"MAHG" (space) message & send to 7575

بھارت کے گرد گھیرا تنگ

پا ک فوج کے شاہینوں اور جانبازوں نے بھارتی گھمنڈ اور اس کی نام نہاد طاقت کے تابوت میں آخری کیل ٹھونک دیا ہے۔ ہندوستان کو دھول چٹانے کا یہ سلسلہ رکا نہیں بلکہ اس کے بعد چین نے بھی مغرور مودی کو سبق سکھانے کیلئے اروناچل پردیش میں عسکری کارروائیاں بڑھا دی ہیں۔ جب میں پاکستان اور چین کی بھارت کے حوالے سے زبردست سرگرمیاں دیکھتا ہوں تو دل اَش اَش کر اٹھتا ہے۔ حالیہ واقعہ ہی ملاحظہ کیجئے! ہمارا ازلی مکار دشمن ابھی میدانِ جنگ میں اپنے زخم چاٹ رہا تھا کہ چین نے ہندوستان کے زیر قبضہ متنازع ریاست اروناچل پردیش میں 27 مقامات کے نام چینی اور تبتی زبانوں میں تبدیل کرکے گجرات کے قصائی کی نیندیں حرام کر دی ہیں۔ چین کا حالیہ اقدام بھارت کے لیے ایک واضح پیغام ہے کہ بھارت کو پاکستان اور چین کے ساتھ سرحدی تنازعات اور ان ممالک کے علاقوں پر غیرقانونی قبضے پر سخت اور فیصلہ کن رد عمل دیا جائے گا۔ ہندوستان جس طرح مقبوضہ کشمیر پر قابض ہے بالکل اسی طرح مشرق میں اروناچل پردیش پر بھی اس کا قبضہ متنازع اور غیرقانونی ہے۔ چین نے بڑا اور واضح قدم اٹھاتے ہوئے مقبوضہ ریاست اروناچل پردیش میں 27مقامات‘ جن میں پہاڑ‘ دریا‘ جھیلیں‘ درّے اور رہائشی علاقے شامل ہیں‘ کے نام چینی اور تبتی زبانوں میں تبدیل کر دیے ہیں۔ چین اس ریاست کو ''زنگنان‘‘ یعنی جنوبی تبت قرار دیتا ہے۔ چین 2017 ء سے 2025ء تک 89مقامات کے نام تبدیل کر چکا ہے۔ واضح رہے کہ یہ محض نام بدلنے کی کارروائی نہیں بلکہ چین کی ایک منظم حکمت عملی ہے جس کا مقصد دنیا کو یہ باور کرانا ہے کہ مذکورہ متنازع علاقے تاریخی طور پر چین کا حصہ تھے‘ ہیں اور رہیں گے۔ اگر چینی اقدامات کو 1962ء کی جنگ کے پس منظر میں دیکھا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ چین اروناچل پردیش پر صرف بیانیہ قائم نہیں کر رہا بلکہ اس کی عملی پیش قدمی جاری ہے۔ تاہم بیجنگ کی سٹریٹجی صرف نام بدلنے تک محدود نہیں بلکہ وہ اس خطے میں زمینی تبدیلیاں بھی لا رہا ہے۔ اسی مقصد کے پیشِ نظر اروناچل پردیش کے سرحدی علاقوں میں فوجی تعمیرات سمیت سویلین بستیاں بسائی جا رہی ہیں جو بظاہر دیہی ترقی کے منصوبے ہیں مگر حقیقت میں 'بارڈر گریپ‘ یعنی خاموش قبضہ کی چالیں ہیں۔ ان بستیوں کو بنیاد بنا کر چین مستقبل میں عالمی سطح پر یہ دلیل دے گا کہ ان علاقوں میں تو چینی شہری برسوں سے آباد ہیں۔ یہی نہیں 2021ء کے سرحدی قانون کے تحت چین نے ان علاقوں کے دفاعی انتظامات کو قانونی تحفظ دیا ہے‘ یعنی اب یہ تمام اقدامات چین کے ریاستی قانون کے تحت باقاعدہ حیثیت رکھتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ علاقے میں چینی اقدامات کے تناظر میں پاکستان کہاں کھڑا ہے؟ تو اس کا جواب ہے ''انتہائی اہم مقام پر‘‘!
اروناچل پردیش اور کشمیر بظاہر الگ الگ علاقے ہیں مگر بھارت کے لیے دونوں سرحدیں ایک جیسی سٹریٹجک اہمیت رکھتی ہیں۔ مغرب میں پاکستان اور مشرق میں چین دونوں ممالک بھارت کے غیرقانونی قبضے کو چیلنج کر رہے ہیں۔ اگر چین اروناچل پردیش کو جنوبی تبت کہہ کر اپنے نقشے کا حصہ بنا سکتا ہے تو پاکستان کیوں نہیں؟ کشمیر اس کا تاریخی اور قانونی حصہ ہے۔ چین نے عالمی فورمز پر متعدد بار یہ واضح کیا ہے کہ کشمیر متنازع علاقہ ہے اور اس نے پاکستان کے ہمراہ سی پیک سمیت دیگر اہم منصوبوں کے ذریعے اس بیانیے کو تقویت بھی دی ہے۔ اب اگر چین اروناچل پردیش میں اپنی موجودگی بڑھاتا ہے تو بھارت کو ایک طرف پاکستان سے اور دوسری طرف چین سے دوطرفہ دباؤ کا سامنا ہوگا‘ جس کے نتیجے میں اقوام عالم کے سامنے بھارت کا بیانیہ کمزور پڑے گا جبکہ پاکستان کو اخلاقی‘ قانونی اور سفارتی محاذ پر کامیابی ملے گی۔ یہ تمام اقدام سفارتی و عسکری ہی نہیں نفسیاتی سطح پر بھی بھارت کیلئے شدید دھچکا ہیں۔ قبل ازیں 2020ء میں گلوان وادی میں خونریز جھڑپ میں چین نے بھارت کی ٹھکائی کرکے اس کو دو ٹوک بتا دیا تھاکہ ایل اے سی پر طاقت کا توازن چین کے حق میں ہے‘ لہٰذا یہ کہنا قبل از وقت نہیں ہے کہ اب چین کوئی فیصلہ کن قدم اٹھاتا ہے تو اروناچل پردیش کے ساتھ ساتھ بھارت کی شمال مشرقی ریاستیں بھی خطرے میں پڑ سکتی ہیں اور یہی وہ مرکزی نکتہ ہے جہاں پاک چین اور بنگلہ دیش کا تزویراتی اتحاد بھارت کیلئے سب سے بڑا چیلنج ہو گا۔ بنگلہ دیش کی ائیر بیس لال مونیراٹ (Lalmonirhat) پروجیکٹ سے چوہدری بننے کے خبط میں مبتلا مودی بوکھلاہٹ کا شکار ہے کیونکہ یہ ایئر بیس بھارت کی سیون سسٹرز‘ شمال مشرقی ریاستوں سے 10کلومیٹر اور Chicken Neck سے صرف 100کلومیٹر کی دوری پر ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں کہ Chicken Neckجسے سلی گوری کوریڈور بھی کہا جاتا ہے‘ بھارت کیلئے پھندا بن گیا ہے۔ اب بھارت کہاں تک بھاگے گا؟ چکن نیک یا سلی گوری کاریڈور ایک انتہائی اہم جغرافیائی مقام ہے‘ اور بھارت کی تزویراتی کمزوری بھی ہے۔ اگر یہ راہداری کسی تنازع یا جنگ میں بند ہو جائے تو پورا شمال مشرقی بھارت باقی ملک سے کٹ سکتا ہے۔ کیا واقعی ہمارے دشمن کے نیچے سے زمین کھسک رہی ہے اور بنگلہ دیش لال مونیراٹ ائیر بیس پر چین کے حوالے سے اب ان ریاستوں کو آزاد ہونے سے کوئی نہیں بچا سکتا۔ بنگلہ دیش کی ایئر بیس اس مقام پر ہے جہاں سے بآسانی ان سات ریاستوں کو تمام بھارت سے الگ کیا جا سکتا ہے۔ جس طرح آج سے 50سال قبل بھارت نے پاکستان سے مشرقی پاکستان کو جدا کر دیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ نئے بننے والے اتحاد نے اس کو ہلا کر رکھ دیا ہے اور اسے یہ سیون سسٹرز ہاتھ سے نکلتی ہوئی دکھائی دے رہی ہیں۔
بیلٹ اینڈ روڈ انیشی ایٹیو کے ذریعے چین پہلے ہی نیپال‘ بھوٹان‘ سری لنکا جیسے ممالک کو معاشی طور پر اپنے ساتھ جوڑ چکا ہے۔ بھارت کی سفارتی اور جغرافیائی پوزیشن گھٹتی جا رہی ہے۔ اسی اثنا میں بھارت پاکستان پر جنگی دباؤ بڑھاتا ہے تو چین اس کی مشرقی سرحد پر دباؤ ڈال کر اسے گھیر ے میں لے لے گا۔ حالیہ پاک بھارت جنگ کے دوران چین نے اروناچل پردیش کے نام تبدیل کر کے ٹھوس پیغام دے دیا ہے کہ وہ پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔ یہ محض اتفاق نہیں بلکہ ایک منظم حکمت عملی ہے۔ چین جانتا ہے کہ بھارت امریکہ اور مغربی اتحاد کے ساتھ مل کر انڈوپیسفک میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتا ہے‘ یہی وجہ ہے کہ چین بھارت پر عسکری‘ سفارتی‘ معاشی‘ نفسیاتی سمیت کئی محاذوں پر دباؤ ڈال رہا ہے۔ اور اب سوال یہ ہے کہ بھارت کا اس پر جوابی ردِعمل کیا ہو گا؟ ابھی تک اس کی جانب سے ایک پریشان‘ خوفزدہ اور گھبرائے ہوئے ملک کی مانند یہی الفاظ سننے کو مل رہے ہیں کہ ''بے معنی‘‘، ''مضحکہ خیز‘‘، ''اروناچل ہمارا اٹوٹ انگ ہے‘‘جو بھارتی کمزوری اور بوکھلاہٹ کو ظاہر کرتے ہیں۔ درحقیقت بھارت اب ایک ایسے گہرے دباؤ کے اثر میں آ چکا ہے جہاں اس کے دونوں سرے‘ کشمیر اور اروناچل پردیش‘ غیرمحفوظ ہوتے جا رہے ہیں۔ دنیا جانتی ہے کہ چین اور پاکستان کی مشترکہ حکمت عملی بھارت کے ''اکھنڈ بھارت‘‘ کے توسیع پسندانہ عزائم کی تکمیل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ آخر میں راقم الحروف یہی کہنا چاہتا ہے کہ یہ وقت پاکستان اور چین کیلئے سفارتی‘ میڈیا اور عالمی سطح پر اپنے بیانیے کو مزید مضبوط کرنے کا ہے۔ ہمیں اپنے اتحاد کو مزید فعال اور مؤثر بنانا ہو گا تاکہ دنیا کو سچ کا آئینہ دکھایا جا سکے۔ کیونکہ نہ کشمیر بھارت کا حصہ ہے نہ اروناچل پردیش۔ خطے میں امن و استحکام صرف انصاف سے آئے گا اور انصاف تبھی ہو گا جب بھارت کے یہ غیرقانونی قبضے ختم ہوں گے۔ پاک چین دوستی پائندہ باد!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں