مودی کادورۂ امریکہ: نئے محاذ کی تیاری؟

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے دورۂ امریکہ سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ افغانستان میں امریکی شکست و ریخت‘ مشرقِ وسطیٰ میں چین کے بڑھتے اثر و رسوخ‘ ایران سعودی عرب مصالحت‘ ماسکو بیجنگ قربتوں اور ڈالر پر یوآن کی سبقت نے نام نہاد سپر پاور کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے اور یہی وجہ ہے کہ خطے میں چین کا مقابلہ کرنے کیلئے مسلمانوں کے قاتل‘ اکیسویں صدی کے ہٹلر سے محبت کی پینگیں بڑھائی جارہی ہیں۔ اس دورے کے پس پشت دراصل چین کا عالمی سطح پر بڑھتا اثر و رسوخ ہے جس کو زائل کرنے کیلئے امریکہ بھارت کی شراکت داری لازمی سمجھتا ہے۔ اس سے پہلے بھی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی امریکہ کا دورہ کر چکے ہیں اور ان کی امریکی صدر جوبائیڈن سے غیر رسمی ملاقاتیں بھی ہو چکی ہیں لیکن ان کے حالیہ دورۂ امریکہ کی کافی تشہیر کی جا رہی ہے جس میں مودی کا کانگریس کے دونوں ایوانوں سے خطاب‘ صدر کیساتھ عشائیہ اور معروف امریکی کمپنیوں کے سربراہان سے ملاقات بھی شامل تھی‘ جو دونوں ممالک کے درمیان بڑھتے تعلقات کی علامت ہے۔
دنیاجانتی ہے کہ امریکہ اپنی خارجہ پالیسی جمہوریت اور انسانی حقوق کی بنیاد پر نہیں بلکہ اپنے مفادات کے پیش نظر چلاتا ہے۔ اس لیے وائٹ ہاؤس میں گجرات کے قصائی کی عزت افزائی کی گئی۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ صدر جوبائیڈن اس نریندر مودی کی میزبانی کرتے رہے جو ہندوستان میں اقلیتی گروہوں کی نسل کشی کے نازی ایجنڈے پر گامزن ہے۔ مودی حکومت نے 2019ء میں آئین کے آرٹیکل 370کو منسوخ کرتے ہوئے مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت ختم کر دی۔ وہاں مسلمانوں کے گھروں پر بلڈوزر چلوائے۔ گائو ماتا کی بے حرمتی کا الزام لگا کر مسلم نوجوانوں کے گلے کاٹے گئے۔ کیا یہ اقوام متحدہ کی قرارداد کی سنگین خلاف ورزی نہیں؟ اس ایکٹ کی منسوخی کا مقصد جموں و کشمیر میں مسلم اکثریت کو اقلیت میں تبدیل کرنا ہے۔ پاکستان نے اس معاملے کو بین الاقوامی سطح پر اٹھایا اور امریکہ پر زور دیا کہ وہ کارروائی کرے۔ لیکن امریکی حلقوں مکمل خاموش ہیں کیونکہ بھارت اس کا اتحادی ہے۔ امریکی سرکاری ادارے مودی کے حالیہ دورے کا مقصد ایک آزاد‘ کھلا اور خوشحال معاشرہ تشکیل دینا اور ایشیا پیسفک خطے کو محفوظ بنانا قرار دے رہے ہیں۔ امریکی پالیسی سازوں سے سوال ہے کہ کیا انہیں معلوم نہیں کہ 2023ء کے ورلڈ پریس فریڈم انڈیکس میں ہندوستان کی درجہ بندی 180ممالک میں سے 161پر آ گئی ہے۔ اچھا ہوتا کہ جوبائیڈن مودی سے ملاقات سے پہلے امریکی کمیشن برائے بین الاقوامی مذہبی آزادی کی رپورٹ بھی پڑھ لیتے‘ جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ہندوستان میں مذہبی آزادی اور متعلقہ انسانی حقوق کو مسلسل خطرات لاحق ہیں۔ کیا امریکہ جمہوریت اور انسانی حقوق کی فراہمی کو تجارت اور سرمایہ کاری کے مقابلے میں ثانوی سمجھتا ہے؟ ہندوستان میں جو کچھ اس وقت ہو رہا ہے‘ کیا اس پر آنکھیں بند کرنا انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہے؟ مودی کا دورۂ امریکہ دراصل امریکی جمہوری اقدار پر کاری ضرب ہے۔
وزیراعظم نریندر مودی کے دورۂ امریکہ پر امریکی ایوان اور سینیٹ کے 70سے زائد قانون سازوں کے ایک گروہ نے بائیڈن کو ایک خط لکھا جس میں مودی کے جرائم بے نقاب کیے گئے۔ خط میں بھارت میں بڑھتی مذہبی انتہا پسندی‘ سول سوسائٹی اور صحافیوں کو نشانہ بنانے جیسے سنگین مسائل کی نشاندہی کی گئی۔ امریکہ کی بھارت کیساتھ دوستی مشترکہ اقدار پر ہونی چاہیے۔ 19جون کو ایمنسٹی انٹرنیشنل اور ہیومن رائٹس واچ نے واشنگٹن میں مودی پر بنی بی بی سی کی ڈاکومنٹری بھی نشر کی تھی۔ امریکی قانون سازوں نے مطالبہ کیا کہ امریکی صدر بائیڈن مودی سے ملاقات میں یہ تمام معاملات زیر غور لائیں۔ دوسری جانب امریکی رکن کانگریس راشدہ طلیب نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ مودی کے غیرجمہوری اقدامات‘ مسلمانوں اور مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانے‘ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور صحافیوں کے خلاف کارروائیوں کی ایک طویل تاریخ کے باوجود انہیں امریکی دارالخلافہ جیسا پلیٹ فارم پیش کرنا انتہائی شرمناک ہے۔ مسلم حقوق کے گروپ CAIRنے ایک بیان جاری کیا جس میں وائٹ ہاؤس سے مطالبہ کیا گیا تھا کہ وہ ریاستی عشائیے کے اپنے پروگرام کو ترک کردے۔ اس موقع پر وائٹ ہائوس کے باہر احتجاج کیا گیا جس میں شامل ٹرکوں پر مودی مخالف نعرے درج تھے۔ احتجاج کرنے والوں نے انڈیا شیم شیم اور گو بیک مودی کے نعرے لگائے۔ بھارتی وزیراعظم کی امریکہ آمد کے موقع پر نیویارک میں انسانی حقوق کی مختلف تنظیموں نے ان کے خلاف مظاہرہ کیا۔ جنہوں نے بڑے بڑے بینرز اور پوسٹرز اٹھا رکھے تھے جن پر مودی کے انسانیت کے خلاف مظالم اور جرائم پر مبنی نعرے درج تھے۔ سابق امریکی صدر باراک اوباما نے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے اس سلسلے میں کہا کہ مودی نے اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ نہ کیا تو بھارت ٹوٹ جائے گا۔ تاریخ دیکھ چکی ہے کہ بھارت میں موجود داخلی تنازعات کے نتائج کیا نکلتے ہیں۔ وقت آگیا ہے کہ بھارت میں انسانی حقوق کی خلاف ورزی بالخصوص مسلمانوں پر ڈھائے جانیوالے مظالم پر سفارتی سطح پر مہم چلائی جائے۔ افسوس کہ امریکا اچھی طرح جانتا ہے کہ مودی سرکار بھارت میں انتہا پسند ہندوئوں کی حمایت کرکے اقلیتوں کے مسائل بڑھا رہی ہے لیکن اس کے باوجود اس کی طرف سے محض مذمتی بیانات جاری کرنے کے سوا کوئی اقدام نہیں کیاگیا۔ اس صورتحال میں اقوامِ متحدہ اور دیگر اہم بین الاقوامی اداروں کو بھارت کے خلاف ٹھوس اقدامات کرنے چاہئیں تاکہ وہاں اقلیتوں کے تحفظ کو یقینی بنایا جا سکے۔
نریندر مودی امریکہ یاترا پر اربوں ڈالر کے دفاعی معاہدوں کی ایک طویل فہرست اپنے ساتھ لے کر گیا تھا۔ کہا جا رہا ہے کہ اس دورے کے دوران تقریباً 25بلین ڈالر کے دفاعی سودوں کو حتمی شکل دی گئی ہے۔ حالیہ عرصے میں بھارت دفاعی ساز و سامان کا سب سے بڑا درآمد کنندہ ملک بن چکا ہے۔ بھارت کی طرف سے امریکہ سے اب تک خریدے گئے دفاعی سازو سامان میں C-130J سپر ہرکولیس ٹرانسپورٹ ہوائی جہاز‘ C17 گلوب ماسٹر‘ بوئنگ کے اپاچی اٹیک ہیلی کاپٹر AH-64‘ چنوک ہیلی کاپٹر CH-47‘ P-8 سمندری نگرانی کے طیارے اور M777 ہووٹزر شامل ہیں۔ بھارت کیساتھ امریکی دفاعی تجارت 2008ء میں صفر تھی جو اب 20بلین ڈالر سے زیادہ ہو گئی ہے۔ عراق‘ شام اور افغانستان میں تاریخی شکست سے دوچار ہونے کے بعد اقتصادی بحرانوں میں مبتلا واشنگٹن دنیا بھر میں بیجنگ کے بڑھتے اثر و رسوخ سے خائف ہو کر عالمی افق پر اقتدار کو طول دینے کیلئے نئی بساط بچھا رہا ہے۔ تہران اور ریاض کے درمیان طویل عرصے بعد سفارتی تعلقات کی بحالی سے امریکہ و مغرب کو شدید جھٹکا لگا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکہ اپنے اتحادیوں کو چین کیخلاف نیا محاذ کھول کر انہیں ایٹمی ٹیکنالوجی سے لیس کر نے کے نت نئے معاہدے کر رہا ہے۔ بھارت سے مزید دفاعی ٹیکنالوجی ڈیلز اسی مذموم سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ 'آکوس‘ سکیورٹی معاہدہ بھی جنوب مشرقی ایشیا میں عالمی طاقت کے توازن میں ایک نئے باب کا اضافہ تھا۔ 'کواڈ‘ فورم میں موجود امریکہ کا سب سے طاقتور اور قریبی اتحادی جاپان ہے جس کے پاس ہر قسم کی ٹیکنالوجی حاصل کرنے اور اسے ترقی دینے کی غیرمعمولی صلاحیت موجود ہے۔ عالمی منظرنامے میں ہونیوالی ڈرامائی تبدیلی‘ توانائی کے بحران‘ اجناس کی گرانی و کمیابی نے ترقی یافتہ اور ترقی پذیر ممالک کو ایک نئے امتحان سے دوچار کر دیا ہے۔ جنگوں کے مضر اثرات سے بڑی بڑی معیشتیں متاثر ہو رہی ہیں لہٰذا اگر مستقبل میں اس مسئلے کا کوئی موثر حل نہ نکالا گیا تو ان بحرانوں کا سونامی کئی ممالک کو اپنے ساتھ بہا کر لے جائے گا۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ بی جے پی حکومت عالمی قوانین کو پس پشت ڈال کر ایشیا میں بالا دستی کے خواب کو عملی جامہ پہنانے کیلئے سرگرم ہے۔ بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم خطے کے ممالک کیلئے ہمیشہ ہی تشویش کا باعث رہے ہیں لیکن اب امریکہ سے مزید دفاعی و عسکری معاہد ے برصغیر میں طاقت کا توازن بگاڑنے کیساتھ ساتھ علاقائی امن و سلامتی کو بھی مزید خطرے میں ڈال دیں گے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں