"BGC" (space) message & send to 7575

نان زیرو سم گیم

گاہے یوں لگتا ہے جیسے یہ زندگی چیستاں میں لپٹی پہیلی میں چھپا ایک ایسا معمہ ہے جو شاید کبھی حل نہ ہو پائے اور کبھی یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کتاب زیست کے اوراق تو بہت واضح اور آسان فہم ہیں۔ زندگی کی یہ گرہ اور گتھی سلجھانے کی تگ و تاز میں انسان بتدریج الجھتا چلا جاتا ہے اور ستاروں کی گزر گاہیں تو ڈھونڈ لیتا ہے ‘سیاروں اور ستاروں پر کمند تو ڈال لیتا ہے ‘ مگر اپنی زندگی کا راز اسے نہیں مل پاتا۔ کائنات کے سربستہ راز کھوجنے والے انسان کی اپنی تخلیق کا معمہ حل نہیں ہو پاتا۔ مثال کے طور پر پیدا ہوتے ہی ہم بچوں کو سکھاتے ہیں کہ زندگی ایک دوڑ، ایک مقابلہ، ایک چومکھی لڑائی، ایک مشکل محاذ اور جنگ ہے جسے ہر حال میں جیتنا لازم ہے۔ اگر آپ نے آگے بڑھنا اور لڑنا ہے تو ہارنے والوں کی شکست و ریخت پر قدم رکھتے ہوئے پیش قدمی کرنا پڑے گی یعنی آپ کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ باقی سب لوگ ناکام ہوں اور آپ ان کو پچھاڑتے ہوئے فتح کے جھنڈے گاڑتے چلے جائیں۔ بچپن میں کھلونوں کی چھینا جھپٹی سے کلاس میں پہلی پوزیشن لینے تک ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی یہ کشمکش زندگی بھر جاری رہتی ہے۔ ہر مقابلے، ہر میدان کا بنیادی اصول یہی ہے کہ اپنے حریف کو چاروں شانے چِت کرنا ہے۔ کشتی کا اکھاڑا ہو، باکسنگ کا رنگ یا پھر ہاکی اور کرکٹ کا میدان، ہر جیت کے ساتھ ہار مضمر ہے۔ ٹاس ہوتا ہے۔ سکہ اچھالا جاتا ہے، سکے کا کوئی بھی رُخ سامنے آئے، دونوں صورتوں میں ایک کھلاڑی کی جیت ہوتی ہے اور دوسرے کی ہار۔ اگر آپ نے شرط لگائی ہے تو جیت جانے کی صورت میں آپ کا جتنا فائدہ ہو گا، آپ کے مدمقابل کو اتنا ہی نقصان اٹھانا پڑے گا۔ یہ وہ بنیادی اصول ہے جس کی بنیاد پر پوری دنیا ایک گول دائرے میں گھوم رہی تھی۔ اقتصادی ماہرین اور ریاضی دان اسے اپنی اصطلاح میں ''زیرو سم گیم‘‘ کہتے ہیں یعنی جمع تفریق کے بعد نفع یا نقصان کا شمار کریں تو جواب زیرو آتا ہے۔ ایک شخص نے بازی لگائی، اس نے اگر پچاس ہزار روپے جیتے ہیں تو جن کھلاڑیوں کو اس نے مات دی ہے ان کے مجموعی نقصان کا تخمینہ بھی پچاس ہزار روپے ہی ہو گا۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں جیت کا سہرا سجانے کے لیے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کی کوشش کی جاتی ہے، سازشوں کا جال بچھایا جاتا ہے اور مخالفین کو ناکام بنانے کی تگ و دو ہوتی ہے۔
لیکن بیسویں صدی کے اوائل میں دو ماہرین نے ایک ایسا نظریہ پیش کیا جس نے نہ صرف اس آفاقی اصول کو غلط ثابت کیا بلکہ سوچ کا دھارا ہی بدل کر رکھ دیا۔ جان وین نیومان اور آسکر مارگرینسٹرن نے یہ استدلال اختیار کیا کہ ہم انسان ''زیرو سم گیم‘‘ کے بجائے ''نان زیرو سم گیم‘‘ کا انتخاب کیوں نہ کریں؟ یعنی ایک ایسا میدان جس میں کسی فاتح کے لیے مفتوح کی حاجت نہ ہو۔ سب کی قسمت کی ڈور ایک دوسرے کی کامیابی یا ناکامی سے بندھی ہو، سب مل کر جدوجہد کریں اور پھر مقدر ساتھ دے تو سب جیت جائیں یا پھر سب ہار جائیں۔ امریکی مصنف رابرٹ رائٹ نے اس موضوع پر ایک کتاب لکھ کر وضاحت کی کہ ''نان زیرو سم گیم‘‘ ہے کیا۔ رابرٹ رائٹ کا خیال ہے کہ یہ زندگی کا سب سے بیش قیمت راز ہے جو کسی انسان نے دریافت کیا ہے۔ ''نان زیرو سم گیم‘‘ میں نفع اور نقصان کے امکانات بدرجہ اتم موجود ہیں یعنی ''جیت، جیت‘‘ ہی واحد صورت نہیں ''ہار، ہار‘‘ بھی ممکن ہے مگر بنیادی اصول یہ ہے کہ یا تو سب کی فتح ہو گی یا پھرسب کی ہار۔ اس کھیل کا کمال یہ ہے کہ سب کھلاڑی ایک اکائی بن جاتے ہیں، کوئی متحارب یا کوئی مخالف نہیں رہ جاتا۔ مثال کے طور پر جب 1970ء میں اپالو تھری میں بھٹکتے 13 خلا باز سیاروں کو مسخر کرنے نکلے تو نہ صرف وہ خلا باز بلکہ پوری دنیا ''نان زیرو سم گیم‘‘ کے اصول پر آ گئی۔ اگر وہ ناکام رہتے تو یہ بنی نوع انسان کی ناکامی ہوتی اور اگر کامیاب ہوتے تو یہ سب کی مشترکہ کامیابی ہوتی۔ ان خلا بازوں میں سے کسی کو یہ فکر نہ تھی کہ فلاں جیت گیا تو میں ہار جائوں گا۔ اگر ہم زندگی کو اپالو تھری سمجھ لیں اور یہ یقین کر لیں کہ ان خلا بازوں کی طرح ہماری کامیابی کی ڈور بھی ایک دوسرے سے جڑی ہے تو دنیا امن کا گہوارہ بن جائے۔
مجھے''نان زیرو سم گیم‘‘ کا خیال تب آیا جب لاہور کے قذافی سٹیڈیم میں پشاور زلمی اور کوئٹہ گلیڈیٹرز کی ٹیمیں مدمقابل تھیں اور دوست پوچھ رہے تھے کہ آپ کی تائید و حمایت کس کے ساتھ ہے۔ میرا خیال ہے یہ میچ محض کرکٹ کے کھیل تک محدود نہ تھا اور اس میں دو ٹیموں میں سے کسی کی ہار یا جیت غیر متعلقہ ہو کر رہ گئی تھی۔ یہ تو ہم سب کے لیے ایک ''نان زیرو سم گیم‘‘ تھی۔ پنجاب پولیس، رینجرز، حساس ادارے، پنجاب حکومت، پاکستان کرکٹ بورڈ، پاکستان سپر لیگ، کرکٹ میچ کھیلنے والے کھلاڑی، داد و ستد کے ڈونگرے برسانے اور نعرے لگانے والے تماشائی، گھروں میں ٹی وی سکرینوں سے چپکے کروڑوں پاکستانی، سب کے سب اس ''نان زیرو سم گیم‘‘ کا حصہ تھے اور ان سب کی جیت یا ہار سانجھی ہوتی۔ الحمدللہ، سب کی کوششیں رنگ لائیں، امیدیں بر آئیںاور ہم سب یہ میچ جیت گئے۔
کیا ہی اچھا ہو اگر ہم زندگی کے ہر میدان میں ''زیرو سم گیم‘‘ کے بجائے ''نان زیرو سم گیم‘‘ کی سطح پر آ جائیں جہاں کسی جیت کا جشن ہو یا ہار کا ماتم، ایک ساتھ ہو۔ کسی کو جیتنے کے لیے کسی کو مات نہ دینا پڑے۔ زندگی ایک ایسی شرط یا جواء نہ رہے جس میں ایک آباد ہو تو دوسرا برباد۔ زیرو سم اور نان زیرو سم گیم کی سادہ اور آسان سی مثال تو یہ ہے کہ جب ہم ٹریفک میں پھنسے ہوتے ہیں، ہمارے دائیں ہاتھ والی لین جو آنے والوں کے لیے مخصوص ہوتی ہے، ہم اس پر قبضہ جما لیتے ہیں اور یوں جلدی نکلنے کی جستجو میں گھنٹوں پھنسے رہتے ہیں۔ جب ہم پیدل چلنے والوں کی بھیڑ میں آگے بڑھنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں یا کسی بھی دوڑ میں باقی سب کو پیچھے چھوڑنے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں‘ تو ہم اپنے آگے چل رہے شخص کو پیچھے دھکیلنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس کوشش کے دوران غیر دانستہ طور پر خود بھی ایک قدم پیچھے چلے جاتے ہیں۔ اس کے بجائے اگر ہم ''نان زیرو سم گیم‘‘ کے اصول پر چلیں تو آگے بڑھتے شخص کو آگے کی طرف دھکیلیں اور اس دوران خود بھی مسلسل آگے بڑھتے چلے جائیں۔
''زیرو سم گیم ‘‘نے اس دنیا کو حقیر نوعیت کے معمولی مفادات کے خانوں میں تقسیم کردیا ہے جہاں ہر شخص ایک دوسرے سے برسرپیکار ہے اور بقا کا انحصار محض اس بات پر ہے کہ کس کو وار کرنے کا موقع پہلے میسر آتا ہے۔ اس کے برعکس ''نان زیروسم گیم‘‘ میں سب کے لیے زندگی ایک ناقابل تقسیم اکائی دکھائی دیتی ہے جہاں مذہب‘ مسلک‘ قومیت‘ علاقائیت اور لسانیت سمیت کوئی تخصیص باقی نہیں رہتی اور بنی نوع انسان کے مفادات سانجھے اور مشترکہ قرار پاتے ہیں۔ یہ زندگی ایک ایسی ریل گاڑی ہے جو منزل مقصود پر ''نان زیرو سیم گیم‘‘ کی حکمت عملی کے تحت ہی پہنچ سکتی ہے اور اس کے لیے انسانوں کو کسی کھونٹی سے باندھنے کی ضرورت نہیں۔ احترام آدمیت کا جذبہ ہی کافی ہے‘ محض یہ احساس کہ ہم سب کے مقدر کی ڈور ایک دوسرے کے ہاتھوں میں ہے۔ ڈوبنا ہے یا بچے رہنا ہے اس منجدھار میں بیچ دریا ایک ساتھ ہی بہنا ہے۔
کیا ہی اچھا ہو اگر ہم زندگی کے ہر میدان میں ''زیرو سم گیم‘‘ کے بجائے ''نان زیرو سم گیم‘‘ کی سطح پر آ جائیں جہاں کسی جیت کا جشن ہو یا ہار کا ماتم، ایک ساتھ ہو۔ کسی کو جیتنے کے لیے کسی کو مات نہ دینا پڑے۔ زندگی ایک ایسی شرط یا جواء نہ رہے جس میں ایک آباد ہو تو دوسرا برباد۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں