جان لیوا مہنگائی اور بے بس عوام

وطنِ عزیز میں اس وقت افراطِ زراور مہنگائی کی شرح اپنی بلند ترین سطح کو چھو رہی ہے یعنی اس وقت پاکستان میں ہائپر انفلیشن دیکھنے میں آرہا ہے۔ بلاشبہ روزافزوں مہنگائی آج ہمارے سنگین ترین مسائل میں سے ایک ہے۔ اس سے لوگوں کی زندگی دوبھر ہو گئی ہے۔ کوئی دن نہیں جاتا کہ حکومت کی طرف سے کسی نہ کسی ضروری چیزکی قیمت میں اضافے کا اعلان نہیں کیا جاتا، جو عوام کی تکلیف میں مزید اضافے کا سبب بنتا ہے۔ آٹا، چاول، دال، گھی، تیل، گوشت، سبزی غرض روز مرہ استعمال کی کوئی شے اب عوام کی دسترس میں نہیں رہی۔ پہلے ہزارروپے کی بڑی حیثیت ہوا کرتی تھی، اب وہی ہزار روپے کا نوٹ ایسے خرچ ہوتا ہے کہ پتا بھی نہیں چلتا۔ جس حساب سے قیمتیں بڑھ رہی ہے‘ ایسا لگتا ہے کہ دال کھانا بھی دسترس سے باہر ہو چکا ہے۔ یہ بھی ایک تلخ سچائی ہے کہ ملکی تاریخ میں زیادہ تر ایسے حکمران بر سر اقتدار رہے ہیں جن کو عوام کی تکالیف کا رتی برابر بھی احساس نہیں تھا۔ موجودہ نگران وزیراعظم کا فرمان ہی ملاحظہ فرمائیں کہ ''مہنگائی اتنا بڑا مسئلہ نہیں ہے‘‘۔ لوگ خود کشیاں کر ہے ہیں، والدین اپنے بچوں سمیت دریائوں میں چھلانگیں مار رہے ہیں مگر حکومت کے نزدیک یہ مسئلہ ہی نہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہمارا مسئلہ صرف مہنگائی نہیں ہے بلکہ اقربا پروری ، ناانصافی ، کرپشن ، رشوت ، ذخیرہ اندوزی ، منافع خوری اور قومی وسائل کی بندر بانٹ نے مل کر ملک کو تباہی کے اس دہانے پر پہنچایا ہے۔ ایسے وقت میں‘ جب جینا دشوار ہو چکاہے‘ بجلی کے بلوں میں بے تحاشا اضافہ، پٹرول کے مسلسل بڑھتے نر خوں نے خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے۔
پٹرول‘ ڈیزل اور ڈالر ٹرپل سنچری کر گئے ہیں جبکہ چینی کا ڈبل سنچری ہو گئی ہے۔ نگران حکومت کو آئے ابھی دو‘ ڈھائی ہفتے ہوئے ہیں اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں دو مرتبہ انتہائی زیادہ اضافہ ہو چکا ہے جو تشویشناک ہے۔ کیا ایک متوسط طبقے کا فرد یہ سب کچھ افورڈ کر سکتا ہے؟ اس نے اپنی محدود آمدنی میں سے گھر کا کرایہ ، اشیائے خورونوش ، بچوں کی سکول فیس سمیت دیگر اخراجات بھی ادا کرنا ہوتے ہوں۔ آدھی سے بھی زائد کمائی تو یوٹیلیٹی بلز کی ادائیگی میں ہی نکل جاتی ہے۔ گھر کے دیگر اخراجات کہاں سے پورے ہوں گے۔ غریب طبقہ تو زیادہ پریشان ہے ہی، متوسط طبقہ بھی اب بری طرح متاثر ہو رہا ہے اور حد یہ ہے کہ اب کھاتے پیتے گھرانوں میں بھی مہنگائی کی باز گشت سنائی دینے لگی ہے۔ اس وقت مڈل کلاس کے لیے سفید پوشی کا بھرم رکھنا مشکل ہو گیاہے۔ غریب کا حال تو یہ ہوتا ہے کہ اس کے پاس ایک ہی چادر ہوتی ہے جو زندہ رہنے پر اوڑھنے کے کام آتی ہے اور مرنے پر اسی چادر کو کفن بنا کر اس کے اوپر ڈال دیا جاتا ہے۔ لمحۂ فکریہ یہ ہے کہ روز بروز بڑھتی جان لیوا مہنگائی نے اب اس ایک چادر کو بھی مفلسوں کیلئے نا کا فی بنا دیا ہے۔ باپ اپنے ہاتھوں سے اپنے بچوں کو موت کے گھاٹ اتار رہے ہیں۔ بے شک ان مظلوموں کے خون کے چھینٹوں کبھی نہیں دھلنے والے۔ آج نہیں تو کل‘ دنیا میں نہیں تو روزِ محشر‘ ان کا حساب دینا ہی ہوگا۔
ڈالر کی اونچی اڑان سے ہر شے مہنگی ہوتی جا رہی ہے۔ آ ٹے کے حصول کے لیے بے بسوں کی لمبی قطاریں دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ زرعی ملک اور ا س میں گندم کا بحران؟ اس صورتحال نے قحط کی سی صورت پیدا کر دی ہے۔ ادھر خلیجی ممالک نے صحرا میں گندم اگا کر انقلاب پیدا کر دیا ہے اور 76 برس بعد ہماری حالت یہ ہے کہ روٹی کے ایک ایک لقمے کو ترس رہے ہیں۔ ان حالات میں بھی ملکی اداروں میں بیٹھی اشرافیہ کے شاہانہ ٹھاٹ باٹ میں کوئی کمی دیکھنے کو نہیں مل رہی۔ گراں فروش مافیا بھی پوری طرح سرگرم ہے‘ حالات کے خراب ہونے سے جس کی چاندی ہو رہی ہے اور جو من مانی قیمتیں وصول کر کے ہر روز لاکھوں روپے کا منافع کما رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اس کے گرد بھی شکنجہ کسا جائے۔ نگران حکومت عوام دوست ہونے کا ثبوت دے اور ایسی معاشی پالیسیاں تشکیل دی جائیں جو مہنگائی کے ستائے ہوئے عوام کو تھوڑا سا ریلیف تو دے سکیں۔
اس وقت صنعتوں کا پہیہ بھی جام ہوتا جا رہا ہے جس سے زر مبادلہ کا خسارہ بڑھنے اور بیروزگاری کے سیلاب کا خدشہ ہے۔ پہلے ہی ملک میں برین ڈرین کا خوفناک سلسلہ جا رہی ہے۔ دستیاب رپورٹس کے مطابق ملک سے گزشتہ چند ماہ کے دوران لگ بھگ چھ لاکھ افراد بیرونِ ملک جا چکے ہیں۔ اس وقت پاکستان کا شمار دنیا کے ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں مہنگائی کی شرح سب سے زیادہ ہے۔ ٹریڈنگ اکنامکس کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان نائیجیریا اور لائوس کو پیچھے چھوڑ کر مہنگائی سے سب سے زیادہ متاثرہ ممالک میں 18ویں نمبر پر آگیا ہے۔ ایشیا میں چھلانگ لگا کر یہ چوتھے نمبر پر آگیا ہے جہاں مہنگائی باقی تمام ممالک کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ عالمی پابندیوں کی زد میں آیا ایران اور جنگ زدہ شام اور لبنان جیسے ممالک ہی اس خطے میں پاکستان سے آگے ہیں۔ نائیجیریا اور لائوس میں افراطِ زر کی شرح بالترتیب 24.08 اور 27.8 فیصد ہے جبکہ پاکستان میں یہ شرح 28.3 فیصد تک بڑھ گئی ہے۔ ان کے علاوہ کیوبا، سوڈان، گھانا اور ایتھوپیا وغیرہ جیسے ممالک ہیں جہاں مہنگائی کی صورتحال پاکستان سے بھی بدتر ہے۔
اس وقت ملک بھر میں بجلی کے بڑھتے نرخوں کے خلاف خیبر سے کراچی اور آزاد کشمیر تک احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔ خدشہ ہے کہ یہ مظاہرے کسی طوفان کا پیش خیمہ نہ ثابت ہو جائیں۔ گھریلو صارفین کے بجلی کا بنیادی یونٹ سولہ روپے سے بڑھ کر اب پچاس روپے کی حد بھی کراس کر گیا ہے۔ بجلی بلوں میں ڈیوٹی ، فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ ، جی ایس ٹی ، ایکسائز ڈیوٹی، انکم ٹیکس، ٹی وی فیس اور نجانے کون کون سے ٹیکسز شامل ہیں۔ حکمرانوں کو حالات کا کیا ادراک کہ انہیں بجلی ، گیس ، پٹرول، رہائش، نوکر چاکر سب کچھ مفت مل رہا ہے۔ سہنا تو بے چارے عوام کو پڑتاہے کیونکہ یہ شاہانہ اخراجات بھی انہی کی جیبوں سے پورے ہو رہے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بروقت بجلی کی پیدوار بڑھائی جا تی‘ آئی پی پیز معاہدوں سے لے کر بیرونی قرضوں تک سے گلو خلاصی اور معیشت کی بحالی کیلئے مؤثر اقدامات کیے جاتے۔ مگر بدقسمتی سے زیادہ تر وقت انتشار پھیلانے ، اختلافات ، باہمی چپقلش اور ایک دوسرے پر الزام تراشی میں گزار دیا گیا۔ملک میں صرف پن بجلی کے منصوبے لگائے گئے اور گزشتہ چار دہائیوں میں تھرمل پروجیکٹس نجی شعبے یعنی آئی پی پیز کے پاس ہیں۔ بجلی کے بلوں میں شامل ٹیکسز کم کرنے سے فوری طور پر بیس سے تیس فیصد تک کمی آ سکتی ہے۔ اصل کام بجلی چوری پر قابو پانا ہے۔ لائن لاسز کا بوجھ بل دینے والے صارفین پر کیوں ڈالا جائے؟ ضرورت ہے کہ سولر انرجی کو فروغ دیا جائے اور تمام سٹیک ہولڈرزملک کو اس بحرانی کیفیت سے نکالنے کیلئے بھر پور تعاون کریں۔ حکومتی غفلت و لاپروائی کا بدلہ عوام سے نہ لیا جائے۔
آج وطن عزیز میں بے کسی و بے بسی عام آدمی کو کس مقام پر لے آ ئی ہے‘ اس کا تصور بھی محال ہے۔ ہمارے حکمران و سیاسی قیادت اقتدار کیلئے باہم دست و گریباں ہے۔ ان حالات میں افواہوں اور ساز شوں کا بازار بھی گرم ہے۔ سوشل میڈیا پر پھیلائی جانے والی فیک نیوز جلتی پر تیل کا کام کر رہی ہیں۔ اگرچہ ہمارے ہاں جتنے مسائل ہیں‘ وسائل بھی اسی طرح ہیں لیکن ان وسائل پر پانچ فیصد اشرافیہ قابض ہے اور مسائل 90فیصد تک عوام کے حصے میں آتے ہیں۔ اب چہروں کو نہیں‘ اس بے رحمانہ نظام کو بدلنا ہو گا۔اگر یہ کہا جائے کہ ملک میں معاشی بگاڑ کی سب سے بڑی وجہ سودی نظام ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ افسوس ! ہماری حکومتوں کا مطمح نظر کبھی اقتصادی استحکام نہیں رہا۔ مسائل کو نظر انداز کرتے چلے آنے کے باعث ہی آج نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ معاشرتی و معاشی بے چینی انتہا کو پہنچ چکی ہے۔ چکی کے دو پاٹوں میں پستے عوام پہ پے درپے مہنگائی کے وار ''مرے کو مارے شاہ مدار ‘‘کے مصداق ہیں۔ اگرچہ آئی ایم ایف سے معاملات طے پا جانے کے بعد دیوالیہ ہونے کا خطرہ توٹل گیا ہے لیکن بے بس قوم کو ریلیف نہ مل سکا۔ ذرا سوچئے چین ہم سے بعد میں آزاد ہوا‘ کوریا اور تھائی لینڈ نے ہمارا پانچ سالہ منصوبہ مستعار لیا۔ آج ان کی ترقی کی رفتار دیکھیے اور اپنی حالت بھی ملاحظہ کیجئے کہ بحیثیت قوم اور ملک ہم کہاں کھڑے ہیں ؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں