آہنی برادرزچین اور پاکستان کی ہمالیہ سے بلند‘ شہد سے میٹھی‘ سمندروں سے گہری دوستی کو 75 برس مکمل ہو چکے ہیں ۔بے شک پون صدی کو محیط یہ بے مثال ولازوال دوستی آئندہ صدیوں تک بھی قائم رہے گی۔ چین اور پاکستان کے درمیان باقاعدہ سفارتی تعلقات 21 مئی 1951ء کو قائم ہوئے تھے۔ تاریخ گواہ ہے کہ پاک چین دوستی کی بنیاد تو اس وقت پڑی تھی جب نہ پاکستان کاقیام عمل میں آیا تھا اور نہ ہی جدیدچین معرضِ وجود میں آیا تھا۔ اگر چہ چین پانچ ہزار سال پرانا ملک ہے لیکن اس میں استعماری و سامراجی نظام کا خاتمہ قیام پاکستان کے دوسال بعد ہوا تھا۔ بانیٔ پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے بہت پہلے تعین کر لیا تھا کہ جب پاکستان وجود میں آئے گا تو دوسری جانب چین کی کمیونسٹ پارٹی بھی اپنے مقاصد میں کامیاب ہو جائے گی تو باقاعدہ طور پر سٹریٹجک تعلقات کا آغاز کر دیا جائے گا۔اسی مقصد کو مد نظر رکھتے ہوئے قائد نے آل انڈیا مسلم لیگ کا ایک وفد چیئر مین مائو زے تنگ کے پاس بھیجا تھا۔ دنیا نے دیکھا کہ ان 75 برسوں میں اس رشتے میں کوئی دراڑ نہیں آئی اوریہ ہمیشہ کی طرح مضبوط اور پائیدار ہے ۔ان برسوں میں پاکستان پر ایسے مراحل بھی آئے جب چین سے تعلق ختم کرنے کیلئے دبائو ڈالا جاتا رہالیکن یہ وہ عظیم رشتہ ہے جو کبھی بھی عالمی اور علاقائی صورتحال کے تابع نہیں رہا۔ اس کی پہلی مثال کورین جنگ ہے اس وقت ہم سیٹو اورسینٹو کے ممبر تھے یعنی ویسٹرن ملٹری الائنس میں تھے۔ امریکہ نے کوریا جنگ میں پاکستان سے اپنے فوجی دستے بھیجنے کو کہاحالانکہ اس وقت ہم مغربی کیمپ میں تھے اور ہماری دس سالہ ترقی کا راز یہی مغربی قرضے ہی تھے۔ چین تو اُس وقت غریب ملک تھا‘ اس کے باوجود ہم نے دبائو برداشت کیا کیونکہ قائد کی سٹریٹجی اس حوالے سے واضح تھی کہ ہمارے قومی اور معاشی مفادات روزِ اول سے چین سے وابستہ ہیں۔ امریکہ کے ساتھ تو مراسم قیام پاکستان سے ہی نشیب و فراز کا شکار رہے ہیں مگر دنیا کی سفارتی تاریخ میں پاک چین تعلقات کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔
آج کہا جا رہا ہے کہ پاکستان چین کے ساتھ توازن نہیں رکھ پایا۔سوال یہ ہے کہ اگر ہم توازن نہ رکھتے تو کیاواہ کینٹ ‘ٹیکسلا‘ کامرہ بنتا ‘چشمہ ایٹمی پلانٹ کی تعمیر ممکن ہو پاتی جس کا سفر اب ففتھ جنریشن کی طرف چل پڑا ہے‘ JF17‘ شپس‘سب میرینز ‘J-10C ائیر کرافٹس ہمارے پاس ہوتا؟ ہماری سیاسی و عسکری قیادت سمیت تمام قومی ادارے چین کے حوالے سے ایک پیج پر ہیں۔ اس بارے میں کسی کو بالخصوص نوجوان نسل کو کوئی ابہام نہیں ہو نا چاہیے ۔ کشمیر کا مسئلہ ہو تو ہمارے ساتھ کون کھڑا ہوتا ہے۔ دہشت گردی کی جنگ میں یو این او سکیورٹی کونسل میں ہمارے لیے آواز کون بلند کرتا ہے۔ ان کا فلسفہ پارٹنر شپ ہے اس لیے پاکستان کا ان سے الائنس نہیں بلکہ پاکستان چائنا سٹریٹجک کوآپریشن پارٹنرز ہیں۔ 1963ء میں چین کے ساتھ سرحدیں ملانے کے ساتھ ہی سٹریٹجک الائنس قائم ہوا اوراس کے بعد سی پیک بنا جبکہ اس عظیم منصوبے کے حوالے سے بہت سی غلط فہمیاں پھیلائی گئی ہیں۔ واضح رہے کہ سی پیک کسی ایک معاہدے کا نام نہیں اور نہ ہی صدر شی جن پنگ کو خواب میں آیا تھا کہ وہ اٹھے اور 2015ء میں یہ معاہدہ کر ڈالا۔ یہ ایک سٹریٹجک ویژن ہے۔ چیئر مین مائو نے 1949ء میں اپنی پہلی سٹیٹ پالیسی کے تحت بڑے واضح الفاظ میں کہا تھا کہ '' پاکستان ہماری شمال مغربی کھڑکی ہے‘‘۔وہی اس ویژن کی ابتدا ہے ۔ چین نے خنجراب سے گوادر تک ہمیں پروجیکٹ بنا کر دیا ‘انڈسٹریل زون بنائے‘ ہم نے کیا کِیا‘اس کو رئیل اسٹیٹ بنا دیا۔ اس میں بلوچستان کی تزویراتی اہمیت سے صرفِ نظر نہیں کیا جا سکتا ۔ امریکہ سمیت مغربی طاقتوں اور بھارت سب کی نظریں اس کے وسائل پر ہیں‘اسی لیے تو عالمی سامراج نے اس کو ہدف بنا رکھا ہے۔ آپ دیکھیں گے کہ سی پیک کا چینی لٹریچر میں فیز 2 نہیں ملے گا۔ سی پیک کا فیز1تب شروع ہوا تھا جب ہم نے قراقرم ہائی وے بنانے کیلئے زمین پر پہلی ضرب لگائی تھی۔ قراقرم ہائی وے بنانے کیلئے ارمچی سے ابیٹ آباد تک کیوں قربانیاں دیں ؟ آخر اس کو بنانے کا مقصد کیا تھا؟ 2021 ء میں گوادر پورٹ کا آغاز ہوا ‘اس بندرگاہ کی تعمیر کے ساتھ ہی عظیم اکنامک راہداری کے دو فیز مکمل ہو جاتے ہیں۔ تیسرے فیز کے تحت قراقرم ہائی وے کو آل ویدر ہائی وے بنا دیا۔ سی پیک کا پروجیکٹ تو 2006ء میں فائنل ہو گیا تھا۔ باقاعدہ افتتاح کیلئے 2008ء میں چینی صدر Hu Jintaoکا دورۂ پاکستان طے تھا ۔افسوس! اُس وقت وطنِ عزیز میں اُٹھنے والی دہشت گردی کی بدترین لہر نے اس کو التوا میں ڈال دیا‘جو 2005ء سے 2012ء تک جاری رہی۔ آج ایک بار پھر ہمارا ملک شدید دہشت گردی کی لپیٹ میں ہے؛چنانچہ2013ء میں از سر نو انقلابی پروجیکٹ کے افتتاح کا فیصلہ ہوا۔ اس منصوبے کا خاکہ وہی ہے کہ راہداری کے ساتھ ساتھ انڈسٹریل زون بھی بنایں جائیں گے۔ تب اس کو '' پاکستان چائنا انرجی کوریڈور ‘‘کا نام دیا گیا تھا۔ بعدازاں 'انرجی‘ کا E ' اکنامک ‘میں بدل دیا گیا۔ یہ بہت بڑا سٹریٹجک ویژن ہے جو ہمارے پانچ سالہ‘ دس سالہ منصوبوں کی طرح نہیں بلکہ چینی سو دوسو سال پہلے ہی منصوبے بنا لیتے ہیں‘ جس کی اعلیٰ مثال ان کے قیام کے ساتھ ہی تشکیل دیے گئے دو نصب العین ہیں۔ ان کا پہلا مقصد یہ تھا کہ1921 ء میں بنی کمیونسٹ پارٹی آف چائنا کے 100برس مکمل ہونے پر چین سے انتہائی شدید غربت کا خاتمہ کر دیا جائے گا۔ وہاں غربت کا یہ عالم تھا کہ وہ یہ نہیں پوچھتے تھے کہ آپکا کیا حال ہے بلکہ کہتے تھے کہ آپ نے کھا نا کھا یا ہے۔ 2021ء میں وہی چین اقوام عالم میں ترقی کی اوجِ ثریا پر نظر آیا۔ آج 18 ٹریلین ڈالرز ذخائر رکھنے والا چین غربت سے نکلنے میں کامیاب ہو چکا ہے۔ عوامی جمہوریہ چین نے برق رفتاری سے اپنا ترقی کا سفر جاری رکھتے ہوئے کئی اہداف حاصل کیے ہیں ۔چینیوں کے نزدیک کوئی قوم اس وقت تک ترقی‘ آزادی اور خود مختار ی نہیں پا سکتی جب تک اسکی آخری ریاست کے آخری گائوں کا آخری فرد خوشحالی کے ثمرات سے مستفید نہ ہو۔ یہ چینی ہی ہیں جن کے بارے میں 1936ء میں علامہ اقبال نے کہا تھا؛
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
ہمالہ کے چشمے اُبلنے لگے
یہ وہ وقت ہے جب کمیونسٹ پارٹی اپنے حقوق و آزادی کیلئے لانگ مارچ کر رہی تھی۔ در حقیقت امریکہ کا چین سے سپر پاور کا مقابلہ نہیں ‘یہ تہذیب اوراعلیٰ گورننس کا ٹکڑائوہے۔ عوامی جمہوریہ چین کے آج اور کل کا احاطہ کرنے کیلئے علم و آگہی کے ساتھ تحقیق اور ادراک کا ہونا ضروری ہے۔ کہا جاتا رہا کہ چین اپنے نظام میں نا کام رہے گا‘جب سوویت یونین ٹوٹا تو پھر یہ فرق سمجھ آیا کہ چین کا کمیونزم روس سے مختلف ہے۔روس اور چین کی راہیں تو1954ء میں ہی جدا ہو گئی تھیں۔ سوویت یونین چاہتا تھا کہ ایک ہی طرح کا دنیا میں نظام ہو اور اس کا مرکز ماسکو ہولیکن چین کی خصوصیت سوشلزم ہے۔ چین نے ہی اقوام عالم کو باور کروایا کہ ہر ملک‘ ریاست اپنی قوم ‘مزاج کے مطابق سسٹم اختیار کرے۔ ان کا دوسرا ہدف یہ ہے کہ 2049ء تک ملک و قوم کو جغرافیائی ‘تزویراتی اور سیاسی طور پر سب سے اوپر لے کر جا نا ہے۔ انہی مقاصد کی تکمیل کیلئے شی جن پنگ کو وقت دیا گیا۔ اس سے پہلے مائو زے تنگ نے 27 برس تک حکومت کی تھی۔ سچ پو چھیے تو آج ہمیں بھی عوامی جمہوریہ چین کی جدو جہد ‘آگے بڑھنے کے جنون و جذبہ کی ضرورت ہے۔