فلسطین کی جنگ اور عالمِ اسلام

فلسطین وہ ارضِ مقدس ہے کہ جہاں اسلام کی عظمتِ رفتہ اور جنت گم گشتہ کا نشان قبلہ اول کی صورت میں موجود ہے۔ جہاں مجاہدین اور طاغوتی طاقتوں کے درمیان آخری معرکے کا میدان سج رہا ہے۔ حماس کے سب سے بڑے آپریشن ''طوفان الاقصیٰ‘‘ نے اسرائیل کے ہوش اڑا دیے ہیں۔ پہلی دفعہ صہیونی ریاست کو اتنا شدید نقصان اٹھانا پڑا ہے۔ 1967ء اور 1973ء کی جنگوں میں بھی اس کو ایسے حالات نہیں دیکھنا پڑے تھے۔ غاصب صہیونیوں کی مدد وحمایت کیلئے امریکہ و یورپ اکٹھے ہو گئے ہیں۔ امریکہ نہ صرف کھل کر اسرائیل کے ساتھ کھڑ ا ہے بلکہ اس کو عسکری امداد بھی فراہم کر رہا ہے۔ امریکہ نے مشرقِ وسطیٰ میں فائٹر طیاروں کی تعداد بڑھا دی ہے جبکہ اس کا بحری بیڑہ بھی خطے میں پہنچ چکا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے اسرائیل کے دورے کے دوران اسرائیل کو ہر طرح کی مدد کا یقین دلایا ہے۔ نیٹو نے بھی بیان جاری کیا کہ اسرئیل اکیلا نہیں۔ تمام مغربی ممالک اسرائیل کی حمایت میں پیش پیش ہیں۔ فرانس اور بر طانیہ میں تو غاصب صہیونی حکومت کے خلاف احتجاج اور مظاہروں تک پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔
اس وقت غزہ میں رقصِ ابلیس جاری ہے۔ پانی، بجلی، دوائیں اور خوراک‘ سب کی سپلائی بند ہے۔ ساڑھے تین لاکھ سے زائد افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔ اسرائیل کی وحشیانہ بمباری سے 3000 سے زائد فلسطینی شہید اور 7000 سے زائد زخمی ہیں اور ان میں 500سے زائد بچے ہیں جبکہ شہید فلسطینیوں میں 60 فیصد بچے اور خواتین ہیں۔ غزہ کے ہسپتال لاشوں سے بھر چکے ہیں۔ اقوام متحدہ غزہ میں خوراک پہنچانے کیلئے رسائی کا مسلسل مطالبہ کر رہی ہے مگر اسرائیلی حکام نے دھمکی دی ہے کہ جب تک مغوی افراد رہا نہیں کیے جاتے، تب تک غزہ میں پانی، ایندھن، دوائیں اور خوراک کی رسائی بند رہے گی۔ اس وقت150سے زائد اسرائیلی فوجی و شہری حماس کی قید میں ہیں۔ حماس کے حملوں سے مرنے والے اسرائیلیوں کی تعداد 1300سے زائد ہو چکی ہے جبکہ 3000 سے زائد زخمی ہیں؛ تاہم روز بروز حملوں میں شدت آ رہی ہے اور اس وقت یہ جنگ اسرائیلی سرحدوں سے نکل کر شام اور لبنان تک پہنچ گئی ہے اور آنے والے دنوں میں اس جنگ کے مزید ممالک تک پھیلنے کا خدشہ بڑھ گیا ہے۔
اسرائیلی فورسز نے شام کے دارالحکومت دمشق کے ایئر پورٹ پر بھی بمباری کی ہے جبکہ حزب اللہ سے بھی اس کی کشیدگی جاری ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ امریکہ اور مشرقِ وسطیٰ کی بڑی طاقتوں نے آپس میں رابطے شروع کر دیے ہیں اور ایسی نئی اور غیر متوقع صف بندیاں ہو رہی ہیں‘ جو کچھ عرصہ قبل تک ناممکن لگ رہی تھیں۔ امریکی وزیر خارجہ نے اسرائیل پہنچ کر اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو سے ملاقات کی، بعد ازاں اردن میں فلسطینی صدر محمود عباس اور سعودی عرب کے حکام سے بھی ملاقاتیں کیں۔ اس جنگ کے دوران سب سے بڑی پیش رفت ایران اور سعودی عرب کا رابطہ ہے۔ 2016ء سے دونوں کے سفارتی تعلقات منقطع تھے جو چند ماہ قبل ہی چین کی کوششوں سے بحال ہوئے تھے۔ دونوں ممالک کے رہنمائوں کے درمیان حماس اور اسرائیل کے مابین جنگ اور غزہ میں انسانی بحران پر بات ہوئی اور اسرائیل پر جنگی جرائم کے خاتمے پر زور دیاگیا۔ انہوں نے متنبہ کیا کہ اسرائیل کیلئے امریکی حمایت اسرائیل اور اس کے سر پرستوں کیلئے تباہ کن ثابت ہوگی۔ ترکیہ کے صدر نے بھی سعودی ولی عہد سے رابطہ کیا اور غزہ کی صورتحال پر بات کی۔ ایرانی صدر نے شامی صدر سے رابطہ کیا اور متحدہ عرب امارات کے صدر نے امریکی صدر سے رابطہ کیا۔ دوسری جانب اسرائیلی و امریکی میڈیا الزام لگا رہے ہیں کہ حماس کی کارروائی کے پیچھے ایران ہے‘ ورنہ حماس تنہا اتنی بڑی کارروائی نہیں کر سکتی۔
پون صدی قبل اسرائیل کے نام پر مقبوضہ فلسطین کی سرزمین پر بڑی مغربی طاقتوں کی سرپرستی میں جو گھنائونا ڈرامہ رچایا گیا تھا اس کی مثال تاریخ عالم میں نہیں ملتی۔ مغرب آج بھی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ صہیونیت کا منصوبہ اس کے ہاں تشکیل پایا جو یہودیوں سے اس کی محبت کی ایک نشانی ہے۔ قضیہ فلسطین کے حوالے سے بدنام زمانہ اعلانِ بالفور‘ جو مغرب کی جانب سے مظلوم فلسطینی عوام پرمسلط کیا گیا تھا‘ برطانوی وزیر جیمز بالفور کے نام سے منسوب ہے۔ بالفور اعلامیہ کی بنیاد پر مغرب نے عالم اسلام پر جارحیت کی ابتدا کی اور یہودیوں کو فلسطین میں اپنا الگ وطن تشکیل دینے کی اجازت دی۔ فلسطینی علاقوں میں یہودیوں کی آبادی بڑھانے کیلئے بر طانیہ نے 1922ء سے 1935ء تک یہودیوں کی ہجرت کو یقینی بنایا۔ صرف ان 13 سالوں میں یہودیوں کی فلسطین میں آبادی 10فیصد سے بڑھ کر 27 فیصد تک پہنچ گئی۔ کچھ عرصے بعد یہ آبادی 33فیصد تک پہنچ گئی۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد اقوام متحدہ نے 29 نومبر 1947ء کوفلسطینی علاقوں کو تقسیم کرنے کیلئے قرار داد پاس کی جس کے تحت ایک ریاست میں یہودی رہیں گے اور ایک میں عرب۔ قرارداد میں مزید کہا گیا کہ یروشلم تمام مذاہب کے ماننے والوں کیلئے مقدس ہے اس لیے اس جگہ پر ایک عالمی حکومت قائم ہو گی اور اقوام متحدہ خود اس کے انتظامی معاملات کو دیکھے گا۔ یہودیوں نے اس قرارداد کو تسلیم کیا اور 14مئی 1948ء کو اسرائیلی ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا جبکہ اسی دن امریکہ نے اسرائیل کو بطور ریاست تسلیم کر لیا لیکن تمام عرب ممالک فلسطین میں اسرائیلی وجود کے خلاف متحد ہو گئے۔ 1949ء میں عربوں اور اسرائیل کے مابین پہلی جنگ ہوئی۔ جولائی 1949ء میں جنگ بندی کے بعد اسرائیل کے پاس اُس علاقے کا 80 فیصد کنٹرول آگیا جو اقوام متحدہ کے منصوبے کے تحت فلسطین اور اسرائیل کے مابین تقسیم ہونا تھااور باقی 20فیصد علاقے میں مقبوضہ ویسٹ بینک یعنی مغربی کنارے اور محصور شدہ غزہ میں فلسطینی ریاست قائم ہو گئی۔ اس جنگ میں 350عرب دیہات کا نام و نشاں مٹ گیا۔ فلسطینی سرزمین پرعربوں کی تعداد سات لاکھ سے کم ہو کر ایک لاکھ 65ہزار رہ گئی۔ 20فیصد سے زائد فلسطینی علاقہ چھوڑ کر لبنان، اردن، شام، مصر اور عراق میں جا کر بس گئے۔ 1960ء میں معاملات مزید خرابی کی طرف جانے لگے جس کا نتیجہ 1967ء کی عرب اسرا ئیل جنگ کی صورت میں نکلا۔ فضائی حملوں کی طاقت سے اسرائیل نے عرب ممالک کو شکست دی۔ 10جون 1967ء کو اسرائیل کے پاس مصر کے تاریخی صحرائے سینا سمیت فلسطین کے متعدد اہم علاقوں کا کنٹرول آگیا۔ ویسٹ بینک، غزہ اور شام کی گولان کی پہاڑیوں پر بھی اسرائیل نے قبضہ کر لیا۔ یہ سب کچھ محض چھ دن میں ہوا۔ اکتوبر 1973ء کی تیسری عرب جنگ تین ہفتوں تک جاری رہی۔ 1948ء سے لے کر 1990ء کی دہائی تک عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان کئی جنگیں ہوئیں لیکن ان جنگوں کے نتیجے میں اسرائیل مزید مضبوط ہوتا چلا گیا۔ دوسری جانب فلسطینی مزاحمت میں کوئی کمی نہ آئی۔
1987ء سے 1993ء کی فلسطینی مزاحمت نے حماس کی تحریک کو جنم دیا جس نے اس عزم کا اعادہ کیا کہ وہ مسلح جدو جہد سے اسرائیلی قبضے کو ختم کرے گی اور فلسطین کو آزاد کرائے گی۔ 2006ء کے فلسطینی الیکشن میں حماس نے فتح حاصل کی لیکن اسرائیل اور امریکہ نے حماس کی حکومت کو تسلیم نہ کیا بلکہ اس کو دہشت گرد جماعت قرار دے دیا۔ 2007ء میں حماس نے غزہ کا پورا کنٹرول حاصل کر لیا۔ دسمبر 2008ء میں 22 روز تک اور 2012ء میں اسرائیل نے 8 روز تک غزہ کو مسلسل فضائی حملوں کا نشانہ بنایا۔ جولائی 2014ء کی جنگ سات ہفتوں تک جاری رہی۔ مارچ 2018ء میں بھی دوطرفہ جھڑپیں ہوئیں جبکہ 2021ء میں رمضان المبارک کے مہینے میں صہیونی فورسز نے مسجد اقصیٰ کے کمپائونڈ میں کارروائیاں کیں اور غزہ پر فضائی حملے کیے۔ یہ جنگ 11 دن تک جاری رہی۔ 2022ء میں 3 دن تک غزہ پر حملے کیے گئے۔ اب حماس نے اسرائیل کے خلاف تاریخی کارروائی کر کے اس کے غرور کو خاک میں ملا دیا ہے اور یہ ثابت کر دیا کہ جنگیں جدید و مہلک ہتھیاروں سے نہیں جذبۂ ایمانی سے لڑی جاتی ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں