پاک دھرتی کے حالات دیکھ کر دل خون کے آنسو رو رہا ہے۔ ہر طرف افراتفری، مفاد پرستی اور الزام تراشی و دشنام طرازی کے سلسلوں سے افسردگی چھائی ہوئی ہے۔ ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کو اقتدار کی ہوس نے اس قدر اندھا کر دیا ہے کہ وہ وطن کی حرمت و ناموس کی پامالی پر اتر آئی ہے۔ افسوس! ملکی سالمیت کے ضامن اداروں کے خلاف مذموم مہم کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے۔ پی ٹی آئی نے دفاعی اداروں کی ہی تضحیک نہیں کی بلکہ ان شہیدوں اور غازیوں کے لہو سے بھی غداری کی ہے جو مادرِ وطن کی سرحدوں کے پاسبان و محافظ ہیں۔ انہی محافظوں کی وجہ سے ہی ہم چین کی نیند سو پاتے ہیں۔
اس وقت ہمارا آئین خطرے میں ہے‘ قومی سلامتی دائو پر لگی ہوئی ہے‘ ملک کی نظریاتی سرحدوں میں ملک دشمنوں نے شگاف ڈال دیے ہیں۔ 1971ء میں ہماری سالمیت پر دشمن نے شب خون مارا تو ملک دولخت ہو گیا تھا، آج پھر سیاسی قائدین کی اقتدار کی کرسی کے حصول کی لڑائی، سیاسی مفادات اور باہمی بغض و عناد نے 71ء جیسے دوراہے پر پہنچا دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ پاکستان کی حفاظت فرمائے، آمین! بے شک آئین و قانون کی حکمرانی اور انصاف کی عملداری ہی قوم کا مطمح نظر ہے۔ اسی سے ملک اور سسٹم کو استحکام اور دوام حاصل ہو سکتا ہے۔ اگر تمام ریاستی و انتظامی معاملات آئین اور قانون کے مطابق چل رہے ہوں اور تمام ریاستی انتظامی ادارے اپنی متعین آئینی حدود کے اندر رہ کر ہی فرائض ادا کر رہے ہوں تو ریاستی اداروں کے مابین کسی تنازع کی نوبت ہی نہ آئے۔
9 مئی کو گھیرائو، جلائو، تھوڑ پھوڑ اور عسکری و قومی تنصیبات پر حملوں سے دنیا میں کیا پیغام گیا؟ دوسری جانب‘ چیئرمین پی ٹی آئی مذکورہ واقعات کی مذمت کرنے کے بجائے سکیورٹی اداروں پر مزید الزامات لگا کر معاملے کو اور زیادہ بگاڑ رہے ہیں۔ سابق وزیراعظم اب بھی اشتعال انگیزیوں سے بازنہیں آئے اور عالمی سطح پر ہمدردیاں سمیٹنے کی آڑ میں ملکی عزت و وقارسے کھیل رہے ہیں۔ عمران خان کے پاس اگر اپنے الزامات کے حوالے سے ٹھوس ثبوت اور شواہد موجود ہیں تو انہیں چاہیے کہ وہ ان ثبوتوں کو لے کر سپریم کورٹ میں جائیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے۔ بے بنیاد الزام تراشی کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔
اس وقت پوری دنیا میں منظر نامہ بدل رہا ہے۔ خطے میں طاقت کا محور بدل رہا ہے۔ خطہ جغرافیائی و معاشی پول کی تبدیلیوں اور رجیم چینج کی زد میں ہے۔ ایران‘ سعودی عرب مصالحت، چین‘ سعودی عرب اور ایران تعلقات میں پیش رفت، جی سیون کانفرنس اور عرب لیگ میں گیارہ برس بعد شام کی واپسی نے عالمی حالات کو یکسر تبدیل کر دیا ہے۔ ادھر بھارت مقبوضہ کشمیر کو ہڑپ کرنے کے اپنے مذموم منصوبوں کا سلسلہ دراز کرتا چلا جا رہا ہے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی فاشسٹ، ہندو توا بی جے پی حکومت اپنے مخصوص جغرافیائی اور سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے جی 20 کانفرنس کے بھارت میں انعقاد کے موقع کو بطور ہتھیار استعمال کرنا چاہتی ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں کانفرنس کے انعقاد کا بظاہر مقصد پوری دنیا بالخصوص اقوام متحدہ، سکیورٹی کونسل، جی 20 اور چین کے لیے بیانیہ سازی کا کام کرنا ہے۔ یہ نہ صرف بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ اور یو این او کی سلامتی کونسل کے تحت متنازع گردانے جانے والے علاقے پر اپنی خود مختاری اور ناجائز تسلط کا اعلان کرنے کے لیے بالواسطہ طریقہ اختیار کر رہی ہے بلکہ اس کے نتیجے میں نسل کشی کے مظالم، انسانی حقوق، شہری، سماجی، سیاسی اور مذہبی آزادیوں پر قدغن کے لیے بین الاقوامی رضا مندی بھی حاصل کر لے گی۔ بھارت کی پوری کوشش ہے کہ بھارتی آئین کے آرٹیکلز 370 اور 35A کی منسوخی کو بین الاقوامی سطح پر من و عن قبول کر لیا جائے۔ جی 20 کی سیاحتی کانفرنس کے مقبوضہ کشمیر میں انعقاد سے بھارت کو کشمیر کو اپنا اٹوٹ انگ ثابت کرنے میں آسانی ہو گی اور اس کے مضر اثرات گلگت‘ بلتستان اور آزاد کشمیر کی حیثیت پر بھی پڑیں گے۔ درحقیقت مقبوضہ کشمیر میں جی 20 کانفرنس کا انعقاد ہمارے لیے انتباہ ہے۔ ادھر ہم ہیں کہ الیکشن اور اقتدار کے کھیل کے چکر سے ہی باہر نہیں آ رہے۔ ہم نے اپنے ہی قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف جنگ چھیڑ دی ہے‘ ایسے میں بھارت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالنے کی جرأت کون کرے گا؟
اس بارے رتی بھر بھی شک نہیں کہ کشمیریوں کے دل پاکستان کے ساتھ دھڑکتے ہیں‘ غیور اور حریت پسند کشمیری پاکستان کے قومی پرچم میں دفن ہونا اپنے لیے اعزاز سمجھتے ہیں لیکن باہم دست و گریباں پاکستانی حکمرانوں نے دشمن کو پاکستان کی شہ رگ کاٹنے کی کھلی چھٹی دے دی ہے۔ چین نے سرینگر میں جی ٹونٹی اجلاس کے انعقاد کے فیصلے کی مذمت کر کے پاکستان سے دوستی کا حق ادا کر دیا ہے۔ چینی وزارتِ خارجہ کی جانب سے بھارت سے کہا گیا ہے کہ جی ٹونٹی بین الاقوامی اقتصادی اور مالیاتی تعاون کا سب سے بڑا فورم ہے، اس اقتصادی فورم کوسیاسی رنگ دینے سے گریز کیا جائے۔ چین نے اس اجلاس میں شرکت کے معاملے کو بھی التوا میں ڈال دیا ہے۔ دوسرے جانب پورے عالم اسلام کیلئے خوش آئند خبر یہ ہے کہ عرب خزاں ایک بار پھر سے عرب بہار میں بدل رہی ہے جس کا واضح ثبوت عرب لیگ اجلاس میں ایک دہائی بعد شام کی شرکت ہے۔ جس کی وجہ سے واشنگٹن سیخ پا ہے۔ روس اور یوکرین کے درمیان تنازع اور امریکہ و نیٹو ممالک کے کردار نے ایک نئی جغرافیائی سیاسی صورتحال پیدا کر دی ہے جس کے اثرات سے عرب ممالک الگ تھلگ نہیں رہ سکتے۔ ان اہم اور خطرناک بین الاقوامی پیش رفتوں میں عرب دنیا کے پاس اس کے سوا کوئی آپشن نہیں کہ وہ دوبارہ متحد ہوں اور مشترکہ عرب اقدام کی روح کو بحال کریں۔ روس‘ ایران اور چین کی بڑھتی قربتوں اور پاک‘ ایران حالیہ معاہدوں سے اسرائیل اور امریکہ کو بڑا دھچکا لگا ہے۔ ایران‘ پاکستان معاہدوں میں مثبت پیشرفت نے عالمی استعمار کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ 100 میگاواٹ گبد‘ پولان بجلی ترسیلی منصوبہ پاک ایران تعلقات میں نئے باب کا اضافہ ہے۔ جمعرات کو پاک‘ ایران بارڈر مارکیٹ پولان اور گبد ٹرانسمیشن کا افتتاح کرتے ہوئے وزیراعظم پاکستان نے کہا کہ پاکستان اور ایران برادر پڑوسی ممالک ہیں‘ ان کے مابین آزادانہ تجارت کو جلد حتمی شکل دی جائے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ دونوں ممالک کے عوام اور قیادت کو مل کر ترقی اور خوشحالی کے لیے انقلاب لانا ہو گا۔ انہوں نے اس موقع پر ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کو دورۂ پاکستان کی بھی دعوت دی۔ ایرانی صدر نے دونوں ممالک کے مابین بجلی اور پٹرول و گیس منصوبوں میں تعاون پر مکمل آمادگی کا اظہار کیا اور کہا کہ خطے کے تمام مسائل کا حل مذاکرات سے ہی ممکن ہے‘ ہم پاکستان کے ساتھ تجارت کا فروغ چاہتے ہیں‘ امید ہے کہ ان تمام اقدامات سے دونوں ممالک کے درمیان تجارت کا حجم بڑھے گا جو اس وقت 392.08 ملین امریکی ڈالر ہے جس میں سے پاکستان کی برآمدات صرف 22.86 ملین ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ مسلم امہ میں یکجہتی و اتحاد و استحکام سے صہیونی و امریکی منصوبے خاک میں مل گئے ہیں۔
دوسری جانب مشرق و مغرب کی تفریق‘ جو سرد جنگ کی خصوصیت رکھتی تھی اور جو تزویراتی‘ نظریاتی اور دو قطبی نظام پر مبنی تھی‘ ختم ہو گئی ہے۔ اب مغرب کی تاریخی فتح کا احساس زوال پذیر ہے۔ نیز نئے چیلنجوں اور ان کے بڑھتے ہوئے خطرات‘ جیسے ماحولیاتی مسائل، خشک سالی اور آلودگی جو آپس میں جڑے ہوئے ہیں‘ سے نمٹنے کے لیے باہمی تعاون اور عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔ عالمی منظر نامے پر ایک غیر معمولی و تاریخی سربراہی اجلاس چین میں بھی منعقد ہوا۔ اس اجلاس میں چین اور پانچ وسطی ایشیائی ممالک نے مشترکہ اور محفوظ مستقبل کے لیے ہم آہنگی کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ غیر مستحکم دنیا کو مکمل یکجہتی، پائیدار ترقی اور امن کا پیغام دیا۔ وسط ایشیائی سربراہی کانفرنس ایک ایسے وقت چین کے شہر ژیان میں منعقد ہوئی جب جاپان میں جی سیون کا اجلاس ہو رہا تھا۔ وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ چین کے تعلقات منفرد قسم کے عالمی تعلقات کے قیام کا بہترین نمونہ اور بدلتے عالمی حالات میں اہم سنگ میل ثابت ہوں گے۔
جاپان میں دنیا کی سات بڑی معیشتوں کی کانفرنس میں روس کے خلاف امریکہ کا پابندیاں لگانے کے لیے دباؤ اور چین مخالف محاذ سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ امریکہ خطے میں چین کے بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ سے خائف ہے‘ اس لیے وہ اوچھے ہتھکنڈے آزما رہا ہے۔ امریکہ نے چین اور روس کے خلاف نیامحاذ کھول دیا ہے اور ماسکو پر 300 نئی پابندیاں عائدکر کے اسے کچلنے کی منصوبہ بندی کی ہے۔ مزید برآں امریکی نام نہاد سپر پاور اب دیوالیہ ہونے کے قریب ہے۔ کساد بازاری نے اس کی معیشت کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا ہے۔ وائٹ ہائوس کونسل آف اکنامک ایڈوئزرز کی رپورٹ میں امریکہ کے ڈیفالٹ ہونے کا خدشہ ظاہر کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایسی صورت میں امریکہ کی معیشت پر گہرے طویل المیعاد اثرات مرتب ہوں گے۔ امریکہ کا قومی قرضہ 31.4 کھرب ڈالر ہے، ا مریکی صدر جو بائیڈن کے مطابق ''اگر امریکہ نے اپنے قرضے ادا نہ کیے تو یہ امریکی معیشت اور عوام کیلئے تباہ کن ہو گا‘‘ لہٰذا ڈالر کی اجارہ داری کے خاتمے، اس کے زوال اور چین کی کرنسی کے عروج سے دنیا میں نئی معاشی تبدیلیاں رونما ہورہی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ تیزی سے بدلتے ہوئے عالمی منظر نامے میں ہم کہاں کھڑے ہیں؟ بڑھتے سیاسی عدم استحکام، دگرگوں معیشت، مہنگائی اور ناقص خارجہ پالیسیوں کے ساتھ عالمی سطح پر ہمارا کردار کیا ہو گا؟