بد قسمتی سے آج کل وطنِ عزیز میں جس طرح سے غدار شیخ مجیب الر حمن کے تذکرے کیے گئے‘ پی ٹی آئی اور اس کے لیڈر کی ایما پر اس غدار کو ہیرو بنا کر اس کے گھنائونے قومی جرم کو آزادی کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا‘ وہ انتہائی شرمناک ہے ۔ سقوطِ ڈھاکہ پاکستان کی تاریخ کا سیاہ باب ہے اور شیخ مجیب کون تھا ؟ بھارتی بدنامِ زمانہ ایجنسی را کا ایجنٹ‘ جوپاکستان توڑنے کی اگر تلہ سازش کیس میں ملوث تھا ۔1971 ء کا سانحہ اچانک رونما نہیں ہوا اس کیلئے ہمارے دشمن نے قیامِ پاکستان سے ہی بڑی عیاری و مکاری کے ساتھ بنگالیوں میں نفرت کے بیج بوئے جس کا ثبوت 70ء کے الیکشن ہیں جن میں مغربی پاکستان کی کوئی بھی سیاسی جماعت مشرقی پاکستان میں ایک بھی نشست نہ حاصل کر سکی ۔ بنگلہ دیش کی نئی نسل کے ذہن میں یہ بات انڈیلی گئی کہ پاکستان ایک بھیانک خواب تھا۔مغربی ومشرقی پاکستان کے د رمیان 1400کلومیڑ حائل بھارتی سرزمین کی وجہ سے انتظامی مسائل اپنی جگہ تھے لیکن71ء میں اس فاصلے نے بھارت کی پاکستان کودولخت کردینے کی گھنائونی سازش کامیاب بنانے میں اہم کردار ادا کیا۔ بھارت نے بنگالیوں کوبغاوت پہ اکساتے ہوئے باور کر ایا کہ مغربی پاکستانی بنگالیوں سے نفرت کرتے ہیں‘ دوسرے یہ کہ دانستہ طورپر بنگالیوں کو پسماندہ اور غیرترقی یافتہ رکھنا چاہتے ہیں۔ انڈین آرمی نے بھارت اور مشرقی پاکستان میں قائم تربیت گاہوں میں مکتی باہنی کی تربیت حاصل کی ۔پاک فوج کی وردیوں میں ملبوس بھارتی فوجیوں نے ذلت آمیز کارروائیاں کرکے مشرقی پاکستان کے عوام کو پاک فوج کے خلاف ا بھارا۔امریکن کیرئیر ڈپلومیٹ Archer Blood کے مطابق بھارتی سر زمین مکتی باہنی کیلئے محفوظ جنت تھی۔ وہاں انہیں کھانا‘رہائش‘ میڈیکل و اسلحہ ٹریننگ بھی فراہم کی گئی اور ہتھیار بھی دیے گئے تھے ۔را کے افسرRK Yadav نے اپنے ایک مراسلے میں انکشاف کیا کہ بھارتی وزیراعظم اندرا گاندھی نے بھارتی پارلیمنٹ میں 31 مارچ 1971 ء کوباقاعدہ پاکستان فوج کے خلاف منصوبے کی منظوری دی اور را کے افسروں کو پاکستان کے اندر شورش بپا کرنے کیلئے بھیجا گیاجس کا اعتراف B. Ramanکی کتاب The Kaoboys of R&AWمیں بھی کیا گیا ہے ۔
بنگالیوں کی باغی ہونے کی ایک بڑی وجہ تعلیمی نصاب بھی تھا ۔مشرقی پاکستان میں تعلیمی ماہرین ہندو تھے جنہوں نے وہاں کے بچوں میں بغاوت کا زہر بھر دیا ۔بھارت نے قبیح پروپیگنڈا کیاکہ مشرقی پاکستان کے پٹ سن کے پیسوں سے مغربی پاکستان ترقی کر رہا ہے اور ان کو غربت میں جھونک دیا گیا ہے۔کراچی اور ڈھاکہ کا ایشو اٹھا یا گیا۔ ان میں احساس پیدا کیا گیا کہ مشرقی پاکستان کی 55فیصد آبادی کے تحت ڈھاکہ دارلحکومت بننا چاہیے تھا۔اردو بنگالی زبان تنازع کو ہوا دی گئی۔ملٹری و بیوروکریسی میں اعلیٰ عہدوں پر مغربی پاکستان کے مقابلے میں مشرقی پاکستان کی نمائندگی کے سوالات اٹھائے گئے۔ 70ء کے الیکشن میں شیخ مجیب الرحمن کو اقتدار نہ سونپنے نے جلتی پر تیل کا کام کیا اور اس بھڑکی ہوئی چنگاری نے سب کچھ جلا ڈالا۔بنگالیوں سے پو چھا جائے کہ خواجہ ناظم الدین‘ محمد علی بوگرہ‘حسین شہید سہروردی اور اسکندرمرزا کون تھے؟ کیا ان کا تعلق مشرقی پاکستان سے نہیں تھا؟فوج میں ایم ایم عالم و سرفراز احمد رفیقی بھی بنگالی تھے۔
1971ء کی تاریخ شاہد ہے کہ پاک فوج نا مساعد حالات اور بے شمار چیلنجز کے باجود جوان مردی و پامردی سے لڑی۔ پاک فوج پر 30 لاکھ بنگالیوں کے قتل کا جھوٹاالزام عائد کیا گیا۔ڈھاکہ کے انگریزی اخبار' مارننگ سن‘ کے ایڈیٹر نور الاسلام‘ جو پاکستان کے حامی نہیں تھے‘ انہیں بھی کہنا پڑا کہ تین ماہ میں 30لاکھ افرادکی ہلاکت کو یقینی بنانے کیلئے روزانہ گیارہ ہزار افراد کو موت کے گھاٹ اتارنا پڑے گا۔ شرمیلا بوسن کی کتاب Dead Reckoning: Memories of the 1971 Bangladesh War میں پاک فوج کے ہاتھوں بنگالیوں کے قتل کو huge lieقرار دیا۔ان کے مطابق اس جنگ میں 50ہزار سے ایک لاکھ کے درمیان لوگ مارے گئے۔سیاسی مفادات اور ہولو کوسٹ سے بڑاقتل دکھانے کیلئے جھوٹے اعدادوشمار دکھائے گئے۔اصل قتلِ عام تو بہاری کمیونٹی کا ہوا‘بدقسمت ہزاروں بہاری خاندانوںکا صفایا کردیا گیا تھا ۔ مغربی پاکستان سے تعلق رکھنے والے افسران اور ان کے کنبوں کو ہلاک کیا گیا۔ایک رپورٹ کے مطابق جب جہاز چٹاگانگ کے قریب پہنچا تو وہاں لاشیں تیر رہی تھیں۔ تمام سڑکیں بہاریوں اور مغربی پاکستانیوں کی لاشوں سے بھری ہوئی تھیں ۔نٹور کے قریب ایک چھوٹا سا بہاری قصبہ سانتاہر میں بڑے پیمانے پر قتلِ عام ہوا۔ بنگالی تجزیہ کار تاجم الحسین لکھتے ہیں کہ مکتی باہنی نے 15 اگست 1975 ء تک غیر بنگالیوں کا قتل جاری رکھا۔ وہ پبنا کے ایک قصبے سراج گنج کے بارے میں ایک افسوسناک کہانی بیان کرتے ہیں جہاں متعدد پاکستانیوں کو جیل کی عمارت میں پھینک کر آگ لگادی گئی۔ وہ لکھتے ہیں کہ اس طرح کی ہلاکتیں مکتی باہنی کی سربراہی میں مجیب کی پرائیویٹ فوجوں کا پسندیدہ کھیل تھاجبکہ مکتی باہنی عوامی لیگ کے غنڈوں کی جانب سے بہاری خواتین کی بے حرمتی پر مغربی میڈیا نے خاموشی اختیار کر لی۔ افسوس بہار ی کمیونٹی آج بھی بے گھر و بے یارو مددگار ہے۔
71ء کی جنگ میں قتل و غارت اور نسل کشی کا سارا الزام بنگلہ دیش اور ہندوستان نے پاکستان پر ڈال دیا جبکہ بھارت نے 1971 ء سے متعلق تمام ریکارڈ ختم کردیا ہے۔ اندرا گاندھی نے عالمی سطح پر پاکستان کا امیج بگاڑنے کیلئے جمہوریت کارڈ کا استعمال کرتے ہوئے امریکہ و مغرب کو یہ باور کرایا کہ پاکستان بد ترین آمریت کے قبضے میں ہے۔ بھارت میں چاہے کانگریس اقتدار میں ہویا انتہا پسند بی جے پی‘ پاکستان کے خلاف پراکسی وار مسلسل جاری ہے۔ بلوچستان سے لے کر سابق فاٹا اور گلگت بلتستان تک یہی مذموم کھیل کھیلا جا رہا ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے نو جوانوں کو دشمن کا آلہ کار نہ بننے دیں۔اس کے ساتھ ساتھ1971ء کے شہدا کی قربانیوں کو بھی یاد رکھیں۔Pakistan: A Hard Country میںAnatol Lievenنے لکھا تھا کہ اگرپاکستان کے ٹکڑے کرنے ہیں تو اس کی فوج کے حوالے سے شکوک و شبہات پیدا کر و‘ زہریلا پروپیگنڈا کرو‘پولیٹکل ونگز‘سیاسی جماعتوں اور سوشل میڈیا کے ذریعے پھوٹ ڈال دو۔ آج آپ نے دیکھا کہ کس طرح قوم منقسم ہے‘ بالخصوص ملک کے نوجوانون طبقے کے ذہنوں کی آبیاری کی گئی ہے۔اس کتاب میں مزید لکھا ہے کہ پاک فوج ہی واحد ادارہ ہے جس نے پوری قوم کو گوند کی طرح جوڑ کر رکھا ہوا ہے ۔بلاشبہ پاک فوج میں چاروں صوبوں کی نمائندگی ہے اور ہر مکتب فکر کو ترقی کے مساوی مواقع حاصل ہیں۔
لمحہ فکر یہ ہے کہ ہمارے ہاں مقبولیت اور حب الوطنی میں تفریق ہی نہیں کی جا سکی ۔ضروری تو نہیں کہ جو لیڈر مقبول ہو وہ محب وطن بھی ہو ۔دنیا میں جتنے بھی غدارگزرے انہوں نے اسی مقبولیت کا ناجائز فائدہ اٹھایا ۔اگر غدار کو قوم کیلئے رول ماڈل بنا یا جائے تو اس سے بڑی غداری کیا ہو سکتی ہے۔ایک سیاسی جماعت یا سیاسی جتھا اپنے مکروہ عزائم کی تکمیل کیلئے فیس بک‘ایکس و دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے نوجوانوں کو گمراہ کر کے اس ملک کی بنیادوں کو کھوکھلا کرنے کی سازش میں ملوث ہے۔ افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ اس گروہ کے سامنے حکمران اور ادارے بے بس دکھائی دیتے ہیں ۔اپنے سیاسی مفادات کیلئے پہلے ہی ملک کے ٹکڑے کر چکے ہیں۔ اب کہیں ایک اور مکتی باہنی تو تشکیل نہیں دی جارہی ؟خدارا! پاک فوج اورریاست کے خلاف نوجوانوں کو نہ بھڑکائیں کیونکہ یہ ملک اب کسی اور المیے کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔پاک فوج ہی پاکستان کے تحفظ و سلامتی کی ضامن ہے ۔