ایک بھارتی صحافی نے 1999ء میں اپنے ایک آرٹیکل میں لکھا تھا کہ ''اس وقت تو محض بیج بوئے جا رہے ہیں‘ فصل کاٹے جانے کا وقت تو ابھی آنا ہے اور فصل کاٹے جانے کے وقت بھارت میں جو کچھ کاٹا جا رہا ہوگا وہ وہی ہوگا جو سپین میں ہو چکا ہے‘‘۔ مسلمانوں نے سپین پر ہزار سال تک حکومت کی اس کے باوجود آج سپین میں مسلمانوں کا وجود تک نہیں ہے۔ سپین میں مسلمانوں کے خاتمے کے حوالے بھارت کے ہندو فسطائیوں کی گہری دلچسپی رہی ہے اور انہوں نے اس کا مطالعہ اس غرض سے کیا کہ بھارت میں یہ سب دہرایا جا سکے۔ آج نریندر مودی کی سرپرستی میں منظم مسلم کش فسادات ہو رہے ہیں۔ مسلمانوں میں خوف کی کیفیت پیدا کرکے افواج اور پولیس جیسے اداروں سے ان کا صفایا کر دیا گیا ہے۔ سرکاری نوکریوں کے دروازے بھارتی مسلمانوں پر بند ہیں، تعلیمی اداروں میں اردو زبان کے سیکھنے‘ سکھانے پر بھی پابندی لگائی جا رہی ہے۔ بھارت کے ہندو نازی اس وقت بھارت میں سپین کے منظر نامے کو دہرانے کی مکمل منصوبہ بندی کر چکے ہیں کیونکہ ہندوئوں کی (نام نہاد) اونچی ذات والوں کے لیے سب سے بڑی اقلیت کے طور پر مسلمان ایک بڑا سر درد بن چکے ہیں جو مردم شماری رپورٹ کے مطابق بھارت کی مجموعی آبادی کا 14 فیصد ہیں، اس کے برعکس عیسائی 2.3 فیصد، سکھ 1.7 فیصد اور بدھ مت کے پیروکار محض 0.7فیصد ہیں۔
توجہ طلب بات یہ ہے کہ بھارت میں اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں پر جو مظالم ڈھائے جارہے ہیں اور ان کی شناخت ختم کرنے کیلئے جو ناپاک اقدامات کیے جارہے ہیں ان سے یہ خدشہ جنم لیتا ہے کہ مسلمانوں کیلئے بھارت ایک اور اندلس بنا چاہتا ہے۔ بھارت میں منی پور سے ممبئی اورگروگرام سے میوات تک آر ایس ایس‘ شیو سینا‘ بجرنگ دَل اور بی جے پی نے ہندو جنونیت کو فروغ دینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ منی پور میں عیسائی خواتین کو برہنہ کرکے ان کی پریڈ کرائی گئی، ان کی اجتماعی عصمت ریزی کے ہولناک سانحات بھی سامنے آئے۔ دورِ حاضر کے ہٹلر نریندر مودی نے ان افسوسناک واقعات پر کوئی تشویش ظاہر نہیں کی۔ مودی کے ہندوتوا نظریے نے اقلیتوں بالخصوص مسلمانوں سے جینے کا حق تک چھین لیا ہے۔ مسجدوں کو تالے لگا کر سفر میں نمازوں کی ادائیگی کو تقریباً ناممکن بنا دیا گیا ہے، کرتا پاجامہ پہننا اور داڑھی رکھنا خطرناک ہوتا جا رہا ہے، برقع پہننے والی خواتین کے لیے مختلف قسم کی مشکلات کھڑی ہو گئی ہیں، سوشل میڈیا پر انہیں دہشت گرد اور اغوا کار بتا کر ان کے خلاف مہم چلائی جا رہی ہے۔
بھارت بھر میں اب مسلمانوں کے خلاف ایک نئے انداز سے انتقامی کاروائیوں کا سلسلہ چل پڑا ہے۔ مدھیہ پردیش، اتر پردیش، گجرات اور دہلی میں ظالمانہ طریقہ سے انتظامیہ کے ذریعے بلڈوزر چلا کربے قصور مسلمانوں کے گھروں کو مسمار کیا جا رہا ہے۔ اس طرح مخالفین کے گھروں کو مسمار کرنے کا ظالمانہ قانون بھارت کے علاوہ صرف اسرائیل میں پایا جاتا ہے۔ ہندوؤں کی جانب سے ''شوبھا یاترا‘‘ کے دوران میوات اور ہریانہ کے ضلع نوح میں مسلمانوں کی املاک پر بلڈوزر چلانا سَنگھ پریوار کی وحشت و درندگی کی کا بین ثبوت ہیں۔ ہندو فرقہ پر ست سرعام یہ نعرے لگا رہے ہیں کہ ''مسلمانوں کے دو ہی استھان: پاکستان یا قبرستان‘‘۔یعنی یا تو بھارت میں بسنے والے مسلمان ہجرت کر کے پاکستان چلے جائیں وگرنہ بھارت میں ان کا مقدر صرف موت ہے۔ مسلمانوں کے قاتل آزاد گھوم رہے ہیں بلکہ انہیں اسمبلیوں اور پارلیمنٹ کی رکنیت اور وزارتیں دی جا رہی ہیں۔ بے لگام انتہا پسند مسلم اکثریتی علاقوں میں مسلسل حملے کررہے ہیں اور مسلمانوں کی دکانوں، گھروں، کاروبار اوراملاک کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
حالیہ دنوں میں ہریانہ کے ضلع رائے گڑھ میں شدت پسند ہندو تنظیم وشوا ہندو پریشد اور بجرنگ دَل نے درجنوں مسجد یں شہید کردی ہیں۔ جے پور سے ممبئی جانے والی ایکسپریس ٹرین میں تین بے قصور مسلم مسافروں کو شہید کیا گیا۔ سوشل میڈیا پر وائرل وڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ ریلوے پولیس کا کانسٹیبل چیتن سنگھ مسلمانوں کی لاشوں پر کھڑے ہو کرکہہ رہا ہے کہ ''بھارت میں رہنا ہے تو مودی اور یوگی کو ووٹ دینا ہوگا‘‘۔ ٹرین میں ایک ریاستی اہلکار کی دہشت گردی اس نفرت آمیز ذہنیت کی عکاس ہے جس کوگزشتہ چند برسوں کے دوران بی جے پی کے دور میں باقاعدہ منصوبہ بندی سے پروان چڑھایا گیا اور جس کا ایک واضح ثبوت ہری دوار کے ایک مذہبی اجتماع میں ہندوؤں سے مسلمانوں کے خلاف ہتھیار اٹھانے اور ان کی نسل کشی کی اپیل ہے۔ مہاراشٹر کے کئی شہروں میں نکالی گئی ریلیوں میں بھی مسلمانوں کے سماجی بائیکاٹ کے علاوہ ان کو مارنے اور کاٹنے کی اپیلیں کی گئیں۔ دہلی میں جنتر منتر کے مقام پر منعقدہ ایک جلسے میں بھگوا سادھوئوں نے پوچھا تھا کہ ''مسلمانوں کے خلاف کب ہتھیار اٹھاؤگے‘ ان کو کب مارو گے‘ کب کاٹو گے‘‘۔ ایسے نجانے کتنے پروگراموں کا انعقاد کیا گیا جن میں مسلمانوں کے خلاف سرعام زہر اگلا گیا لیکن ذمہ داروں کے خلاف خاطرخواہ کارروائی نہیں ہوئی۔ یہ اکا دکا یا انفرادی واقعات نہیں ہیں بلکہ منظم منصوبہ بندی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔
اس وقت بھارت بھر میں مسلمانوں کے خلاف دھمکیوں کی خطرناک مہم پہلے سے بھی زیادہ شدت کے ساتھ جاری ہے۔ ہریانہ کے ریاستی حکام کی طرف سے مکانات گرانے کے نوٹس دیے جاتے ہیں‘ بی جے پی، بجرنگ دَل اور وشواہندو پریشد کے جلوس ہر روز نکلتے ہیں جن میں اعلان کیا جاتا ہے کہ ہریانہ کو منی پاکستان نہیں بننے دیں گے، ان کو نکال کر دم لیں گے، جس دکاندار نے کسی مسلمان کو ملازم رکھا یا کسی مسلمان تاجر سے مال خریدا، اس کا بھی بائیکاٹ کریں گے۔ مودی کی سر پرستی میں ہندو فاشسٹ تنظیموں کے نظریات اور مقاصد کا گولوالکر کی کتاب ''We, or our Nationhood Defined‘‘ سے پتا چل جاتا ہے جس میں اس نے لکھا کہ ''ہندوستان میں صرف وہی لوگ محب وطن ہیں جو ہندو نسل اور قوم کو سربلند کرنے کی خواہش اپنے دل میں رکھتے ہیں اور اسی کے تحت فعال ہوتے ہیں اور اس مقصد کو پورا کرنے کیلئے مصروف رہتے ہیں۔ دیگر تمام یا تو غدار ہیں یا قومی مقصد کے دشمن ہیں یا اگر تھوڑی مہذب زبان استعمال ہو تو وہ بیوقوف ہیں‘‘۔ موجودہ حالات و واقعات بتاتے ہیں کہ مقبوضہ کشمیر سے لے کر کنہیا کماری تک‘ پورے بھارت میں مسلمانوں کا جینا دشوار ہو چکا ہے۔ بھارت کے انگریزی جریدے '' دی ہندو‘‘ کے مطابق ''یقینی طور پر ہم وہاں پہنچ رہے ہیں کہ جہاں ایک مسلمان کے لیے عملی مسلمان بننا مشکل ہو رہا ہے۔ مساجد بند، اذان خاموش، نمازیوں پر پابندی اور غنڈے مکمل چھوٹ کا مزہ لے رہے ہیں۔ نوح، سوہنا اور گروگرام کے مجرم جب سامنے ہیں تو کیوں انہیں گرفتار نہیں کیا جا رہا ہے ؟ اس سوال کے دو جواب ہو سکتے ہیں؛ ایک یہ کہ بی جے پی کی ہریانہ حکومت نہیں چاہتی کہ کوئی مجرم گرفتار کیا جائے یا پھر بھگواسیاستدان یہی چاہتے ہیں کہ یہ جو فرقہ وارانہ تشدد شروع ہوا ہے، یہ چلتا رہے‘ اس پر کوئی روک نہ لگے۔ دونوں ہی صورتوں میں مقصد صرف اور صرف ایک ہے۔ مودی سرکار ہر حال میں 2024ء کا الیکشن جیتنا چاہتی ہے اور اس کے لیے ' فرقہ وارانہ تشدد ‘ کے آزمودہ نسخے سے بہتر کیا ہو سکتا ہے‘‘۔
ادھر مقبوضہ کشمیر کے سابق گورنر ستیا پال ملک نے ا پنے ایک انٹرویو میں انکشاف کرتے ہوئے کہا ہے کہ مودی حکومت انتخابات جیتنے کیلئے پلوامہ جیسا فالس فلیگ آپریشن دہرا سکتی ہے اور یہ فالس فلیگ آپریشن رام مندر پر حملہ یا بی جے پی کے کسی لیڈر کے قتل کی سازش بھی ہوسکتا ہے۔ ستیا پال کے مطابق مودی حکومت اگر پلوامہ حملہ کر سکتی ہے تو وہ کچھ بھی کر سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ 'مسلمان کبھی گوشت، کبھی نماز، کبھی اذان، کبھی تاج محل تو کبھی بابری مسجد کے نام پر آر ایس ایس کے نشانے پر ہیں‘۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ بھارت کے ان طاغوتی وفسطائی مقاصد کو پورا نہ ہونے دیا جائے اور ان کی راہ روکی جائے وگرنہ بھارت مسلمانوں کیلئے ایک اور اندلس بن جائے گا اور یہاں سے ان کا نام و نشان بھی مٹا دیا جائے گا۔