حضور اکرمﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ ''وطن سے محبت جزو ایمان ہے‘‘۔ حضرت عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ ایک بار ایک شخص آپﷺ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے اس سے مکہ مکرمہ کے بارے میں پوچھا، جب وہ شخص مکہ شہر کا حال بیان کر رہا تھا تو آپﷺ کی چشم مبارک آنسوئوں سے تر ہو گئیں۔ اپنی دھرتی سے پیار تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت ہے۔ وطن عزیز کی حرمت، عزت و تکریم اور سبز ہلالی پرچم کی سربلندی کے لیے لڑتے ہوئے جان‘ جانِ آفرین کے سپرد کرنا وہ عدیم النظیر کارنامہ ہے جس پر یہ قوم و دھرتی ہمیشہ نازاں رہی ہے۔ 42 سالہ لیفٹیننٹ کرنل محمد حسن حیدر شہید جانبازوں کے باب میں ایک نیا اضافہ ہیں جو دہشت گردوں کے خلاف ایک آپریشن میں پاک سرزمین کے تحفظ کی خاطر شہادت کے رتبے پر سرفراز ہوئے۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ ان کی شہادت کو قبول فرمائے اور ان کے درجات بلند فرمائے، آمین!
ایک اور سپوت پاک دھرتی پر قربان ہو گیا اور وطن سے محبت کا حق ادا کر دیا۔ شہید کرنل حسن حیدر وادیٔ تیراہ میں ایف سی فرنٹیئر کور میں خدمات سرانجام دے رہے تھے۔ انہوں نے مختلف ریسرچ اینڈ ریسکیو آپریشنز میں کامیابیاں حاصل کیں۔ وہ دہشت گردوں کے خلاف اس آپریشن کی 39 پنجاب کے ساتھ کمانڈ کر رہے تھے۔ انہوں نے چھ دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا‘ پھر انہیں ہدایات ملیں کہ مزید آگے جائیں۔ وہاں دہشت گردوں کی موجودگی کی اطلاع تھی۔ لیفٹیننٹ کرنل حسن حیدر نے ٹیم کے ساتھ مزید آگے جانے کا فیصلہ کیا۔ اس آپریشن کے دوران چھپے ہوئے دہشت گردوں نے ان پر حملہ کر دیا۔ بلٹ پروف جیکٹ کی وجہ سے اوپر کا حصہ تو محفوظ رہا لیکن جہاں جیکٹ ختم ہوتی ہے‘ وہاں نچلے حصے میں ان کی پہلے ایک گولی لگی‘ پھر دوسری گولی لگی۔ اسی دوران ان کا ایک سپاہی شہید ہو گیا۔ کرنل حیدر مسلسل درود شریف پڑھتے جا رہے تھے اور آگے بڑھتے جا رہے تھے۔ وہ رکے نہیں۔ دشمن کی گولیاں بھی ان کے جذبے کو متزلزل نہ کر سکیں۔ زخمی حالت میں اور گولیوں کی بوچھاڑ میں بھی وہ پاک دھرتی کے تحفظ کی قسم نبھاتے ہوئے مزید چار‘ پانچ سو گز آگے چلے گئے۔ انہوں نے دشمن کی 12 گولیا ں کھائیں، تین سینے پر لگیں جو بلٹ پروف جیکٹ میں دھنس گئیں اور باہر نہیں نکلیں۔ وہ آگے بڑھتے گئے اور اپنے سپاہیوں کو آرڈر دیتے گئے۔ وہ ایک لمحے کو بھی ڈگمگائے نہیں‘ لرزے نہیں۔ گولیوں سے جسم سے رِسنے والے لہو سے بھی ان کے حوصلے اور ہمت میں کمی واقع نہ ہوئی۔ ''ایمان، تقویٰ، جہاد فی سبیل اللہ‘‘ کی روشن مثال کرنل حسن حیدر دشمن کو للکارتے ہوئے آگے بڑھتے رہے۔ حوصلہ ایسا کہ چٹان بھی جھک جائے۔ انہوں نے سورت یٰسین حفظ کر رکھی تھی اور وہ اس کی تلاوت کرتے جا رہے تھے۔ جب سورت کی تلاوت ختم ہوئی‘ اسی دوران ایک گولی ان کے سر پر آ کر لگی اور وہ جامِ شہادت نوش فرما گئے۔ بلاشبہ انہوں نے ایثار و قربانی، جرأت و شجا عت اور ہمت و عزیمت کی بے نظیر مثال قا ئم کرتے ہوئے راہِ حق پہ بے خوف و خطر چلتے ہوئے شان و شوکت سے شہادت تک کا سفر طے کیا اور جنت میں اپنے لیے اونچا مقام پا لیا، ان شاء اللہ۔ عوامی سطح پر شہید کرنل حسن حیدر کو خراجِ عقیدت پیش کرتے ہوئے بہادری کے اعلیٰ ترین اعزاز سے نوازنے کا تقاضا کیا جا رہا ہے۔ اس سے دفاعِ وطن کو اپنی جان سے زیادہ مقدم رکھنے کے عزم کو مزید جلا ملے گی۔
لیفٹیننٹ کرنل محمد حسن حیدر شہید کو مکمل فوجی اعزازکے ساتھ چکلالہ‘ راولپنڈی میں سپرد خاک کیا گیا۔ ان کی نمازِ جنازہ میں نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ، آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر، چیئرمین جوائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی جنرل ساحر شمشاد مرزا، نگران وزیر دفاع انور علی اور دیگران نے شرکت کی۔ نگران وزیراعظم اور آرمی چیف نے شہید کے جنازے کو خود کندھا دیا۔ راقم الحروف بھی کرنل محمد حسن حیدر شہیدکے جنازے میں شریک ہوا۔ اپنی والدہ کے بعد شہید کی والدہ دوسری خاتون ہیں جن کے پیروں کو میں نے خصوصی طور پر چھوا۔ ان پر عجیب کیفیت طاری تھی، جسم لرز رہا تھا لیکن وہ مجسم استقامت دکھائی دے رہی تھیں اور اپنے شہزادے کی شہادت پہ بارگاہِ حق میں شکر کا نذرانہ پیش کر رہی تھیں۔ ایسی مائوں‘ جنہوں نے شہید پیدا کیے‘ کے بلند حوصلے کو سلام! اسی دوران ایک چھوٹی بچی روتی ہوئی آئی اور شہید کرنل کے ماموں میجر جنرل ملک عرفان حیدر سے لپٹ کر زار و قطار رونے لگی۔ وہ بچی کہنے لگی کہ کرنل حسن حیدر مجھے نظر آئے‘ وہ مجھ سے باتیں کر رہے تھے۔ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے شہید کی بیوہ کے سر پر دستِ شفقت رکھتے ہوئے کہا کہHe went beyond call of duty۔
شہید کرنل علاقے میں ہر دلعزیز شخصیت اور بہت مقبول تھے۔ دہشت گردی سے متاثرہ فیملی کے ایک بچے سے انہیں خاص انسیت تھی۔ وہ بچہ اپنے گھر سے کرنل صاحب کے لیے سوکھی روٹی لاتا تھا۔ ایک دن انہوں نے بچے سے پوچھا کہ تمہیں کیا چاہیے تو اس بچے نے موبائل فون کی فرمائش کی جس پر انہوں نے اسی وقت اپنی اہلیہ کو فون کیا اور ایک موبائل منگوایا۔ بچے نے پہلی تصویر ان کی اتاری اور ان یادوں کو ہمیشہ کے لیے محفوظ کر لیا۔ کرنل شہید اپنے ساتھ گرم پانی کی بوتلیں رکھتے تھے۔ آخری روز بھی آپریشن کے آغاز سے قبل گرم پانی سے وضو کیا اور اپنے سپاہیوں کو بھی اسی گرم پانی سے وضو کرایا، پھر نماز ادا کی اور اللہ تعالیٰ کے حضور سجدہ ریز ہو گئے۔ رات 11:55 پر باوضو حالت میں پاک سرزمین پر انہوں نے اپنی جان نچھاور کر دی۔ شہید کرنل کا طرزِ زندگی درویشانہ تھا۔ ان کا گھر چھوٹا سا ہے۔ اپنے سپاہیوں کو پیچھے کر کے وہ خود دشمن کا سامنا کرتے اور اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس کا مقابلہ کرتے۔ جس قوم کے جوانوں میں شہادت و قربانی اور جہاد کا جذبہ جوان ہو اور اپنے لہو سے چراغ روشن کرنے کا جنون ہو‘ اس قوم کو کسی بھی میدان میں شکست نہیں دی جا سکتی۔
نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کا یہ اعتراف کہ حالیہ عرصے میں دہشت گردی میں 60 فیصد اضافہ ہوا ہے‘ یقینا تشویشناک ہے۔ پاک افواج کے جانباز مادرِ وطن کے لیے سینے پر گو لیاں کھا رہے ہیں اور دشمنوں کے سامنے سیسہ پلائی دیوار بنے ہوئے ہیں۔ درحقیقت یہ بہادر ہمارا وہ انمول سرمایہ ہیں جو باطل قوتوں کو ایک آنکھ نہیں بھاتے۔ ہمارے بچوں کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی‘ ان شاء اللہ! ہم پر دہشت گردی کی جنگ مسلط کی گئی ہے۔ ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کے تانے بانے بھارت سے ملتے ہیں اور اس میں رتی بھر بھی شک نہیں۔ دہشت گردوں کو سیٹلائٹ کے ذریعے تصاویر اور ڈیٹا کون بھیج رہا ہے‘ ان کے پاس جدید امریکی اسلحہ کہاں سے آ رہا ہے‘ ایم 16، ایم اے فور رائفلز، راکٹ لانچرز، نائٹ ویژن گوگلز۔ ان دہشت گردوں میں بھارت کے تربیت یافتہ افغان نیشنل آرمی اور این ڈی ایس کے لوگ بھی موجود ہیں۔ ہمیں دشمن کی چانکیائی سازشوں کو سمجھنا ہو گا۔ نگران وزیراعظم امریکہ، فرانس، برطانیہ، متحدہ عرب امارات، سعودی عرب، چین اور ازبکستان کا دورہ کر چکے ہیں‘ سب سے پہلا دورہ تو انہیں افغانستان کا کرنا چاہیے۔ آج دشمن نے دو برادر ممالک کے مابین دوریاں پیدا کر دی ہیں۔ دہشت گردی کی روک تھام، تجارت کے فروغ اور افغان مہاجرین کی واپسی جیسے اہم ایشوز پر حکومت کی عدم توجہ کئی مسائل کا باعث بن رہی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہمارے ہاں بھی کچھ افراد اپنے شہدا کی قربانیوں کا تمسخر اڑا کر دشمن کا کام آسان کر رہے ہیں۔ وہ شاید یہ بھول بیٹھے ہیں کہ یہی جانباز، غازی اور شہدا ہیں جن کی وجہ سے وہ اپنے گھروں میں چین و امن سے سکون کی نیند سوتے ہیں۔ شام، لیبیا، عراق اور فلسطین کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ چند ہزار کی تنخواہ کے لیے کوئی اپنی جان دائو پر نہیں لگاتا۔ ہمارے جوان ہمارے لیے، آپ کے لیے، اس ملک اور اسلام کے دفاع اور سربلندی کے لیے اپنی جانیں دائو پر لگا کر دشمن کے خلاف برسرِ پیکار ہیں۔ جنرل (ر) حمیدگل فرمایا کرتے تھے کہ ہم فوجی ہی نہیں‘ جہادی بھی ہیں۔ ہمارے جانبازوں کی شہادتوں نے قرونِ اولیٰ کے شہیدوں کی یاد تازہ کر دی ہے۔ بے شک ہم ان شہدا کے لہو کا خراج ادا نہیں کر سکتے مگر ان شہدا کے مشن پر چلتے ہوئے قوم و ملک کی سالمیت و بقا کو ضرور یقینی بنا سکتے ہیں۔