ہے کہ اپنی مراعات بھی واپس کریں‘ پھر بات کریں۔ بھارت کو بنگالیوں کے ذہنوں میں زہر بھرنے میں 23 سال لگے جس کے بعدبنگالی عوام مغربی پاکستانیوں کو اپنا دشمن اور بھارت جیسے ازلی دشمن کو اپنا دوست اور نجات دہندہ سمجھنے لگے تھے۔ دسمبر 1971 ء میں ملک کے دولخت ہونے کے بعد ''را‘‘ کی جانب سے اندرون اور شہری سندھ، بلوچستان اور کے پی میں اسی طرح کی تخریب کاری کی تکنیکوں کا استعمال کیا گیا تھا اورآج بھی وہی منظر نامہ ذرا جدید طریقے سے دہرایا جا رہا ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جب سکیورٹی فورسز نے دہشت گردی کی کمر توڑ کر پاکستان کے ان حصوں میں ریاست کی رِٹ دوبارہ قائم کی‘ جو ایک عرصے سے دہشت گردوں کا گڑھ بنے ہوئے تھے تو ماسٹر مائنڈز نے ریاست کو کمزور کرنے کے لیے ایک اور چال چلنے کا فیصلہ کیا۔ میڈیا کو لبرلائز کرنے کا کام پرویز مشرف کی مدد سے کیا گیا جو سیکولرازم کا راستہ تھا۔ مارچ 2007 ء میں وکلاء تحریک کے ذریعے سڑکوں پر احتجاج کیا گیا۔ دسمبر 2007 ء میں بینظیر بھٹو کے قتل کے بعد سندھ میں لاقانونیت کو زیادہ سے زیادہ فروغ دیا گیا۔ 2013 ء کے بعد سے بین الاقوامی کھلاڑی تحریک انصاف کے سیاسی کیریئر کو اَپ گریڈ کرنے میں شامل ہو گئے۔ 2013 ء کے انتخابات میں پی ٹی آئی تیسری بڑی جماعت بنی اور خیبرپختونخوا اس کو حکومت کے نام پر تجربے کرنے کے لیے دے دیا گیا۔ عمران خان کو جولائی 2018 ء کے انتخابات میں مسندِ اقتدار پر بٹھانے کے لیے بھرپور تعاون فراہم کیا گیا۔ ریاستی اداروں کے خلاف غیر تعلیم یافتہ اور دماغی طور پر کلون شدہ تعلیم یافتہ اور محنت کش طبقے کی برین واشنگ کیلئے ٹرمپ کارڈ کھیلنے کا فیصلہ کیا گیا۔ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا سیل نے عمران خان کی سیاسی قسمت کو بلند کرنے اور پی ڈی ایم رہنماؤں‘ خاص طور پر شریف خاندان کو بدنام کرنے میں بڑا کردار ادا کیا۔ بدعنوانی کو کینسر اور سب سے بڑا گناہ قرار دیا گیا جبکہ اخلاقیات کے دیگر تمام عناصر کو نظر انداز کر دیا گیا۔ ایک طرف جلسوں میں رقص، موسیقی اور گانوں کے کلچر کو فروغ دیا گیا اور دوسری طرف سیاسی فائدہ حاصل کرنے کے لیے ''مذہبی ٹچ‘‘ کو بھی بھرپور طریقے سے بروئے کار لایا گیا۔ جوش کے ساتھ مسحور نوجوانوں کے ذہنوں میں مسلسل بغاوت، اشتعال انگیزی اور ہجومی تشدد کے جراثیم داخل کیے گئے۔ گزشتہ سال اپریل میں زوال کے بعد ان کا اصل چہرہ بے نقاب ہوا۔ اس وقت سے فوج اور ایجنسیوں کے خلاف مسلسل گھنائونی مہم کا آغاز کررکھا ہے۔ گزشتہ سال مئی اور اکتوبر میں لانگ مارچ کی دی گئی کالیں ناکام رہیں۔ حامیوں کی قلیل تعداد میں احتجاجی مارچ میں حصہ لینے سے سخت مایوسی ہوئی تو اپنی نفرت کی بندوقوں کا رخ ریاستی اداروں کی طرف کر دیا گیا۔ اپنی گرفتاری سے ایک دن قبل ایک منظم طریقے سے ایک سرونگ سینئر آفیسر پر الزام تراشی کی گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ عمران خان اور پی ٹی آئی کے دیگر سینئر رہنماؤں کو کرپشن کے الزامات کا سامنا ہے مگر وہ حیلے بہانوں اور عوام کے پیچھے چھپ کر اپنے کیسز کو التوا میں ڈال رہے ہیں۔ سب جان لیں کہ یہ ملک کسی کی ذاتی جاگیر نہیں جسے وہ اپنے ذاتی و سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھا دے۔ مملکت خداد اد کی بنیاد لا الٰہ الااللہ پر ہے۔ یہ برصغیر کے مسلمانوں کیلئے اللہ تعالیٰ کا خاص فضل ہے اور شہدا کی قربانیوں کا صلہ ہے۔اس کے خلاف سازش کرنے والے یقینا ناکام و نامراد ہوں گے، ان شاء اللہ!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں