براعظم افریقہ دنیا کا ایک وسیع و عریض اور قیمتی معدنی وسائل سے مالا مال ایسا مظلوم و ستم رسیدہ خطہ ہے کہ جہاں فرانس، برطانیہ سمیت دیگریورپی سامراجی ممالک مثلاً بلجیم، نیدرلینڈز، اٹلی اور سپین وغیرہ نے اپنی عسکری قوت کے بل پر حملہ کرکے اپنے استبدادی پنجوں کو جمایا اور مقامی سیاہ فام آبادی پر وہ مظالم ڈھائے جن کی مثال نہیں ملتی۔ اس وقت بھی تمام بڑی طاقتوں کا یہاں کے وسائل پرقبضے کیلئے باہمی تصادم، قبائلی، علاقائی اور مذہبی اختلافات کو اچھالنے میں اہم کردار ہے۔ غیرملکی طاقتوں کے اقتدار سے کافی حد تک نجات حاصل کرنے کے بعد بھی افریقی ممالک کو مکمل طورپر سامراجی طاقتوں سے چھٹکارا نہیں مل سکااور تاحال مختلف حیلوں بہانوں سے انہوں نے افریقی ممالک کو اپنے پنجوں میں جکڑا ہوا ہے۔ اہم افریقی ملک سوڈان کو عالمی استعمار نے اپنی سازشوں کی آماجگاہ بنارکھا ہے جو اس وقت ایک بڑے المیہ سے دو چارہے۔ سوڈان میں15اپریل سے جاری تنازع شدید سے شدید تر ہوتا جارہا ہے۔ سوڈانی افواج کے موجودہ سربراہ جنرل عبدالفتاح البرہان کی قیادت میں سوڈانی افواج اور جنرل محمد حمدان دمیتی دقلو کی قیادت میں ریپڈ سپورٹ فورسز (RSF) کے نیم فوجی دستوں کے درمیان خونریز جنگ جاری ہے۔
سوڈان کی زیادہ تر آبادی راسخ العقیدہ مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ سوڈان کا شمار رقبے کے لحاظ سے عالم اسلام کے ایک بڑے ملک میں ہوتا تھا۔ 2005 ء میں جنوبی سوڈان کو خودمختاری اور بالآخر 2011ء میں اس کو علیحدہ کردیا گیا۔ 'جنوبی سوڈان ‘ امریکہ، فرانس اور برطانیہ کی سرپرستی اور اقوام متحدہ کی زیر نگرانی ایک نام نہاد ریفرنڈم کے نتیجے میں سوڈان سے علیحدہ ہوکر اب ایک الگ اور خودمختار ملک بن چکا ہے۔ سوڈان میں 1983ء میں شرعی قوانین متعارف کرائے گئے؛ تاہم ان قوانین کے نفاذ کے بعد شمالی سوڈان اور جنوبی سوڈان (جہاں عیسائیوں کی اکثریت ہے) کے درمیان خانہ جنگی چھڑ گئی اور یہ 22سال تک جاری رہی تھی۔ اس دوران تقریباً 20لاکھ افراد مارے گئے اور یہ لڑائی جنوبی سوڈان کی علیحدگی اور ایک الگ ملک کے قیام پر منتج ہوئی۔ وسیع و عریض رقبے، پڑوسی ممالک کی قربت ، ہارن آف افریقہ، بحر ہند، صحرائے صحارا کے علاوہ افریقہ اور عرب دنیا کے سنگم پر واقع ہونے کی وجہ سے سوڈان اہم جغرافیائی پوزیشن کا حامل ہے۔ اس کے ساحل دنیا کے خوبصورت ترین ساحلوں میں شمار ہوتے ہیں۔ ایتھوپیا اور یوگنڈا کے ساتھ دریائے نیل میں گھرا سوڈان، جنوب میں نیلے اور سفید دریائے نیل، جنوب ہی میں جنگلاتی وسائل کے بڑے حصے، تیل کے ذخائر ، قیمتی معدنیات خصوصاً سونا، کرومیم، سالٹ اور جپسم سمیت کئی دیگر معدنیات کے سبب مشہور ہے اور یہ عوامل اس کی وقعت کو دنیا میں نمایاں مقام دلانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔
اس وقت سوڈان کے شہر ام درمان میں متحارب افواج میں شدید لڑائی جاری ہے۔ سوڈانی افواج کے حالیہ فضائی حملوں میں سینکڑوں افراد ہلاک اور ہزاروں زخمی ہو چکے ہیں۔ دو مسلح اور اعلیٰ تربیت یافتہ فوجی گروہ سوڈان آرمڈ فورسز یعنی سوڈانی افواج اور رپیڈ سپورٹ فورس (آر ایس ایف) کے درمیان اس قدر بلا کا معرکہ جاری ہے کہ یہ آپس میں ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہیں۔ سڑکیں لہولہان ہیں اور فضا میں گولا و بارود کی بو اور دھماکوں کی آوازوں کے علاوہ کچھ سنائی نہیں دیتا۔ سریع الحرکت فورسز (ریپڈ ایکشن فورس) نے لڑائی کے بعد دارالحکومت خرطوم اور جڑواں شہروں ام درمان اور بحری پر تیزی سے غلبہ حاصل کیا ہے۔ خطرہ ہے کہ جس لڑائی کے لیے اب تک ثالثی کی کوئی کوششیں کامیاب نہیں ہو سکیں‘ یہ بہت جلد سوڈان سمیت پورے علاقے کو ایک وسیع خانہ جنگی کی طرف لے جا سکتی ہے۔ اب تک سوڈان کی خانہ جنگی سے 5000 کے لگ بھگ افراد ہلاک، 8000 زخمی اور 25 لاکھ سے زیادہ بے گھر ہو چکے ہیں۔ جنگ بندی کی تمام تر کوششوں کے باوجود ابھی تک بحران ختم نہیں کرایا جا سکا‘ یہاں تک کہ عارضی جنگ بندی کے اعلانات کے باوجود دونوں فریقوں کی جانب سے خلاف ورزی کا سلسلہ جاری رہا جس سے صورتحال مزید المناک بن گئی۔
سوڈان کی آج کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو اس وقت سوڈان کی فوج کے سربراہ‘ جن کو ہوائی طاقت بھی میسر ہے‘ ریپڈ فورس کو ختم کرنا چاہتے ہیں جبکہ دمیتی دقلو کی حامی جماعتوں کا کہنا ہے کہ ان کا مقصد اقتدار میں رہنا نہیں بلکہ سوڈانی فوج کے ان جنرلوں کو کیفرِ کردار تک پہنچانا ہے جو جنگی جرائم میں ملوث ہیں۔ دمیتی دقلو نظام حکومت کو جمہوری طورپر منتخب نمائندہ سرکار کو منتقل کرنے کے خواہشمند ہیں۔اس بحران کی جڑیں سوڈان کے ماضی میں پیوست ہیں۔ 1989ء میں جنرل عمر البشیر نے اس وقت کے وزیر اعظم صادق المہدی کو معزول کرکے اقتدار پر غلبہ حاصل کیا۔ بعد میں عمر البشیر نے 30سال (1989ء تا 2019ء ) تک مطلق العنانیت کے ذریعے اپنے مخالفین سمیت اسلام پسندوں کو پابند سلاسل کرنے میں بھی کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ 2013 ء میں جب عرب خطے میں ''عرب بہار‘‘ کی تحریک کا آغاز ہوا تو سوڈان کے عوام بھی عمرالبشیر کی آمریت کے خلاف احتجاج کے لیے سڑکوں پر آگئے لیکن انہیں وحشیانہ جبر کا سامنا کرنا پڑا۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق سو سے زائد افراد ہلاک اور ہزاروں کو گرفتار کیا گیا۔ عمر البشیر نے متعدد فوجی جوانوں اور اسلام پسند کارکنوں کی گرفتاری کا حکم دیا جن کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ وہ حکومت کے خلاف بغاوت کی سازش کر رہے تھے۔ 2019ء میں عوامی مظاہروں کے بعد مطلق العنان عمر البشیر کو اقتدار سے بے دخل کردیا گیا اور ایک عبوری انتظامیہ اور ٹرانزیشنل حکومت قائم کی گئی۔ سوڈانی فوج کے سربراہ جنرل عبدالفتح البرہان مغرب کی آنکھ کا کانٹا بنے ہوئے ہیں کیونکہ وہ سوڈان میں مذہبی بالادستی کے حامل سیاسی نظام کے حامی ہیں۔ جبکہ دوسری جانب آر ایس ایف کی قیادت کسی بھی مذہبی نظریے یا آئیڈیالوجی سے متاثر سیاسی طبقے کی حامی نہیں۔ اس کے برعکس جنرل برہان چاہتے ہیں کہ جو بھی نظام اتفاقِ رائے یا سمجھوتے سے وجود میں آئے‘ اسلام پسندوں کو بھی اس میں ایک اہم ذمہ داری ملے اور فیصلہ سازی میں ان کو بھی رائے دینے کا حق ملے۔
آج سوڈان کی سڑکوں پر فوج کے دونوں دھڑوں میں زبردست جنگ چل رہی ہے جبکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ صورتحال تیزی سے خراب ہوتی جارہی ہے۔ تشدد کے سبب مزید لاکھوں افراد کے غریب اور بے سہار اہونے کا خدشہ ظاہر کیا جارہا ہے۔ معصوم بچے خاص طور پر اس جنگ کا نشانہ بن رہے ہیں۔ امدادی کاموں کیلئے سرگرم کارکنان کو بھی حملوں کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ یہ ایک ایسا انسانی بحران ہے جس سے پورے خطے کو عدم استحکام کا خطرہ ہے۔ جنگ سے پہلے ہی ہر تیسرا سوڈانی امداد پر انحصار کرتا تھا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ موجودہ بحران میں سوڈانی فوج کے سربراہ جنرل برہان اور آر ایس ایف کے سربراہ دمیتی دقلو کے درمیان کا یہ معرکہ کتنا مزید جانی اورمالی نقصان پہنچاتا ہے اوریہ قتل وغارت کا بازار کہاں جاکر ٹھہرتا ہے؛ یہ حقیقت بھی نہیں جھٹلائی جا سکتی کہ بین الاقوامی قوتوں کی سوڈان کی توانائی، دفاع، جنگلات، کان کنی، معدنیات اور زراعت جیسے شعبوں میں دلچسپی میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ دراصل افریقہ اور مغربی ایشیا میں چین کے بڑھتے اثر و رسوخ نے مغرب و امریکہ کو بے چین کر رکھا ہے۔ چین نے افریقہ کے ہر ملک میں کان کنی، مواصلات، ادویات، پینے کے پانی اور زراعت جیسے مسائل کو حل کرنے کے مختلف منصوبے تشکیل دے رکھے ہیں۔ اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں کہ سوڈان جیسا بڑا مسلم ملک اسرائیل کی آنکھوں میں بھی کھٹکتا رہا ہے۔ اسرائیل کا سٹریٹیجک ہدف یہ ہے کہ سوڈان کا اثر و رسوخ خلیج عدن تک ہی ہو۔ اس صورتحال سے نمٹنے کے لیے مسلم ملکوں کو آگے قدم بڑھانا ہوگا‘ ورنہ اس کا راست نقصان مسلم امہ ہی کو بھگتنا پڑے گا۔ یقیناعالم ا سلام کے لیے بھی سوڈان کا بحران ایک لمحۂ فکریہ ہے۔