گوادر‘ بارش کی تباہ کاریوں میں عساکر کی خدمات

قیامت خیز زلزلہ ہو یا تباہ کن سیلاب یا کورونا‘ ا فواجِ پاکستان نے ہمیشہ ہر اول دستے کے طور پر قوم کو قدرتی آفات و مصائب سے محفوظ رکھنے میں مثالی کردار ادا کیا ہے۔ اس وقت بلوچستان میں سیلاب اور طوفانی بارشوں نے تباہی مچا رکھی ہے جس سے سب سے زیادہ گوادر‘جیوانی اور سربندر متاثر ہوئے ہیں۔ ایسا علاقہ جو پہلے ہی پسماندہ ہے۔ جہاں تعلیم‘ صحت و آمدورفت اور روز گار کے وسائل بہت کم ہیں اورجو مسلسل ملک دشمن عناصر کی دہشت گردی کا شکار رہتا ہے‘ یہاں کے باشندوں کو قدرتی آفات سے بچانے کیلئے کسی بھی حکومت کی طرف سے کوئی ایسے انتظامات و اقدامات نہیں کیے گئے جن سے بروقت یہاں کے پسماندہ عوام کو کچھ ریلیف مل سکے۔ واضح رہے کہ حکمرانوں کی لاپروائی کی وجہ سے ہی احساسِ محرومی جنم لیتا ہے جو بعدازاں نوجوانوں کو گمراہی کی طرف مائل کرتا ہے۔ جبکہ افواجِ پاکستان ان متاثرہ علاقوں میں شدید طوفانی بارشوں کے باعث ہونے والے نقصانات سے عوام کو ریلیف فراہم کرنے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر ریسکیو اور بحالی کے آپریشنز جاری رکھے ہوئے ہیں۔ پاک بحریہ کی کشتیاں‘ غوطہ خور کسی بھی ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کیلئے ہمہ وقت تیار ہیں۔پاک فوج کا 44ڈویژن گوادر کے بارش سے متاثرہ علاقوں میں ہر ممکن مدد کر رہا ہے۔ 2010ء کے بعد گوادر ضلع میں یہ سب سے زیادہ بارش کا سلسلہ تھا جب طوفان کی وجہ سے اس علاقے میں شدید بارشیں ہوئیں۔ پاک فوج مشکل کی گھڑی میں گوادر کے عوام کے ساتھ کھڑی ہے ۔جی او سی 44 ڈویژن گوادر میجر جنرل عدنان سرور ملک نے خود مختلف علاقوں میں پانی کی نکاسی کی نگرانی کی۔ سوال یہ ہے کہ کہاں ہیں بلو چستان کے نام نہاد خیر خواہ جو سارا سال قومی سالمیت اور پاک افواج کے خلاف زہریلے پروپیگنڈا میں مصروف رہتے ہیں اور جب صوبے پر کوئی آفت آئے تو ان پر خاموشی طاری ہو جاتی ہیں ۔ واضح رہے کہ یہ جانباز وطن کے محافظ ہی آپ کی مدد کیلئے آتے ہیں ۔ گوادر میں فوجی ریلیف آپریشن اس عزم کا عملی مظہر ہے کہ فوج نہ صرف دہشت گردوں کی سرکوبی بلکہ سیلاب‘ طوفان‘ زلزلوں و دیگر قدرتی آفات کی صورت میں اپنی درخشندہ روایات پر عمل کرتے ہوئے ریلیف کی سرگرمیوں میں سب سے آگے ہے۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ پاک فوج کے جوانوں نے سرحدوں کی حفاظت کیساتھ ساتھ اندرون ملک آنے والی قدرتی آفات میں بھی عوام کی امداد و بحالی کیلئے گراں قدر خدمات انجام دی ہیں جو سنہری حروف میں لکھنے کے قابل ہیں۔
گوادر میںموجودہ ابتر صورتحال کا بخوبی اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ خطرناک بارشوں کا پچھلا پندرہ سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا جس نے گوادر کو ڈبو دیا۔ کئی علاقے زیر آب آگئے‘یہاں کاانفراسٹرکچر تباہ‘بجلی کا نظام فیل‘ پولیو مہم معطل‘میٹرک کے امتحانات ملتوی‘ انٹرنیٹ کنکشن معطل اور پینے کے پانی کی شدید قلت ہے۔ گوادر تحصیل میں3100گھر تباہ‘جیوانی میں 125 اور تحصیل سربندر میں 260 مکانات کونقصان پہنچا ۔ان علاقوں کا 95فیصد زرعی رقبہ زیر آب ہے اور14رابطہ سڑکیں بھی تباہ ہو گئی ہیں۔بلاشبہ پاک فوج کے دستے زمینی راستوں ہی نہیں‘ہیلی کاپٹر وں سے بھی دوردراز کے علاقوں میں دل و جان سے ریلیف آپریشن انجام دے رہے ہیں۔ رہائشی علاقوں سے پانی نکالنے سے لے کر دور دراز علاقوں میں متاثرہ آبادی کو پینے کے پانی اور راشن کے تھیلوں سمیت ضروری امداد کی فراہمی فوج کی امدادی کارروائیوں میں شامل ہے جبکہ مواصلات کے ڈھانچے کو فعال کرنا اور ہنگامی بنیادوں پر شاہراہوں کی بحالی بھی پاک فوج کی اہم ترین خدمات ہیں۔ پاک فوج اور کوسٹ گارڈ کے جوانوں نے تیز پانی کے بہائو میں اپنی جانوں کی پروا کیے بغیر کئی افراد کو ڈوبنے سے بچایا۔ فوج نے سیلاب کی وجہ سے تباہ ہونے والے گھروں کے اندر پھنسے ہوئے مقامی لوگوں کو بچانے اور انہیں محفوظ مقامات پر منتقل کرنے میں مقامی انتظامیہ کی مدد بھی کی۔ بلاشبہ سیلاب متاثرین کو سیلابی ریلوں سے محفوظ مقامات تک پہنچانے کیلئے دن رات انسانی ہمدردی کی خاطر امدادی کارروائیوں میں پاک فوج کی بھرپور شمولیت قابلِ تحسین ہے۔ ایف سی اور پاک فوج کے احسن اقدام کو اہلِ علاقہ کی جانب سے بھی سراہا گیا ہے ۔سیلاب زدہ علاقوں میں متاثرین کیلئے پاک فوج کے ریلیف آپریشن کے تحت کمبل‘ پانی‘ تین وقت کے کھانے کی فراہمی کیساتھ ساتھ موبائل میڈیکل کیمپس ہزاروں سیلاب متاثرین کے علاج و معالجہ میں مصروف ہیں۔ ان فری میڈیکل کیمپس میں مفت ادویات بھی فراہم کی جا رہی ہیں۔ 50 ٹن راشن‘ 120 ملین کی ادویات ‘17 فلڈ ریلیف میڈیکل کیمپس اور 15 موبائل میڈیکل کیمپوں کے انعقاد سے پاک فوج دکھی انسانیت کی خدمت میں پیش پیش ہے۔ مزید برآں وبائی امراض سے بچائو کیلئے احتیاطی تدابیر کے بروشرز بھی تقسیم کیے گئے ہیں۔
اس میں کوئی دو آراء نہیں کہ محتاط منصوبہ بندی‘ وسائل کے بہترین استعمال‘ دور اندیشی جو کہ پاک فوج کا خاصا ہے‘ اور اسی وجہ سے ہی بڑی حد تک نقصان پر قابو پانے میں مدد ملتی ہے ۔بے شک پاک فوج کی جرأت مندانہ قیادت کی بدولت ہی پاکستان تمام بڑے سانحات سے بخوبی نبرد آزما ہوتا ہے۔ گوادر میں صحت‘ تعلیم‘ پانی‘ ماہی گیری اور کھیلوں کے منصوبوں کیلئے بھی پاک فوج کی کاوشیں قابلِ ذکر ہیں۔گوادر میں ماہی گیروں کو 500 جالوں کی فراہمی‘ مچھلی کے نیلام ہال کی اَپ گریڈیشن اور سولرائزیشن‘ بے روزگار ماہی گیروں کیلئے دکانوں کی تعمیر‘ صاف پانی کے آر او پلانٹس‘ سولر پینلز کی فراہمی اور سکولوں کی سولرائزیشن‘ نو بنیادی ہیلتھ یونٹس‘ منشیات کے عادی افراد کی بحالی کے مراکز‘ ماہی گیروں کے بچوں کو مفت تعلیم کی فراہمی ‘دوفٹبال گراؤنڈز اور باکسنگ ایرینا کی ازسرنو تعمیر بھی افواجِ پاکستان کی خدمات میں شامل ہے۔
گوادر بندرگاہ پاکستان کیلئے بڑی تزویراتی اور اقتصادی اہمیت کی حامل ہے۔ کراچی اور بن قاسم بندرگاہوں کے بعد بلوچستان میں یہ پاکستان کی تیسری اہم گرم پانی اور گہرے سمندر کی بندرگاہ ہے جو خلیج فارس کے دہانے پر واقع ہے۔ اس بندرگاہ کی وجہ سے پاکستان کی جیوسٹرٹیجک پوزیشن پورے خطے میں خاص مقام حاصل کر چکی ہے۔اس عظیم الشان بندرگاہ کو کئی چیلنجوں کا سامنا ہے جیسے کنیکٹیویٹی کی کمی‘ ترقی یافتہ انفراسٹرکچر اور اس سے منسلک سہولیات‘ نیزسکیورٹی خدشات ہیں جن پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ اس وقت بھارت گوادر بندرگاہ کی ترقی کو روکنے کیلئے تمام حربے استعمال کر رہا ہے۔ ہمارا مکار و عیار ازلی دشمن مقبوضہ کشمیر سے لے کر بلوچستان تک دہشت گردی کی مذموم کارروائیوں میں سرگرم عمل ہے ۔ تاہم پاکستان کو سنجیدگی سے ان چیلنجز سے نمٹنے اور گوادر پورٹ پر کام تیز کرنے کی ضرورت ہے جو پاکستان کیلئے اقتصادی خوشحالی‘ علاقائی روابط اور میری ٹائم ترقی کی کلید ہے۔ اس سے جنوبی‘ مغربی اور وسطی ایشیا کی ریاستوں کے درمیان تجارتی نقل و حمل‘ تیل اور گیس کی پائپ لائنوں کی تنصیب سمیت دیگر صنعتی اور تجارتی شعبوں کو متحرک کیا جا سکتا ہے۔ سی پیک منصوبہ درحقیقت معاشی گیم چینجر ہے اور یہ پاکستان کو معاشی اہمیت کی بلندی پر کھڑا کرسکتا ہے۔ اقتصادی زونز‘ صنعتی پارکس‘ آئل پائپ لائنز کے قیام سے جہاں روزگار کے وسیع مواقع پیدا ہوں گے‘ وہیں تزویراتی طور پر بین الاقوامی اہمیت کی حامل گوادر بندرگاہ سے پورے خطے کیلئے اقتصادی ترقی کے دروازے کھل جائیں گے۔ سی پیک سے منسلک ممالک کی تجارتی منڈیوں تک رسائی ہو گی اور عالمی اقتصادی ترقی کے امکانات بھی روشن ہو جائیں گے۔ سچ تو یہ ہے کہ سی پیک اور گوادر جس وقت پوری طرح فعال ہوں گے‘ پاکستان پرچاروں طرف سے ہن برسے گاجس کے بعد پاکستان کی غیر مستحکم معاشی صورتحال قصہ پارینہ بن جائے گی ۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں