24ویں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے موقع پر وزیراعظم شہباز شریف کی روسی صدر ولادیمیر پوتن سے ملاقات اہمیت کی حامل ہے اور اس کے نتیجے میں تعاون کی نئی راہیں کھلتی دکھائی دے رہی ہیں۔ شنید ہے کہ صدر پوتن رواں برس کے آخر تک پاکستان کا دورہ کرسکتے ہیں۔ ملاقات کے دوران دونوں رہنماؤں نے تمام شعبوں میں دوطرفہ تعاون کو مزید فروغ دینے‘ اقتصادی‘ عسکری‘ سٹریٹجک اور سیاسی تعلقات کو آگے بڑھانے کے لیے ایس سی او فورم کا بہترین استعمال کرنے پر اتفاق کیا۔ اس ملاقات میں پاکستان کا جھکاؤ روس کی جانب دیکھ کر وائٹ ہاؤس تذبذب اور بھارت بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ لیکن امریکہ کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس کا پاکستان سے امتیازی سلوک‘ ڈومور کے نہ ختم ہونے والے تقاضے اور بھارت پر بڑھتی نوازشوں نے دونوں ملکوں کے مابین فاصلے بڑھائے ہیں۔ پاکستان کے Look Westکے بجائے Look East پالیسی اختیار کرنے کی وجہ امریکی رویہ ہی ہے۔ پاکستان نے بیجنگ کے ذریعے ماسکو سے جو تعلقات مضبوط کیے‘ اس سے خطے کا منظر نامہ یکسر تبدیل ہو جائے گا۔ اس کی وجہ تینوں ریاستوں پاکستان‘ چین اور روس کا ایٹمی طاقت ہونا بھی ہے۔ پاکستان کے بعد خطے میں بھارت امریکہ کا واحد اتحادی رہ جاتا ہے جبکہ امریکہ کیلئے بھارت قابلِ اعتبار نہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ آنے والے وقت میں امریکہ بھارت تعلقات میں مزید دراڑیں آئیں گی۔
پاکستان کا روس کے قریب جانا امریکہ کی سفارتی شکست ہے۔ سرد جنگ کے خاتمے کے بعد سے روس اور پاکستان تجارتی اور اقتصادی تعاون بڑھانے کے لیے کوشاں ہیں اور یہ وقت کی ضرورت بھی ہے۔ دونوں ممالک کے مابین باہمی تجارت کا حجم اس وقت ایک ارب ڈالر سالانہ کے لگ بھگ ہے۔ بارٹر سسٹم کے ذریعے اس کو مزید بڑھایا جا سکتا ہے۔ پاکستان کے بجلی و گیس کے مسائل حل ہو جائیں تو یہاں ڈالر کی اجارہ داری ختم ہو سکتی ہے‘ توانائی کے مسائل پر قابو پانے میں روس ہماری کافی مدد کر سکتا ہے۔ اس مقصد کے لیے چین اور روس مسلسل سر گرم عمل بھی ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ ہم امریکی کلب سے دور ہو رہے ہیں‘ یہ چین کے ساتھ مل کر خطے میں ایک نئی قوت کے طور پر اُبھرنے کی تیاری ہے۔ اس میں پُرامن و مستحکم افغانستان کا کردار بہت اہم ہے لیکن وہ ہنوز بھارتی اثر و رسوخ میں ہے۔ افغانستان میں امن کے قیام سے وسطی ایشیائی ریاستوں اور مشرقی یورپ کی تجارتی منڈیوں تک رسائی ممکن ہو سکتی ہے۔ روس کا یوکرین جنگ کے بعد پاکستان کی جانب جھکاؤ اس کے سٹریٹجک مفاد میں ہے۔ چین کے ساتھ گہری دوستی کی وجہ سے ہی پاک روس تعلقات کی گرمجوشی میں اضافہ ہوا ہے۔ خطے میں ہو رہی اس نئی صف بندی سے امریکی بالادستی کو شدید دھچکا لگا ہے۔
پاک روس تعلقات ہمیشہ سے دوستانہ نہیں تھے بلکہ دونوں ملکوں کے تعلقات میں گزشتہ دہائیوں میں کئی نشیب و فراز آئے ہیں۔ یکم مئی 1948ء کو سوویت یونین کے اُس وقت کے نائب وزیر خارجہ آندرے اے گرومائکو (Andrei A. Gromyko) اور پاکستان کے وزیر خارجہ ظفر اللہ خاں کے درمیان نیویارک میں طے پانے والے معاہدے کے تحت سفارتی تعلقات قائم ہونے کے ساتھ کراچی اور ماسکو میں ایک دوسرے کے سفارت خانوں کا قیام عمل میں آیا۔ کراچی میں پاکستان سٹیل ملز کی تعمیر پاک روس مضبوط تعلقات کی اعلیٰ مثال ہے۔ اسی طرح سوویت یونین نے تھرمل توانائی کے شعبے میں پاکستان کی مدد کی اور گیس کی تلاش اور ترقی کے لیے او جی ڈی سی ایل کے قیام میں کلیدی کردار ادا کیا۔ پاکستان کا بڑا گڈو تھرمل پاور پلانٹ روسی ماہرین کی شراکت سے بنایا گیا۔ 2006ء سے ہمارا ملک نیٹو روس کونسل کے افغانستان اور وسطی ایشیائی ریاستوں کے اداروں کے اہلکاروں کو تربیت دینے کے پروگرام میں حصہ لے رہا ہے۔ 2010ء سے انسدادِ منشیات کا تعاون بھی دو طرفہ طور پر فروغ پا رہا ہے۔ اس وقت سینکڑوں پاکستانی طلبا روسی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم ہیں۔ اسی طرح 2011 ء میں روس نے شنگھائی تعاون تنظیم میں پاکستان کی شمولیت کی بھرپور تائید کی۔ روس اور پاکستان کے درمیان مناسب فوجی تعلقات بھی قائم ہیں۔ دونوں ممالک شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن کے رکن ہیں۔ 2014ء میں پاکستان اور روس نے مشترکہ دفاعی تعاون شروع کیا جس میں ملٹری انٹیلی جنس معلومات کا تبادلہ‘ مشترکہ فوجی مشقیں اور فوجی ساز و سامان کی فروخت شامل تھی۔یہی وجہ ہے کہ دونوں کے درمیان اعلیٰ سطح فوجی روابط قائم ہیں اور دونوں 2020ء تک پانچ مرتبہ مشترکہ فوجی مشقوں میں حصہ لے چکے ہیں جن کا آغاز 2016ء میں ہوا تھا۔یہ مشترکہ مشقیں دہشت گردی کے خلاف دونوں ممالک کے درمیان مثالی تعاون کا ثبوت ہیں۔ آرمی چیف اشفاق پرویز کیانی‘ جنرل راحیل شریف اور جنرل قمر جاوید باجوہ ماسکو کے دورے کر چکے ہیں۔
نواز شریف نے 1999 ء میں روس کا سرکاری دورہ کیا۔ اُس وقت بورس یلسن (Boris Yeltsin) روس کے صدر تھے۔ جنرل پرویز مشرف نے بھی روس مخالف پالیسی اختیار نہیں کی۔ اُن کے اقتدار کے آخری دنوں میں روس کے وزیراعظم نے پاکستان کا اہم دورہ کیاتھا۔ 2017ء میں شنگھائی تعاون تنظیم کے ایک اجلاس میں صدر پوتن اور پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کی ملاقات ہوئی جس میں باہمی تعاون کے فروغ کا اعادہ کیا گیا۔ اسی طرح عمران خان نے بھی ماسکو کا دورہ کیا اور صدر پوتن سے دو طرفہ تعاون بڑھانے کے لیے بات چیت کی۔ وزیراعظم شہباز شریف نے اس سلسلے کو آگے بڑھایا ہے۔ ان دو طرفہ تعلقات میں اُس وقت اہم پیش رفت ہوئی جب 45ہزار ٹن روسی خام تیل کی پہلی کھیپ پاکستان پہنچی۔ پاکستان نے چینی کرنسی میں روسی خام تیل کی ادائیگی کی۔ روس کے ساتھ کشیدگی کو طویل عرصہ تک بھارت بڑی مکاری سے ہمارے خلاف استعمال کرتا رہا ہے۔ روس نے بھارت کو دفاعی طور پر مضبوط کرنے میں ہر ممکن مدد فراہم کی مگر جب بھارت نے امریکہ کی طرف تعلقات کیلئے ہاتھ بڑھایا تو امریکہ نے اسے پاکستان کی قیمت پر ویلکم کہا۔ دوسری جانب 1965ء کی پاک بھارت جنگ‘ سقوطِ ڈھاکہ اور افغان روس جنگ کے بعد امریکہ نے پاکستان سے آنکھیں پھیر لیں اور پاکستان کو دہشت گردی کے خلاف اپنی طویل جنگ میں جھونک دیا۔ موجودہ حالات بتا رہے ہیں کہ روس خطے میں اپنا کردار ادا کرنے کے لیے دوبارہ سرگرم ہو چکا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی پشت پناہی میں علاقے کا تھانیدار بننے کے خبط میں مبتلا بھارت کی نیندیں حرام ہو چکی ہیں۔ چین کی اقتصادی ترقی نے امریکہ کو ایک نئے دوراہے پر لا کھڑا کیا ہے۔ امریکہ اور اُس کے اتحادیوں کے تشکیل کردہ اتحاد ''کواڈ‘‘ کا ہدف صرف اور صرف چین ہے۔ پاکستان کے چین اور روس جیسے اہم اور بڑے ممالک سے بڑھتے ہوئے تعلقات جہاں ہمارے لیے ترقی اور استحکام کی نوید ہیں وہیں ان تعلقات سے ایسے ممالک کو بھی ٹھوس پیغام مل جائے گا جو پاکستان کو ترقی کرتے اور خوشحال ہوتے نہیں دیکھنا چاہتے۔ خطے میں داعش کے پھیلاؤ اور دہشت گردی کے بڑھتے خطرات کی وجہ سے‘ پاکستان کی تزویراتی اہمیت اور اثر و رسوخ کے تناظر میں اسلام آباد سے خوشگوار تعلقات خود روس کے اپنے مفاد میں ہیں۔ خطے میں امریکہ اور بھارت کے توسیع پسندانہ عزائم کے توڑ کے لیے ایک نئے بلاک کی تشکیل ناگزیر ہو چکی ہے۔ لیکن پاک روس خوشگوار تعلقات سے بھی خطے میں امریکہ کا بگاڑا گیا طاقت کا توازن بہتر ہو سکتا ہے۔