اسلام کے آفاقی پیغام کے امین، ملتِ اسلامیہ کے غم خوار، کشمیر وفلسطین کے مظلوم مسلمانوں کی آواز اورپاکستان کی جغرافیائی و نظریاتی سرحدوں کے پاسبان عظیم جرنیل حمیدگل مرحوم کو ہم سے بچھڑے 15 اگست 2023ء کو آٹھ برس مکمل ہو جائیں گے۔ 15 اگست 2015ء کو بطل حریت‘ مردِ حر جنرل (ر) حمید گل پاک سر زمین پر خدا کے نظام کے نفاذ کی جدوجہد کی راہ میں اللہ کے حضور جا پہنچے۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ جو شہرت حمید گل مرحوم کے حصے میں آئی‘ بہت کم لوگوں کو ملتی ہے اور اس کی وجہ تھی ان کا نظریۂ جہاد اور اسلام اور پاکستان سے بے لاگ وابستگی۔ جنرل (ر) حمید گل نظریۂ پاکستان اور پاکستان میں اسلامی نظام کے قیام کے بہت بڑے حامی اور داعی تھے۔ وہ نظریۂ پاکستان کے دفاع میں سیسہ پلائی دیوار بن جایا کرتے تھے۔ اسلام اور پاکستان سے محبت ان کا وہ اثاثہ تھا جسے وہ کسی صورت گنوانے کیلئے تیار نہ تھے اور فوج سے ریٹائرمنٹ کے باوجود ملک کی جغرافیائی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کو اپنا فرضِ اولین سمجھتے تھے اور برملا اس کا اظہار کرتے تھے کہ انہوں نے پاکستان کی حفاظت کا حلف تمام عمر کیلئے اٹھا رکھا ہے نہ کہ محض نوکری کی حد تک۔ وہ کہا کرتے تھے کہ ایک فوجی خواہ وہ حاضر سروس ہو یا ریٹائرڈ‘ ملک و قوم کی حفاظت کیلئے ہر دو صورتوں میں سربکف رہتا ہے۔ انہوں نے اس کا عملی ثبوت بھی دیا اور زندگی کے آخری سانس تک نظریۂ پاکستان کی حفاظت کے موقف پر قائم رہے۔
ان کی سپاہیانہ صلاحیتوں، عسکری دانشمندی اور فوجی حکمت عملی نے دنیا کو محو حیرت کر دیا تھا مگر یہ ان کا عجز اور انکساری تھی کہ انہوں نے اپنی سروس اور ریٹائرمنٹ کے بعد بھی اپنی ذاتی حفاظت کے لیے کبھی سکیورٹی گارڈز نہیں رکھے، حالانکہ آپ کو بھارت سمیت پاکستان کے تمام اندرونی و بیرونی دشمنوں کی جانب سے سنگین دھمکیاں ملتی رہیں مگر آپ نے اپنی جان کی حفاظت کو کبھی ترجیح نہیں بنایا۔ آپ کو نہ صرف افغان مجاہدین بلکہ وسطی ایشیا کے مسلمان بھی اپنا نجات دہندہ سمجھتے ہیں۔ مشرقی و مغربی جرمنی کے ادغام اور دیوارِ برلن کے ٹوٹنے پراس کا ایک ٹکڑا جنرل صاحب کو تحفتاً بھیجا گیا تھا جس پر یہ الفاظ کنندہ ہیں ''دیوارِ برلن کا انہدام (1989ء) اس شخص کے نام جس نے اس دیوار پر پہلی ضرب لگائی‘‘۔ اس بات سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ جنرل (ر) حمید گل کو پاکستان سے انتہا درجے کا عشق تھا۔ وہ کہتے تھے ''میں مسلمان بھی ہوں اور پاکستانی بھی ہوں، میرے اندر صرف پاکستانیت ہے‘‘۔ ان کا یہ غیر متزلزل یقین تھا کہ پاکستان عالم اسلام کی قیادت کرنے کی مکمل اہلیت رکھتا ہے۔ درحقیقت مرحوم ایک سچے اور کھرے محب وطن تھے۔ حب الوطنی کا جذبہ ان میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اور ان کا آخری سفر بھی قومی پر چم کے سائے تلے طے ہوا۔ وہ غالباً پہلے و آخری قومی رہنما ہیںجن کی حب الوطنی پر آج تک کوئی آنچ نہیں آئی۔ جنرل حمید گل جسمانی طور پر آج ہم میں موجود نہیں مگر ان کا نظریہ‘ پاکستانیت کی ان کی جلائی گئی شمع آج بھی کروڑوں دلوں میں روشن ہے۔ وہ آج بھی اپنی قوم کے دلوں میں زندہ ہیں۔اس بات میں کوئی دو رائے نہیں کہ آپ کی رحلت کے بعد کشمیر کاز بھی ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔
حمید گل مرحوم نے ساری عمر اپنے اصولوں کے تحت گزاری اور انہی اصولوں کی پاسداری میں ہمیشہ وقت کے سلطان کے سامنے جھکنے سے انکاری رہے۔ آپ کے تجزیے کا کوئی بھی جملہ بے وزن نہیں ہوتا تھا، یہی وجہ ہے کہ ان کی رحلت کے بعد بھی ان کے نظریات کا چرچا ہے جس کا مطلب یہی ہے کہ ان کا نظریہ‘ ان کی ڈاکٹرائن آج بھی سلامت ہے۔ جنرل صاحب کہا کرتے تھے '' میری منزل اسلام ہے‘ اسلام آباد نہیں‘‘۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ پاکستان میں اسلامی نظام کا نفاذ چاہتے تھے۔ وہ اکثر مجھے کہا کرتے تھے کہ جس دن میں اس دنیا سے چلا جائوں‘ تم میرے مشن کو جاری رکھنا اور سربلندیٔ اسلام اور دفاعِ پاکستان کیلئے زندگی کے آخری سانس تک لڑنا اور ہمیشہ حق کا ساتھ دینا۔ میں عبداللہ حمید گل‘ ان کا جانشین اور ان کا نظریاتی وارث ہونے کے ناتے آج بھی ان کے مشن پر گامزن ہوں اور میں ان کی وطن کے دفاع کی کھائی گئی قسم کو آخری دم تک نبھائوں گا ان شاء اللہ! جنرل صاحب پاکستانی قوم کو الرٹ کرتے ہوئے کہا کرتے تھے '' افغانستان پر روسی حملہ‘ افغانستان بہانہ اور پاکستان ٹھکانہ ہے‘‘ اسی طرح امریکہ کے بارے میں بھی کہتے تھے ''نائن الیون بہانہ افغانستان ٹھکانہ اور پاکستان نشانہ ہے‘‘۔ افغان جنگ کے حوالے سے وہ برملا کہا کرتے تھے کہ امریکہ اس جنگ میں فتح یاب نہیں ہو سکتا، آج نہیں تو کل اس کو افغانستان طالبان کے حوالے کر کے نکلنا ہی ہو گا۔ آج اُس مجاہد کے الفاظ حقیقت کر روپ دھار کر افغانستان میں امریکی پسپائی کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں۔
آج جن پُرآشوب حالات میں پاکستانی قوم اپنا 76واںجشنِ آزادی منا رہی ہے‘ اس کی پیش گوئی کرتے ہوئے وہ کہا کرتے تھے کہ ''دشمن ہمیں نفاق کی دو دھاری تلوار سے کاٹ رہا ہے‘ اس کے وار سے صرف اتحاد کی ڈھال ہی سے بچا جا سکتا ہے‘‘۔ آج ہمارے سیاسی رہنما و لیڈران اپنے سیاسی مفادات کی خاطر ملک کو جس نہج پر لے کر جا رہے بلکہ لے جا چکے ہیں‘ وہ کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ہے۔ منظم منصوبہ بندی کے ساتھ ریاستی اداروں اور عوام کے مابین خلیج پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ اداروں کے خلاف منافرت کی آگ سلگائی جا رہی ہے، یہ سب کس کے ایما پر ہو رہا ہے؟ یہ امر کسی سے ڈھکا چھپا نہیں کہ امریکہ پاکستان کو ڈی نیوکلیئرائز کر نا چاہتا ہے اور اس سے پہلے اسے ڈی ملٹرائز کرنے کی سازش تیار ہے کیونکہ افواجِ پاکستان کے ہوتے ہوئے ڈی نیوکلیئرائز کرنے کی کوئی سازش کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی۔ اسی لیے فوج اور عوام میں نفرت پھیلائی جا رہی ہے۔ اس کے بعد کیا ہو گا‘ یوکرین کی تباہی کی مثال اس حوالے سے ہمارے سامنے ہے۔ ایٹمی ہتھیار سرنڈر کرنے کے بعد اسے روس نے اڈھیر کر رکھ دیا۔ بے شک پاک فوج ہی پاکستان کے مضبوط دفاع کی ضامن ہے۔ حمید گل مرحوم نے موجودہ بوسیدہ سیاسی نظام کے حوالے سے بھی پیش گوئی کی تھی جو آج سچ ثابت ہو رہی ہے کیونکہ موجودہ نظام صرف کرپٹ لیڈرشپ ہی پیدا کر سکتا ہے۔ قائداعظم نے برصغیر پاک و ہند کے اُن مسلمانوں کو ایک لڑی میں پرویا تھا جن کی نہ تہذیب ملتی تھی نہ سرحد، اس کے باوجود ایک ہزار کلومیٹر کے فاصلے کے باوجود دو خطوں کے لوگوں کو انہوں نے ایک قوم بنا دیا۔ یہ ہوتے ہیں قومی لیڈر جن کی نظر ووٹوں یا کرسی پر نہیں ہوتی بلکہ انہیں ملک کا مستقبل اور اس کی سلامتی عزیز ہوتی ہے۔ آج جنرل (ر) حمید گل کے افکار و نظریات کی روشنی میں اس بوسیدہ و فرسودہ نظام کو بچانے کے بجائے ہمیں اسلامی نظام کے نفاذ کا مطالبہ کرنا چاہیے جو قراردادِ مقاصد اور آئینِ پاکستان کا تقاضا بھی ہے۔
ایک طرف ہمارے آئین میں اللہ کی حاکمیتِ اعلیٰ کو تسلیم کیا گیا ہے تو دوسری جانب یہ تضاد پایا جاتا ہے کہ ہم نے حکمرانی سیاسی جماعتوں کو سونپ رکھی ہے۔ جنرل صاحب کہا کرتے تھے کہ عالمی استعماری نظام نے ہمیں اس قدر جکڑ رکھا ہے کہ ہم اپنی ہی تھیوری سے اپنے گلے کاٹ رہے ہیں اور یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ اندرونی نفاق اور بیرونی مداخلت کے خلاف ہم سینہ سپر ہو جائیں۔ بیرونی مداخلت کی بہت سی جہتیں اور صورتیں ہیں جن میں سب سے بدتر بیرونی مداخلت کے ذریعے ہم پر کٹھ پتلی حکمرانوں کا مسلط ہونا ہے۔ مرحوم حمید گل نے کہا تھا کہ ہم یہ بھول بیٹھے ہیں کہ ہماری اصل پہچان اسلام ہے‘ قرآن ہے۔ بے شک دنیا کے تمام باطل نظریات ہمارے ہاتھوں شکست خوردہ ہوئے اور اب ہم نے اقوام عالم کو نظریۂ اسلام دینا ہے۔ اس وقت دنیا میں نظاموں کی برتری کی کشمکش چل رہی ہے۔ بلاشبہ پاکستان کے نام پر بنے والا یہ خطۂ زمین قائداعظم کے فرمان کے مطابق ایک تجربہ گاہ ہے جہاں اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق اجتماعی و انفرادعی اور اجتماعی زندگیوں کو ڈھالنا ہے۔ اس وقت ہمارے پاس سنہری موقع ہے کہ ہم نیا نظام‘ جو اسلامی طرز میں ڈھلا ہوا ہو‘ لانے کی تگ و دو میں لگ جائیں اور اس کے لیے آئین میں موجود تضادات کو دور کرنے کی ضرورت ہے۔