کشمیرسے بلوچستان تک بھارتی دہشت گردی

میں برملا کہتا ہوں کہ ہمارے حکمرانوں کی کمزور و ناقص کشمیر پالیسیوں نے کشمیر کاز کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ جس کا نتیجہ مودی سرکار کی جانب سے پانچ اگست 2019ء کو شب خون مار کر کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت ختم کرکے مقبوضہ جموں و کشمیر کی خود مختاری کو ہڑپنے کی صورت میں سامنے آیا ۔ توقع ہے کہ کشمیر ایشو نئی آنے والی حکومت کی پہلی ترجیح ہو گا اور مسلمانوں کے قاتل نریندر مودی کو اسرائیل کی طرح عالمی عدالتِ انصاف میں گھسیٹا جائے گا۔ بانی ٔپاکستان نے جغرافیائی اہمیت کے تناظر میں کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیاتھالیکن ایک عالمی سازش کے تحت تقسیم ہند کے ایجنڈے کے تحت مسلم اکثریتی آبادی کی بنیاد پر کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق نہیں ہونے دیا گیا۔مقبوضہ وادی میں جب بھارت نے زبردستی اپنی فوجیں داخل کرکے تسلط جمایا تو قائداعظم نے افواج ِپاکستان کے اُس وقت کے کمانڈر انچیف جنرل ڈگلس گریسی کو یہ ناجائزقبضہ چھڑانے کیلئے کشمیر پر چڑھائی کا حکم بھی دیا‘لیکن اس پر عمل نہ ہو سکا۔اس میں دو رائے نہیں کہ 1948ء میں خودمختار ریاست ِجموں و کشمیر میں اپنی افواج داخل کر کے اس کے غالب حصے پر ناجائز تسلط جمانے کا اصل مقصد پاکستان کی سلامتی کمزور کرنا تھا۔ یاد رہے کہ بھارت نے اسے خود ہی متنازع بناکر اقوام متحدہ سے رجوع کیا تھا ۔ یو این جنرل اسمبلی اور سلامتی کونسل اپنی بیسیوں قراردادوں کے ذریعے کشمیری عوام کے حقِ خودارادیت کو تسلیم کرنے کے باوجود آج بھی مقبوضہ وادی سے بھارت کے ناجائز تسلط اور ظلم و ستم کو ختم نہیں کراسکے جو کہ لمحۂ فکریہ سے کم نہیں۔مقبوضہ وادی میں ہر گزرتے دن کے ساتھ انسانی المیہ بدترین صورت اختیار کررہا ہے۔ آج بھارتی محاصرے کو تقریباًپانچ برس گزر چکے ہیں مگر کشمیریوں کے پائے استقلال میں ہلکی سی لرزش بھی پیدا نہیں ہوئی۔ بھارتی جبر کے مذموم ہتھکنڈوں نے تحریک کو مہمیز دے کر آزادی کیلئے کشمیری عوام کی تڑپ کبھی سرد نہیں ہونے دی۔مودی کی ریاستی دہشت گردی سے بنیادی حقوق اور مذہبی آزادیاں مسلسل سلب کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔مسجدوں کے دروازے کشمیری مسلمانوں پر بند کر دیے گئے ہیں ،بھارت نے وادی کو نازی عقوبت خانہ میں تبدیل کیا ہوا ہے۔ لاکھوں کشمیری تعلیم‘ صحت اور دیگر بنیادی سہولیات سے محروم اور گھروں میں مقید ہیں۔کشمیر کی خصوصی حیثیت کا خاتمہ کرنے کیلئے گھنائونے منصوبے کے تحت ہندو وزیر اعلیٰ لانے کیلئے مسلم آبادی کا تناسب تبدیل کر تے ہوئے 44لاکھ ڈومیسائل جاری کیے جا چکے ہیں۔ سرینگر کی 20ہزار کنال اراضی غیرمقامی ہندو سرمایہ کاروں کو دینے کا منصوبہ ہے۔ جندال گروپ نے مقبوضہ کشمیر کے ضلع پلوامہ کی 70 کنال (8.75 ایکڑ) اراضی پر سٹیل پروسیسنگ یونٹ کا سنگ بنیاد رکھ دیا ہے‘جو اقوام متحدہ کی قراردادوں کی صریح خلاف ورزی ہے۔ اجیت ڈوول نے تو اپنے نقشے میں آزاد کشمیر کو بھی شامل کر رکھا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں سرمایہ کاری کے نام پر بھارتی سرمایہ کاروں کے لیے 304.51کروڑ روپے کی لاگت سے 5290 کنال اراضی پر سات نئی انڈسٹریل اسٹیٹس قائم کرنے کا منصوبہ بھی تیار ہے ۔ دفعہ 370 کے خاتمہ کے دو ماہ بعد ہی کم از کم 7.27 مربع کلومیٹر کا جنگل کا رقبہ فوج کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ 26 جولائی 2020 ء کو جموں و کشمیر کی انتظامی کونسل کی مزید دو ترامیم کے تحت جموں و کشمیر کے کسی بھی علاقے کو 'سٹریٹجک ایریا‘کے طور پر ڈیکلیئر کیا جاسکتا ہے جہاں مسلح افواج بلا روک ٹوک تعمیرات اور دیگر متعلقہ سرگرمیاں انجام دے سکتی ہیں۔ مئی 2020 ء کو سری نگر سے تقریباً 26 کلومیٹر دور پٹن میں بھارتی فوج کی ایک یونٹ نے 129کنال اراضی پر قبضہ جمالیا۔ خالصتاً فوجی اورجنگی مقاصد کی خاطر ریلوے لائنیں بچھائیں اور سرنگیں نکالی جا رہی ہیں۔ فوجی مقبوضات اور تنصیبات کو وسیع سے وسیع تر کیا جا رہا ہے۔ جموں کے دور دراز دیہاتی و سرحدی علاقوں میں سکونت پذیر مسلمانوں کو '' Land Evacuation Forest‘‘پروگرام کے نام پر بالجبراپنی رہائشگاہوں اور جائیدادوں سے محروم کیا جا رہا ہے۔ بی جے پی حکومت نے 600 سے زائد کشمیری مسلم سرکاری ملازمین کو ملازمت سے برطرف کر دیا ۔ کشمیریوں کی 800 سے زیادہ جائیدادیں بشمول زرعی اراضی، مکانات اور دکانیں ضبط کر لی گئی ہیں تاکہ کشمیریوں کو حق خودارادیت کے لیے جاری جدوجہد سے وابستگی کی سزا دی جا سکے۔ بھارتی حکام پہلے ہی سری نگر میں کل جماعتی حریت کانفرنس کے ہیڈ کوارٹر اور مقبوضہ کشمیر میں سید علی گیلانی شہید، شبیر احمد شاہ، آسیہ اندرابی اور جماعت اسلامی سمیت حریت رہنماؤں اور تنظیموں سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں مکانات اور جائیدادیں ضبط کر چکے ہیں۔کشمیر کے مسلمانوں کو دوسرا روہنگیا بنانے کے گھناؤنا منصوبے پر آر ایس ایس کا پرچارک گجرات کا قصائی عمل پیرا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم کی جانب سے مرتب کی گئی رپورٹ میں یہ چشم کشا انکشاف آنکھیں کھولنے کیلئے کافی ہے کہ 35 برس کے دوران بھارتی افواج نے تقریباًدولاکھ کے لگ بھگ کشمیریوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا ،10ہزارسے زائد افراد کو دورانِ حراست ماورائے عدالت قتل کیا گیا۔ 23 ہزار خواتین بیوہ ہوئیں ، ڈیڑھ لاکھ بچے یتیم، 10ہزار سے زائد کشمیری لاپتہ ہوئے،چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کرتے ہوئے 15 ہزار خواتین کی بے حرمتی کی گئی۔1991ء میں کنن پوش پورہ میں اجتماعی عصمت دری، شوپیاں میں دہرا قتل اور عصمت دری اور نوجوان آصفہ بانو کی اجتماعی عصمت دری ہولناک مثالیں ہیں۔ہزاروں نوجوان پیلٹ گنز کا نشانہ بنے، سرچ آپریشن کے دوران دو لاکھ سے زائدعام شہریوں کو حراست میں لیا گیا،رہائشی مکانوں کو مسمار کر اپنے توسیعی منصوبوں کو پروان چڑھایا جا رہا ہے۔مقبوضہ وادی میں کشمیریوں کی حالت دگرگوں ، کاشتکاری سے لے کر کاروبار تک سب کچھ تنزلی کا شکار ہے ۔مقبوضہ وادی میں غیر مسلم آبادی میں اضافہ کرنے کا بس ایک ہی مقصد ہے کہ اسلامی تشخص برقرار نہ رہے اور اس علاقے کے اصلی وارث مسلمان اقلیت میں آجائیں۔ مودی بھارت ورکنگ باؤنڈری ،کنٹرول لائن پر فائرنگ اور گولہ باری کر کے پاکستان کیلئے مشکلات پیدا کر رہاہے ۔لہٰذا افغانستان اور خطے کے دیگر ممالک میں بیک وقت ہونے والی دہشت گردانہ کارروائیوں کی کڑیاں پاکستان کی سلامتی کے درپے بھارت کی جاری سازشوں کے ساتھ ملتی نظر آتی ہیں جسے اب خطے میں امن کی بحالی ہضم نہیں ہو رہی۔ یہی وجہ ہے کہ مودی حکومت عالمی دہشت گرد تنظیم ''داعش ‘‘کی بھی اسی مقصد کے تحت سرپرستی کررہی ہے‘ لہٰذا کابل اور قندوز میں ہونے والے دھماکوں کی تحقیقات میں بھارتی سرگرمیوں اور عزائم کو فوکس کرنا ناگزیر ہے۔ بلوچستان اور دیگر صوبوں سے ''را‘‘ کے کلبھوشن سمیت مختلف ممالک کے ایجنٹس کی گرفتاری سے یہ حقیقت کھل کر سامنے بھی آچکی ہے کہ ملک دشمن عناصر مکمل طور پر پاکستان کی سلامتی اور خوشحالی کے درپے ہیں۔ماہ رنگ بلوچ بھی اسی مذموم سلسلے کی ایک کڑی ہے ۔آخر ایسا قانون کب بنے گا کہ جوملک دشمن ایجنٹوں کو لگام دے سکے ؟پاکستان نے علاقائی وعالمی امن کی خاطر بھارت سے مذاکرات کے دروازے ہمیشہ کھلے رکھے لیکن اوڑی اور پلوامہ دہشت گردی کا ڈھونگ رچا کرانڈین فوج نے نہ صرف سرحدی کشیدگی کو پروان چڑھایا بلکہ کشمیریوں پر بھی مظالم کا سلسلہ تیز کر دیا تاکہ حقِ خودارادیت کی آواز کودبایا جاسکے۔ مودی کے مکروہ عزائم سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں رہا کہ وہ الیکشن سے قبل وادی میں کوئی نیا کھیل کھیل رہا ہے ۔ ایودھیا میں رام مندر کے بعد اس کا اگلاہدف کشمیر ہی ہے اس خطے کو neutral zone بنا دیا جائے گا تاکہ اقوام متحدہ کی فوج یہاں اتار دی جائے اور کشمیر کی تحریک آزادی کوکچل دیا جائے ۔بھارت کشمیریوں سے ان کی زمین اور ان کا کشمیری کہلانے کا حق چھین رہا ہے۔اب مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے زبانی جمع خرچ نہیں‘ عملی اقدامات کی ضرورت ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں