ہر دور میں پیغام رسانی کے مختلف ذرائع استعمال کیے جاتے رہے ہیں۔ جب دنیا نے ترقی کی تو میڈیا بھی کسی سے پیچھے نہ رہا‘ پہلے ٹیلی گراف کا زمانہ تھا‘ اس کے بعد ریڈیو کا دبدبہ تھا پھر اخبارات، رسائل وجرائد اور ٹیلی ویژن کا دور آیا لیکن اب انٹر نیٹ کا زمانہ ہے جو معلومات فراہم کر نے کا تیز ترین ذریعہ ہے۔ ذرائع ابلاغ کی بنیادی طور پر دوقسمیں ہیں۔ پرنٹ میڈیا اور لیکٹرانک میڈیا جبکہ سائبر میڈیا‘ میڈیا کی جدید ترین شکل ہے۔ آج دنیا میں اسے روایتی میڈیا سے زیادہ اہمیت دی جا رہی ہے۔ سائبر میڈیا میں انٹرنیٹ، ویب سائٹس اور بلاگز وغیرہ شامل ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ جدید دنیا میں میڈ یا کی اہمیت اور ضر ورت ہر لحاظ سے اہم اور پہلے سے زیادہ بڑھ گئی ہے کیو نکہ یہ نہ صرف رائے عامہ کو ہموار کر نے میں اہم کردار ادا کر تاہے بلکہ لو گوں کے ذہن و فکر کو بھی تبدیل کرنے میں کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ اب سوا ل یہ ہے کہ دنیا بھر کے میڈیا کو کون کنٹرول کر تا ہے ؟ قابلِ تشویش بات یہ ہے کہ دنیا بھر کے میڈیا کو کنٹرول کرنے کی دوڑ میں یہودی لابی سب سے آگے ہے۔ یہودی اگر چہ تعداد میں بہت کم ہیں لیکن وہ دنیا بھر کے میڈیا کو مکمل طور پر قابو کیے ہوئے ہیں۔ دنیا کی ٹاپ نیوز ایجنسی، ٹی وی چینلز اور اخبارات ان کے پاس ہیں جن کو وہ بطورِ پروپیگنڈا ہتھیار استعمال کرتے ہیں۔ ایسا ہتھیار جو ظاہری زخم نہیں دیتا لیکن ذہنوں پر مسلط ہو کر نظریات بدل دیتا ہے، لوگوں کو ذہنی غلام بنا لیتا ہے۔ اس کی ہولناکی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اگر کسی ملک، مذہب یا قوم کے خلاف ان صہیو نیوں نے کچھ کرنا ہو تو پہلے میڈیا پر اس کے خلاف پر وپیگنڈا شروع کرتے ہیں اور اس کے ذریعے رائے عامہ کو ہموار کر کے وہاں کے نظامِ حکومت پر جمہوریت کے نام پر مسلط ہو جاتے ہیں۔ اسی کے ذریعے وہ دنیا کی تجارت اور سیاست کنٹرول کرتے ہیں۔ وہ خبر کو ایک خاص انداز میں تیار کر کے شائع کرتے ہیں۔
یوں تو علم و حکمت مسلمانوں کی وراثت ہے، لیکن نااہل حکمرانوں کی وجہ سے آج اس کی کمان صہیونیوں کے ہاتھ میں آچکی ہے۔ عالمی میڈیا میں سی این این، اے بی سی نیوز، واشنگٹن پوسٹ، وال سٹریٹ جرنل، فاکس نیوز، 20th سنچری سمیت متعدد بڑے نام یہودی لابی کا حصہ ہیں۔ یاد رہے کہ بدنام ذہن ''صہیونی پروٹوکولز‘‘ میں ذرائع ابلاغ پر مکمل قبضے کا منصوبہ بھی شامل تھا۔ اس منصوبے کی12ویں شق میں پوری دنیا کے میڈیا پر قبضے کے حوالے سے درج ہے: ''ہم (صہیونی) میڈیا کو اپنے قبضے میں رکھیں گے اور ایسا قانون بنائیں گے کہ پریس کے لیے یہ ناممکن ہو جائے گا کہ وہ ہماری پیشگی اجازت کے بغیر کوئی بھی خبر چھاپ سکے۔ ہم ایسے نیٹ ورک مالکان کی ہمت افزائی کریں گے جن کی کمزوریاں ہمارے ہاتھ میں ہوںاور ہم ان کو اپنی طرز پر چلا سکیں گے۔ ہم ذرائع ابلاغ کو خبر رساں ایجنسیوں کے ذریعے کنٹرول میں رکھ سکیں گے‘‘۔
اس وقت دنیا کا 98 فیصد میڈیا صہیونیوں کے نرغے میں ہے اور جو بڑی میڈیاکمپنیاں یہودیوں کی ملکیت ہیں‘ ان میں سب سے بڑی والٹ ڈزنی ہے جودنیا میں کئی بڑے ٹی وی چینلز کی مالک ہے۔ اس کے پاس والٹ ڈزنی ٹی وی، ٹچ سٹون ٹی وی، ہالی وڈ پکچرز، کارواں پکچرز کے علا وہ ایک اپنا کیبل نیٹ ورک ہے جس کے صارفین کی تعداد ڈیڑھ کروڑ کے لگ بھگ ہے۔ امریکہ بھر میں ان کے225ٹی وی سٹیشنز ہیں جبکہ یورپ بھرمیں پھیلے ہوئے ٹی وی چینلز کا بھی یہ گروپ بڑا حصہ دار ہے۔ دوسری بڑی کمپنیTime Warner Cableہے۔ اس کا مالک گرال لیون ایک یہودی ہے۔ دنیا کی تیسری بڑی کمپنی News Corporationہے۔ Ycomبھی ایک دیوہیکل میڈیا کمپنی ہے جس کا مالک ایک یہودی ہے۔ اس کمپنی کے160ملکوں میں170سے زائد میڈیا ہائوسز کام کررہے ہیں۔ اس ادارے کے تحت کتابیں شائع کر نے والے تین بڑے ادارے اور ایک فلم ساز ادارہ بھی شامل ہے۔ پیرا مائونٹ پکچرزاور ایم ٹی وی اسی کمپنی کی ملکیت ہیں۔ یہ پوری دنیا کے میڈیا پر حاوی ہے اور بڑے پیمانے پر لوگوں کے ذہنوں کو تبدیل کرنے کا کام انجام دے رہی ہے۔
فلمی دنیا کے 80فیصد پر یہودی قابض ہیں۔ امریکہ سے شائع ہونے والے ڈیڑھ ہزار اخبارات میں سے 75 فیصد اخبارات یہودیوں کی ملکیت ہیں۔ یہودی پرنٹ میڈیا کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ ایک ایک یہودی فرم پچاس پچاس اخبارات ومیگزینز شائع کرتی ہے۔ ''نیوزہاؤس‘‘ یہودیوں کا ایک بڑا اشاعتی ادارہ ہے، جو 26روز نامہ اور 24میگزینز شائع کرتا ہے۔ امریکہ کے تین بڑے اخبارات‘ جن میں سے ہر ایک کی اشاعت 90لاکھ سے متجاوز ہے‘ یہودیوں کی ملکیت میں ہیں۔ سی این این کا چیئر مین ولیم پالنسکی ایک یہودی ہے۔ اسی طرح ''واشنگٹن پوسٹ‘‘ کو بھی 1933ء میں Meyer Eugene نامی ایک یہودی نے خرید لیا تھا۔ '' نیوز ویک ‘‘ نامی مشہور ہفت روزہ بھی اسی واشنگٹن پوسٹ کے یہودی مالک کی ملکیت ہے۔ وال سٹریٹ جرنل کی روزانہ اشاعت لگ بھگ اٹھارہ لاکھ ہے اور اس گروپ کے زیر انتظام امریکہ بھر سے 24 دوسرے اخبارات اور میگزین بھی شائع ہوتے ہیں۔ اس گروپ کا چیئرمین اور چیف ایگزیکٹو پیٹر کین ایک مشہور یہودی ہے۔ سونی کارپوریشن اگرچہ جاپان کی کمپنی ہے مگر اس کے تحت سونی کارپوریشن آف امریکہ کا مالک Michael P. Schulhof نامی ایک یہودی ہے۔ جہاں تک نیوز ایجنسیوں کا تعلق ہے تو اہم ایجنسیوں پر بھی یہودیوں ہی کا قبضہ ہے۔ انٹر نیٹ کے تمام سرچ انجن یہودیوں کے ہاتھ میں ہیں۔ رابرٹ چرنن جو 2009ء تک نیوز کارپوریشن کے صدر اور فاکس انٹرٹینٹمنٹ کے چیئرمین اور سی ای او تھے‘ ایک سرگرم یہودی ہیں۔ انہوں نے 2003 ء میں عراق پر حملے سے پہلے فاکس نیوز کے ذریعے سخت اور شدید پروپیگنڈا مہم چلا کر اس حملے کے لیے راہ ہموار کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ مورٹائمرز کرمین‘ جو 2008 ء میں امریکہ کی 48ویں امیر ترین شخصیت تھے‘ نیویارک ڈیلی نیوز، یو ایس نیوز اینڈ ورلڈ رپورٹ کے مالک اور کانفرنس آف پریزیڈنٹس آف میجر جیوئش امریکہ آرگنائزیشن کے سربراہ ہیں۔ یہ امریکہ میں اسرائیل کی لابنگ کرنے والا سب سے بڑا گروپ ہے۔
یہ دعویٰ کہ مغربی میڈیا آزاد ہے آنکھوں میں دھول جھونکنے کے سوا کچھ نہیں۔ سپر پاور کہلوانے والا امریکہ مکمل طور پر یہودیوں کے زیر اثر ہے۔ امریکی وائٹ ہاؤس صہیونی مملکت کے خلاف ایک بیان تک نہیں دے سکتا۔ یہ یہودی میڈیا ہی کا کمال ہے کہ کوئی مسلم ملک‘ چاہے وہ اپنے مؤقف میں کتنا ہی حق بجانب ہو‘ عالمی سطح پر معذرت خواہانہ رویہ اپنانے پر مجبور ہوجاتا ہے۔ عالم اسلام میں یہودی میڈیا جب کسی مسلم حکمران سے بد ظن ہوتا ہے تو عالمی طاقتوں کی ملی بھگت سے ایسے حکمران کی ذاتی زندگی کے تعلق سے ایسی من گھڑت تفصیلات شائع کرنے لگتا ہے کہ مقبول حکمران لمحوں میں عوام کی نگاہ میں قابلِ نفرت بن جاتا ہے۔ اس کے علاوہ انٹر نیٹ پر بھی ان لو گوں کاجال بچھا ہواہے۔ انٹر نیٹ پر ان لو گوں نے اسلام کے نام پر سینکڑوں ویب سائٹس بنا رکھی ہیں جن کے ذریعے یہ نو مسلم اور کمزور الاعتقاد نو جوانوں کو گمراہ کر رہے ہیں۔ اسلام اور مسلمانوں کے خلاف نفرت کو بڑھا وا دینا مغر بی میڈیا کا سب سے اہم مشغلہ ہے۔ نائن الیون کے بعد سے بالخصوص مغرب نے اپنے ناپاک سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے ذرائع ابلاغ کو شاہ کلید کے طور پر استعمال جس کے ذریعے سے اس نے اسلام اور مسلمانوں کو بنیاد پرست، انتہا پسند اور دہشت گرد بنا کر دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اس وقت بھی مغر بی دنیا نے اسلام اور پیغمبر اسلام کے حوالے سے معا ندا نہ رویہ اختیار کر رکھاہے۔ مسلم دنیا میں ایسے اداروں کی تعمیر کی اشد ضرورت ہے جو مسلم دنیا کو انفرادی طور پر اور اجتماعی سطح پر بھی حالاتِ حاضرہ اور دشمنوں کی سازشوں اور چالوں سے باخبر رکھیں۔ مسلم ورلڈ کو سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر ایسے ٹی وی چینلز قائم کرنے چاہئیں جو حق و صداقت اور سچائی کا علم لے کر پروپیگنڈا کرنے والے ادار وں کا پردہ چاک کریں۔ مسلم امہ کو چاہیے کہ اس میدان میں زیادہ سے زیادہ سرمایہ کاری کرے کیونکہ جدید دور کا یہی میدانِ جنگ ہے۔