عالمی عدالت انصاف اپنے فیصلے پر عملدرآمد یقینی بنائے

واشنگٹن کی پشت پناہی پر اسرائیل کی فلسطین میں توسیع پسندانہ اور جنگجویانہ پالیسیوں نے مشرقِ وسطیٰ کا امن داؤ پر لگا رکھا ہے۔ صہیونی افواج کی ٹینکوں اور جہازوں کے ذریعے گولا باری سے لگ بھگ 40 ہزار مظلوم فلسطینی زندگی کی بازی ہار چکے ہیں جبکہ لاکھوں نہتے شہری محفوظ پناہ گاہوں کی تلاش میں در بدر کی ٹھو کریں کھا رہے ہیں۔ غزہ اور رفح میں زمینی و فضائی آپریشن کی وجہ سے فلسطینیوں کے انخلا کا عمل خوفناک حد تک بڑھ چکا ہے۔ ایندھن‘ پانی اور طبی سازو سامان کی قلت کے باعث ہسپتال بھی بند ہو رہے ہیں۔ اقوام متحدہ کے فوڈ پروگرام (ڈبلیو ایف پی) کے مطابق مقبوضہ علاقوں میں اب خوراک کا ذخیرہ محض 10 سے 12 روز تک کے لیے باقی رہ گیا ہے۔ پانی کی کمی کی وجہ سے لوگ آلودہ پانی پینے پر مجبور ہیں۔ اقوام متحدہ نے اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم اور ظلم و بربریت کے خلاف اب تک 250 سے زائد قرار دادیں پاس کی ہیں لیکن مقامِ افسوس ہے کہ ان میں ایک پر بھی عملدرآمد نہیں ہوسکا۔ اوسلو معاہدہ‘ جو امریکی صدر بل کلنٹن کی مو جودگی میں 30 برس قبل عمل میں آیا تھا‘ اس کے تحت اسرائیل کو فلسطین کی 22 فیصد زمین واپس کرنا تھی تا کہ ایک آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست قائم ہو سکے مگر ایسا کرنے کے بجائے صہیونی توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کے لیے ظلم وبربریت کی تمام حدیں پار کردی گئیں۔ امریکہ کے زیرِ قیادت طاقتور مغربی ممالک نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزیوں اور انسانی حقوق کی پامالی پر آنکھیں بند کر رکھی ہیں جبکہ عالمی برادری نے اسرائیلی اقدامات کی لفظی مذمت ہی پر اکتفا کیاہوا ہے جس سے عملی طور پر نہ فلسطینیوں کی کوئی مدد ہو سکتی ہے اور نہ ہی صہیونی حملوں میں کمی دیکھنے کو ملی ہے۔
گزشتہ دنوں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں واشنگٹن اور اس کے اتحادیوں کی مخالفت کے باوجود یورپ سمیت دنیا بھر کے 143ممالک کی طرف سے فلسطینی ریاست کو اقوام متحدہ کا ممبر بنانے کی قرارداد پاس کی گئی جبکہ مختلف ممالک کا آزاد فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا اعلان اور عالمی عدالتِ انصاف کا بین الاقوامی قوانین کی کھلے عام خلاف ورزیوں پر نیتن یاہو سمیت اہم اسرائیلی سیاسی و عسکری رہنمائوں کی گرفتاری کے فیصلے نے صہیونی دہشت گردی پر جو مہر ثبت کی ہے‘ وہ خوش آئند ہے۔ تاہم سوال یہ ہے کہ فلسطین میں اسرائیلی جنگی جرائم کی روک تھام کو یقینی کون بنائے گا ؟ حقیقت یہ ہے کہ صہیونی شر پسندوں کی جارحانہ کارروائیاں رُکنے کا نام نہیں لے رہیں۔ اگر حالیہ رپورٹس کا جائزہ لیا جائے تو تمام حقائق کھل کر سامنے آجاتے ہیں۔ صہیونی افواج نے فلسطین میں موجود تمام مقدس مقامات بالخصوص قبلہ اول مسجد اقصیٰ اور غربِ اردن کے شہر الخلیل میں قائم تاریخی جامع مسجد ابراہیم کی سینکڑوں بار بے حرمتی کی ہے۔ دنیا بھر میں انسانیت کے ناتے سے اس بار اسرائیلی وحشت و درندگی کے خلاف بھرپور آوازیں بلند ہوئی ہیں۔ بالخصوص امریکہ اور برطانیہ سمیت مغربی ممالک میں ہر مکتبِ فکر کے لوگوں نے احتجاجی جلسے اور مظا ہرے کیے اور ریلیاں نکالیں۔ احتجاج کا یہ سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ اقوام عالم کے 143 سے زائد ممالک نے ببانگِ دہل فلسطینی ریاست کو تسلیم کر لیا ہے۔ ناروے‘ آئرلینڈ‘ سپین اور سلووینیا نے حال ہی میں فلسطین کو تسلیم کیا ہے۔ افسوس سامراج اور اس کے اتحادی یہ سب کچھ ہونے کے باوجود اسرائیل کی ننگِ انسانیت کارروائیوں اور دہشت گردی کو سپورٹ کر رہے ہیں۔ امریکہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں جنگ بندی کے لیے پیش کردہ کئی قراردادیں ویٹو کر چکا ہے۔ غزہ اور رفح پر ایسے وقت میں فوجی آپریشن کا ہونا کہ جب وہاں پناہ لیے ہوئے لاکھوں عام شہریوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کا کوئی بندوبست نہیں‘ پورے عالمِ انسانیت کے لیے ایک سوالیہ نشان ہے۔ ان نازک حالات میں عرب اور یورپی ممالک جنوبی افریقہ کی درخواست پر بین الاقوامی عدالتِ انصاف کے فیصلے کا خیر مقدم کرتے ہوئے جارحانہ کارروائیاں روکنے پر زور دے رہے ہیں لیکن دوسری جانب واشنگٹن کی مجرمانہ خاموشی کسی بڑے سانحے کو جنم دیتی دکھائی دے رہی ہے۔ عالمی عدالت انصاف کے 15 میں سے 13 ججز نے رفح کراسنگ کو فوری طور پر کھولنے اور اسرائیل کے جنگی جرائم کی تحقیقات کا فیصلہ سنا کر انسانی حقوق کے علمبرداروں کی امنگوں کی ترجمانی کی ہے۔ لیکن ماضی کی طرح‘ امریکہ اس فیصلے پر عملدرآمد میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے کیونکہ وائٹ ہاؤس کے ترجمان جان کربی کے اس بیان کہ '' ہم رفح کے حوالے سے واضح اور مستقل مؤقف رکھتے ہیں‘ ‘ نے کئی سوالات کو جنم دیا ہے۔ صدر جو بائیڈن کے مطابق رفح میں فوجی آپریشن روکنے سے متعلق عالمی عدالتِ انصاف نے فیصلہ دے کر اپنے دائرہِ اختیار سے تجاوز کیا ہے۔
دوسری جانب اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو بھی اس فیصلے پر عملدرآمد سے صاف انکار کر رہا ہے۔ صہیونی وزیر خزانہ سمٹر یچ نے ڈھٹائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہاں تک کہاکہ غزہ میں جنگ کو روکنے کا مطلب اسرائیل کو صفحہ ہستی سے مٹانا ہے۔ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے اہلکار جوزف بوریل نے انکشاف کیا ہے کہ یورپی ممالک بین الاقوامی عدالت کے ججوں کو اسرائیل کے خلاف فیصلے پر دھمکا رہے ہیں جبکہ برطانوی اخبار ''دی گارڈین‘ ‘ کے مطابق موساد کے سابق سربراہ یوسی کوہن (Yossi Cohen) نے بھی جنگی جرائم کی تحقیقات ترک کرنے کیلئے دباؤ ڈالتے ہوئے عالمی عدالت انصاف کے پراسیکیوٹر کو دھمکیاں دی تھیں۔ ان حالات میں یہی سوال ابھرتا ہے عالمی عدالت انصاف کا فیصلہ اسرائیل کو غزہ میں جنگ جاری رکھنے سے روک سکے گا یا نہیں؟
اسرائیل کے قیام کا جب اعلان کیا گیا تھا تو تقریباً پانچ ہزار مربع میل کے کُل رقبے پر کم و بیش پانچ لاکھ یہودی آباد تھے۔ آج اسرائیل کا رقبہ38 ہزار مربع میل اور آبادی 80 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ 1967ء میں فلسطین پر قبضے کے بعد اس سر زمین کے اصل وارث لاکھوں کی تعداد میں اردن‘ شام اور لبنان میں پناہ لینے پر مجبور کر دیے گئے۔ سامراجی اور استعماری ہتھکنڈوں نے انہیں بعد ازاں یہاں سے بھی نکلنے پر مجبور کر دیا۔ مقامِ افسوس ہے کہ تسلط و طاقت کے فلسفے پر قائم اس ناجائز ریاست کے ظلم و جور اور سفاکیت کا سلسلہ مسلسل دراز ہوتا جا رہا ہے۔ اسرائیلی عقوبت خانوں میں قید ہزاروں بچوں‘ خواتین اور نوجوانوں پر مختلف خطرناک ادویات اور ہتھیار آزمائے جا رہے ہیں‘ جن کی وجہ سے فلسطینی خطر ناک عارضوں میں مبتلا ہو رہے ہیں۔ مظلوم فلسطینی خواتین کو اسرائیلی فوج کے ہاتھوں بدترین تشدد اور ہراسانی کا سامنا ہے۔ اسرائیلی فوج کا خواتین کی برہنہ تلاشی لینا‘ قید خواتین اور دیگر افراد کو دھاتی پنجروں میں قید رکھنا‘ ان پنجروں میں حملہ آور کتوں کا چھوڑنا‘ یہ سب باتیں انسانی حقوق کے منہ پر طمانچہ ہیں۔ اسرائیلی فوج فلسطینیوں کو انسانی ڈھال کے طور پر بھی استعمال کر رہی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ ان مظالم پر نہ صرف عالمی برادری کی زبانیں خاموش ہیں بلکہ مسلم حکمرانوں پر بھی سکوت طاری ہے۔ اگرچہ دنیا بھر میں عوام مظاہروں اور احتجاجی ریلیوں سے اسرائیل پر عالمی دبائو بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اگر مغربی میڈیا کی جانب سے روس کے یوکرین پر حملہ کو غیر انسانی قرار دیا جاتاہے تو پھر غزہ میں بدترین مظالم پر نیتن یاہو کے جنگی جرائم کی حمایت کیوں؟ امریکی سر پرستی میں غزہ اور رفح میں جو کچھ ہو رہا ہے اس سے حالات مزید خراب ہو رہے ہیں۔ عالمی عدالت انصاف کو چاہیے کہ وہ بین الاقوامی قوانین کی پامالیاں رکوانے اور سلامتی کونسل کی فلسطین سے متعلق قرار دادوں پر عملدرآمد یقینی بنانے کے لیے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرے تاکہ مشرقِ وسطیٰ میں قیامِ امن کے لیے دی گئی قربانیوں کو زائل ہونے سے بچایا جا سکے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں