ایران کے اسلامی انقلاب اور تابندہ ترقی کے45 برس

11 فروری 2024 ء کو ایران میں اسلامی انقلاب اور تابندہ ترقی کے45 برس گزر چکے ہیں ۔1979ء میں امام خمینی کی قیادت میں اسلامی انقلاب ایرانیوں ہی نہیں مسلم اُمہ کیلئے امن ‘نیاولولہ ‘بیداری اور ایک نئی امیدِ سحر لایا۔ جلاوطنی کے بعد امام خمینی کی وطن واپسی ایران ہی نہیں دنیا میں ایک نئی تاریخ کا نقطۂ آغاز ثابت ہوا۔یکم فروری 1979ء کو امام خمینی تہران‘ مہرآباد ایئرپورٹ پہنچے تو 50 لاکھ سے زائد افراد نے اللہ اکبر اور خمینی رہبر کے فلک شگاف نعروں سے اُن کا تاریخی استقبال کیا۔ جس دن انہوں نے ایرانی سر زمین پر قدم رکھا اُس کو'' عشرۂ فجر‘‘ کے طور پر ہر سال منایا جاتا ہے۔امام خمینی کی ایران واپسی پر ایران کی گلیوں میں لوگ پہلوی کی آمریت سے نجات ‘ آزادی ‘خودمختاری او ر اسلامی جمہوری نظام کیلئے امام خمینی کی قیادت میں جدوجہد کیلئے نکلے۔امام خمینی نے 4 نومبر 1963ء سے یکم فروری 1979ء تک 14برس جلاوطنی کاٹی مگر ایران کے اُس مردِ آہن نے اندرونی اور بیرونی مزا حمتوں کونہایت پامردی سے برداشت کیا اور اپنے اصولوں پر سختی سے ڈٹے رہے۔ شاہی جبرواستبداد کی چولیں ہلا کر رکھ دیں اور انقلاب کی پُرنور صبح کے طلوع ہونے کا راستہ ہموار کیا۔آپ نے جنوری 1979ء کو ایرانی بادشاہ رضا شاہ پہلوی کے ایران چھوڑنے کو اس کی آمریت کے خاتمے کا پہلا قدم قرار دیا۔ ایرانی اخبار' اطلاعات ‘کے مطابق ایرانی فورسز نے عوام کو روکنے کیلئے تہران کو خون اور آگ سے بھر دیا۔ ایک رپورٹ کے مطابق 17ہزار سے زائد شہید ہوئے جن میں خواتین بھی شامل تھیں۔ امام خمینی نے مہر آباد ایئرپورٹ پر پہلے تاریخی خطاب میں یکجہتی اور اتحاد پر زور دیا کہ یہی اسلامی انقلاب کی فتح کی کنجی ہے۔ اسی پر عمل پیرا ہوتے ہوئے ایرانی قوم نے سازش ‘ مسلط کردہ جنگ ‘قتل و غارت اور بدامنی جیسے دشمن کے منصوبوں کو مزاحمت کے ذریعے ناکام بنا دیااور شاہ کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا۔ بالآخر 11فروری 1979ء کو اسلامی انقلاب فتح یاب ہوا اوربادشاہت کو شکست دے کر اسلامی جمہوری نظام کی بنیاد رکھی گئی۔ آج انقلاب کی فتح سے نصف صدی گزرنے کے باوجود اسلامی جمہوریہ ایران کے نظام میں جمہوریت روشن ستارے کی طرح چمک رہی ہے۔ تاریخی ریفرنڈم میں ایک بڑی اکثریت نے اسلامی جمہوری نظامِ حکومت کیلئے بڑے پیمانے پر حصہ لیا۔ اسلامی انقلاب کے بعد ایک جامع اسلامی آئین کی تشکیل عمل میں لائی گئی۔ ایران ایک فلاحی ریاست ہے‘ بنیادی شہری حقوق کو مکمل تحفظ حاصل ہے ‘قانونی مساوات بھی ہے اور قانون وآئین کی بالادستی بھی ۔امام خمینی کے بعداُن کے نائب آیت اللہ سید علی خامنہ ای نے خود مختاری ‘آزادی ‘قوت وایمان ‘سائنس و ٹیکنالوجی ‘نیوکلیئرسائنس‘نانو سائنس اورایروسپیس سمیت سماجی ومعاشی خدمات کا دائرہ کار بڑھایا۔
ایران قدیم تہذیب وتمدن کا گہوارہ ہے اور اس کو مخصوص جغرافیائی و علاقائی خصوصیات کی بنا پر خطے میں اہم مقام حاصل ہے۔ اسلامی انقلاب کے بعد ایران نے سائنس سے لے کر کھیلوں کے میدانوں تک بلا تفریق جنس ہر شعبۂ زندگی میں قومی وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے صلاحیتوں کا لوہا منوایا ۔اسلامی انقلاب کے بعد ‘ 45 برسوں میں تعلیمی شرح تناسب 93.2 فیصد ہو چکا ہے جو انقلاب سے قبل 47.2 فیصد تھا۔ ملک میں پرائمری ‘سکینڈری اور اعلیٰ تعلیمی اداروں کا جال بچھا ہوا ہے۔The Islamic World Science Citation Center (ISC) کے مطابق 2019ء میں 25ٹاپ ملکوں میں ایران سائنس ریسرچ پبلیکشنز میں دوسرے نمبر پر رہا۔Scopusکے مطابق انجینئرنگ پبلیکشنز میں ایران کا 4th نمبر ہے۔ایران کی 44یونیورسٹیاں عالمی ٹاپ جامعات میں شمار ہوتی ہیں۔ انجینئرنگ میں ٹاپ 15 ملکوں میں ایران کا تیسرا نمبر ہے۔ سخت ترین عالمی قدغنوں کے باوجود ایران سائنس و ٹیکنالوجی میں بے شمار کامیابیاں سمیٹ رہا ہے۔نیوکلیئرانرجی میں 77فیصد ‘ائیرو سپیس میں 45‘فزکس اور آسٹرولوجی میں 56فیصد‘فارماکو لوجی اور فارما سیوٹیکل میں 49فیصد اور نانو ٹیکنالوجی میں 42فیصد تناسب ہے۔ گزشتہ پانچ برسوں میں ایران کی بائیو ٹیک پروڈکشن تین بلین ڈالرز تک پہنچ گئی ہے۔ایران جگر کی پیوند کاری میں بھی سر فہرست ہے‘ جبکہ نانو ٹیکنالوجی کی مدد سے فوڈ ‘میڈیسن ‘الیکٹرونکس‘قومی سکیورٹی ‘ایروسپیس سمیت متعدد شعبوں میں بھی انقلابی ترقی و جدت لایا ہے۔ ایران نیوکلیئر فیول cycle کاماسٹر ہے جو Radiopharmaceuticalکی پیداوار کیلئے ضروری ہے۔ Nuclear Pumped Lasersسمیت ‘نیوکلیئر کائونٹنگ سسٹم میں تیزی سے پراگرس کی ہے۔ ایرانی سائنس ریسرچ و ٹیکنالوجی وزارت کے مطابق نومبر 2021ء میں ملک بھر میں 49سائنس و ٹیکنالوجی پارک قائم کیے گئے تھے۔ایران نے 2005ء میں کلب آف سپیس کنٹریز میں شمولیت اختیار کی اور اب تک 9سٹیلائٹ لانچ کر چکا ہے۔ سائنسی شعبہ میں خواتین کا کردار بھی نمایاں ہے ۔ ان کی شرح خواندگی انقلاب سے پہلے 34فیصد تھی‘ اب.3 99فیصد ہے۔ یونیسکو کے مطابق ایران دنیا کے ان چھ ممالک کی فہرست میں شامل ہیں جہاں عورت کو مکمل تعلیمی سہولیات میسر ہیں۔ فزیشن کے شعبہ میں 48فیصد‘ خواتین سپیشلسٹ میں 30فیصد اوریونیورسٹی فیکلٹی ممبران میں 33فیصد اضافہ ہوا۔ یونیورسٹیز میں طالبات کا تناسب 56 فیصد ہے۔ہائی سکول سطح پر 84 فیصد جبکہ پرائمری سطح پر 115 فیصد ہے۔ایران کے دور دراز علاقوں تک 99 فیصد خواتین کو صحت عامہ کی سہولیات میسر ہیں۔فلمی صنعت میں بھی خواتین کی بھر پور شمولیت ہے۔خواتین ڈائریکٹر اور اداکارائیں 45 عالمی فلم میلوں کی جیوری میں صدارت سنبھال چکی ہیں۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی میں خواتین کی شمولیت میں31فیصد اضافہ ہوا۔سنیما گرافی و فلم میکنگ کے شعبے میں دو ہزار سے زائد خواتین 114نیشنل ‘128انٹرنیشنل فلم ایوارڈ اپنے نام کر چکی ہیں۔ عالمی سپورٹس میں ایرانی خواتین کھلاڑی 3302 میڈلز جیت چکی ہیں۔ انقلاب سے قبل ایرانی زراعت زبوں حالی کا شکار تھی۔ ایرانی بادشاہی حکومت نے امریکی آقاؤں کے حکم پر زراعت کو تباہ و بربادکر دیا تھا۔آیت اللہ خامنہ ای نے 10فروری 1999ء کو گندم ‘زرعی اجناس کی پیداوار ‘ڈیری و لائیو سٹاک میں انقلابی ترقی کے منصوبے بنائے۔ 2026ء میں اسے 133.7فیصد تک بڑھانے کا ہدف مقرر کیا گیا ہے۔ سٹیل کی پیداوار میں ایران کا دسواں ‘ سیمنٹ میں گیارہواں‘ ایلومینیم میں اکیسواں ‘کاپر میں تیرہواں نمبر ہے۔ملک میں بجلی کے نرخ بھی انتہائی کم ہیں ‘ عالمی سطح پر الیکٹرسٹی پروڈکشن میں ایران کا سولواں مقام ہے۔گیس پروڈکشن میں تیسرا‘کروڈ آئل میں آٹھواں ‘قدرتی گیس کے ذخائر میں دوسرا نمبر ہے۔ Technology and Innovation Science پالیسی2010ء کے تحت ٹیکنالوجیز میں اکیڈمک سٹاف بڑھایاگیا اورسائنس ٹیکنالوجی پارک بنائے گئے۔نانو ٹیکنالوجی کونسل 2020ء میں بنی ‘ریسرچ اینڈ ایمجنگ ٹیکنالوجی میں ترقی ہوئی‘Innovation اور نالج بیسڈ اکنامی پر توجہ دی گئی جس کے نتیجے میں ایران مسلم ورلڈ میں سائنس وٹیکنالوجی کا Hub بن چکا ہے۔
اس میں دو آراء نہیں کہ ایران کے خلاف امریکہ کی تمام گھناؤنی سازشیں ناکام ہوگئیں ۔ایران نے ظالمانہ سامراجی پابندیوں سے ہمت نہیں ہاری بلکہ اس کا تعمیر و ترقی کا تابندہ سفر جاری ہے ۔ پاکستان نے اپنے مسلم برادر کو اسلامی انقلاب اور شاندار ترقی کیلئے مبار کباد پیش کی ہے۔ بھائی چارے کے جذبے سے سرشار پاکستان ایران کے مابین دوستانہ سفارتی‘ تجارتی اور عوامی سطح کے روابط سات سے زائد دہائیوں پر محیط ہیں۔ایران نے سب سے پہلے پاکستان کو تسلیم کیا تو 1979ء میں اسلامی انقلاب کوپاکستان نے سب سے پہلے تسلیم کیا اور یہ تاریخی اقدام مضبوط ‘پائیدار‘ اٹوٹ رشتے کی بنیاد بناکہ دشمن بھی اس آہنی دوستی میں دراڑ نہیں ڈال سکے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں